چوتھی و آخری قسط:
”ایک اور تاریخی و بین الاقوامی عہد کو توڑ دیا گیا ہے اور وہ عہد یہ تھا کہ موجودہ ایٹمی ہتھیاروں کی آزمائشیں نہ کی جائیں اور نئے ایٹمی ہتھیار نہ بنائے جائیں۔” (ص 135)
”اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کے کسی کنٹرول میں اور زیرنگرانی نہ ہونے کی وجہ سے اس کے پڑوسی ملکوں ایران، شام، مصر اور دوسرے عرب ملکوں کے لیڈر ایٹمی ہتھیاروں کی مالک برادری میں شامل ہونے کا سوچ رہے ہیں۔” (ص 137)
”موجودہ امریکی پالیسی ان بین الاقوامی معاہدوں کے مؤثر ہونے کے لیے خطرہ بن رہی ہے جن کے لیے تقریباً تمام سابق صدور نے جانفشانی سے مذاکرات کیے تھے۔ عالمی استحکام کو درپیش اس سے بھی بڑا خطرہ پیش بندی کے لیے کی جانے والی جنگ کی پالیسی ہے جس کی پہلے کبھی مثال نہیں ملتی۔ یہ حالیہ فیصلہ نہ صرف امریکا کی تاریخی پالیسیوں سے انحراف ہے بلکہ ان بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی بھی ہے جن کے احترام کا ہم وعدہ کر چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کا دستور خودمختار قوموں کو اپنے انفرادی اور اجتماعی دفاع کا حق دیتا ہے، لیکن صرف مسلح حملے کی صورت میں۔ ہمارے صدر نے ہمارے قریب تین اتحادیوں کو بھی نظرانداز کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ امریکا جنگ کو ”آخری چارہ کار” کے طور پر رد کرتے ہوئے فوجی حملوں میں پہلے کرے گا۔” (ص 140)
”دوسرے ملکوں کو ”بدی کا محور” قرار دیتے ہوئے انہیں امکانی ہدف قرار دے دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی سفارتکاری کے ذریعے ان کے ساتھ اختلافات کو سلجھانے کے عمومی دروازے بند کر دیے گئے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد ہمارے لیے ہر ملک نے جو تقریباً یک زبان ہو کر ہمدردی کا اظہار اور حمایت و امداد کا وعدہ کیا تھا، وہ ہماری اس پالیسی کے اپنانے سے ختم ہو گیا ہے۔ اب ہم دہشت گردی کے خطرے کو محدود اور کم کرنے کی اپنی طویل اور اہم ترین کوشش میں نسبتاً اکیلے ہو گئے ہیں۔” (ص 141)
”ایک عیسائی اور بین الاقوامی بحران سے حد درجہ متاثر سمجھے جانے والے صدر کی حیثیت سے میں ایک منصفانہ جنگ کے اصولوں سے پوری طرح واقف ہوں۔ اور یہ بات واضح ہے کہ عراق پر یکطرفہ حملہ ان معیارات پر پورا نہیں اترتا۔” (ص 143)
”ہم اور ہمارے اتحادی برطانوی فیصلہ کر چکے ہیں کہ سویلین ہلاکتوں کو شمار نہیں کیا جائے گا۔ جبکہ حقیقی اور مطبوعہ اعداد و شمار میں بہت فرق ہے۔ برطانیہ کے ایک مؤقر جریدے لینسیٹ (Lancet ) نے رپورٹ دی ہے کہ اتحادی فوجیوں (خصوصاً ایئرفورس) نے ایک لاکھ غیر فوجی عراقیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ امریکی سرکاری ذرائع نے صرف چوبیس ہزار کا تخمینہ لگایا ہے۔ یعنی صرف انہی ہلاکتوں تک محدود رکھا ہے جن کی خبریں مغربی ذرائع ابلاغ دے چکے ہیں، اصل تعداد ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہے۔” (ص 147)
”ہماری حکومت کا ایک سب سے زیادہ عجیب فیصلہ امریکیوں کے جانی نقصان سے عوام کو لاعلم رکھنا ہے۔ ہمارے لیڈر شاذ ہی زخمیوں کا ذکر کرتے یا ان کی عیادت کرنے جاتے ہیں۔ اور ڈوور ایئر فورس بیس ڈیلاویئر کے مضافاتی قبرستان میں پہنچائے جانے والے تابوتوں کے بارے میں عوام کو خبر نہ ملنے دینے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ ہلاک ہونے والے فوجی جوانوں کی ماؤں اور بیویوں کی جانب سے مقدمات دائر کیے جا چکے ہیں جنہیں ڈوور یا دوسرے فوجی اڈوں پر اپنے پیاروں کی لاشیں دیکھنے نہیں دی گئیں۔” (ص 146)
”جب امریکا نے 2005ء کے شروع میں عراق میں جمہوریت کی طرف پہلا قدم اٹھایا تو شیعہ اور کردوں نے سنی منحرفین اور دہشت گرد گروپوں کے ڈرانے دھمکانے کے باوجود جرأت اور آزادی کے ساتھ وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے۔ اگلے مراحل یعنی آئین کو تحریر کرنے اور پھر ایک نمائندہ حکومت تشکیل دینے کے حوالے سے میں اس وقت یہ کتاب لکھتے ہوئے تو کوئی پیشگوئی نہیں کر سکتا، تاہم اس حوالے سے بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے کہ سنی تعاون کریں گے یا نہیں، اور یہ کہ مذہبی قوانین کتنے غالب ہوں گے؟ حکمران شیعہ جماعتیں مطالبہ کر رہی ہیں کہ شادی، طلاق اور وراثت کے معاملات میں شریعت کو اعلٰی اتھارٹی ہونا چاہیے۔ اگر عورتوں کے حقوق، جو کہ صدر صدام حسین کے دور میں محفوظ تھے، امریکا کی سرپرستی اور حفاظت میں قائم ہونے والی نئی جمہوری حکومت کے دور میں ختم ہو جائیں گے تو یہ ستم ظریفی ہو گی۔” (ص 149)
”ایک بنیادی سوال جو آخری حاصل کا تعین کرے گا، یہ ہے کہ کیا امریکی لیڈر عراق میں مستقل فوجی اڈوں کے قیام اور معیشت پر غلبہ پانے پر اصرار کریں گے، یا یہ واضح کریں گے کہ ہم نے اپنے فائدے کے لیے مستقل موجودگی کو برقرار رکھنے کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا ہوا؟ ہماری قوم ہمیں درپیش بین الاقوامی چیلنجوں کا بنیادی جواب دینے کے معاملے پر واضح طور پر تقسیم ہو چکی ہے۔ یہ بات تقریباً متفقہ طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ امریکی سرزمین کبھی مکمل طور پر محفوظ نہیں ہو گی۔ امریکا کو ایسی نسبتاً کمزور تنظیموں کی طرف سے دہشت گردی کا خطرہ رہے گا جو امریکا کی بے پناہ فوجی قوت کے کسی بھی پہلو کو چیلنج کرنے کی امید نہیں کر سکتیں۔ ہمارا بہترین جواب کیا ہے؟ کیا انسانی حقوق کے تاریخی چیمپئن کا کردار ادا کرنا ہمارے لیے بہتر ہے، یا خطروں کا جواب دینے کے لیے اپنے اعلٰی ملکی اور بین الاقوامی معیارات کو ترک کر دینا؟” (ص 151)
”اس وقت امریکا دنیا کا سب سے زیادہ ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والا ملک ہے۔ ہماری حکومت کی طرف سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے انکار عالمی ماحول کے تحفظ کے دو جماعتی تاریخی وعدوں سے انحراف کے سلسلے کی محض ایک اور المناک کڑی ہے۔ خداوند کی دنیا کا تحفظ ہماری ایک ذاتی، سیاسی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔” (ص 167)
”یہ بات فخر کیے جانے کے قابل ہے کہ امریکا میں اوسط خاندان کی سالانہ آمدنی پچپن ہزار ڈالر ہے، لیکن ہمیں ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا کے آدھے سے زیادہ لوگ دو ڈالر روزانہ سے بھی کم پر زندہ ہیں، جبکہ ایک ارب بیس کروڑ لوگوں کو صرف ایک ڈالر روزانہ پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔ صرف لمحہ بھر کے لیے تصور کریں کہ ہمیں ایک ڈالر روزانہ پر گزارا کرنا ہو تو کیا ہوگا؟ صرف ایک ڈالر کھانے کے لیے، رہائش کے لیے اور لباس کے لیے۔ واضح بات ہے کہ حفظان صحت اور تعلیم کے لیے کچھ نہیں بچے گا اور ہماری عزت نفس اور روشن مستقبل کی امید کا باقی رکھنا تو مشکل ہو گا۔” (ص 166)
”ہمارا پورا معاشرہ زیادہ سے زیادہ تقسیم ہو رہا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ تقسیم کالے، گورے یا ہسپانوی کے درمیان ہو، بلکہ یہ تقسیم امیر اور غریب کے درمیان ہے۔ ہم میں سے بے شمار لوگوں کو تو کسی ایک غریب سے بھی واقفیت نہیں ہے۔” (ص 170)
یہ سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی کتاب ”امریکا کا اخلاقی بحران” کے چند اقتباسات ہیں۔ جو نہ صرف گزشتہ نصف صدی کے دوران امریکی پالیسیوں میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی عکاسی کرتے ہیں، بلکہ امریکی قوم کی اجتماعی نفسیات کا بھی اس سے کچھ نہ کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔ اور عالم اسلام اور مغرب کے درمیان اس وقت جو کشمکش جاری ہے اس کا ایک مجموعی منظر بھی نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔