اپنے کاموں اور منصوبوں سے متعلق کتابیں پڑھنے سے بھی انسان کو بہت ہی اچھی رہنمائی مل جاتی ہے۔ کسی بھی وقت فارغ نہ بیٹھیں۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ پڑھتے ہی رہیں۔ امریکا یورپ میں کس قدر پڑھنے کا رجحان ہے کہ اگر بس آنے میں دو منٹ بھی ہوتے ہیں تو وہ اپنے ہینڈ بیگ سے کتاب نکال کر پڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ہم تحقیق نہیں کرتے۔ جب ہم تحقیق کرتے تھے، کتابیں پڑھتے تھے تو دنیا پر حکمرانی بھی کرتے تھے۔ اب جو قومیں پڑھتی ہیں، تحقیق کرتی ہیں تو دنیا پر حکمرانی بھی وہی کرتی ہیں۔ حق بھی انہی کا بنتا ہے۔
تو آپ نے کتابوں سے دوستی لگانی ہے، کتابوں سے بھی رہنمائی حاصل کرنی ہے۔ اپنی روٹین میں کتابیں پڑھنا بھی شامل کرلیں۔ معمول بنالیں۔ پہلا نمبر یہ ہے کتابوںسے رہنمائی حاصل کریں۔ نمبر دو یہ ہے کہ آپ شخصیات سے رہنمائی حاصل کریں کہ میں اپنے کاموں اور منصوبوں کو کس طرح پایۂ تکمیل تک پہنچاسکتا ہوں؟
اس حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ کسی کامیاب شخصیت کی خدمت میں کچھ عرصہ رہیں۔ ان کا ”نِکّو” بن جائیں، ان کا دامن تھام لیں، ان سے پیار و محبت میں اور خدمت سرانجام دے کر اس فن کے راز اور گُر سیکھنے کی کوشش کریں۔ آپ نے دیکھا ہوگا۔ بڑے اور کامیاب تاجروں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ابتدا میں اپنے بچوں کو اپنے پاس نہیں رکھتے، بلکہ پہلے پہل سیکھنے کے لیے کسی دوسری جگہ پر بھیجتے ہیں تاکہ ”زیرو لیول” کی باتیں سیکھیں، کاروبار کی الف ب سمجھنے کی کوشش کریں۔ اس کے رموز و اسرار جانیں۔
آپ کامیاب تاجر سے لے کر کامیاب صحافی تک اور کامیاب کرکٹر سے لے کر کامیاب دکاندار تک سب کا بائیو ڈیٹا نکال کر دیکھیں سب نے ”زیرو لیول” سے ہی اسٹارٹ لیا ہوگا۔ کسی بھی کام اور فن میں چھلانگیں مارنے والے منہ کے بل گرتے ہیں۔ کامیاب وہی لوگ ہوتے ہیں جو قدم بہ قدم آگے کی طرف بڑھتے ہیں۔ جو اپنے کاموں، منصوبوں اور فن سے متعلق شخصیات سے ہمہ وقت کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ شخصیات سے ملاقات میں بعض اوقات وہ گُر اور راز ملتے ہیں جو ناکامی کو کامیابی میں بدل دیتے ہیں۔ اس پر میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ یہ واقعہ برسوں پہلے مشہور ادیب اشفاق احمد نے اپنے پروگرام ”زاویہ” میں سنایا تھا۔ وہ کہتے ہیں: ”میں جب اٹلی میں رہتا تھا تو ہمیں مہینے کی پہلی تاریخ کو تنخواہ ملتی تھی۔ اس دن میں ایک بہت اچھے ریستوران میں، جہاں اُمراء آتے تھے، خاص طور پر اداکار اور اداکارائیں بھی آتی تھیں، چلا جایا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ میں بیٹھا کافی پی رہا تھا۔ ایک شخص بڑے وجود اور بڑے بڑے ہاتھوں والا آکر میرے پاس بیٹھ گیا۔ اُس نے کہا: ”میں نے گزشتہ ماہ آپ کو کسی آدمی سے باتیں کرتے سنا تھا تو آپ بڑی رواں اٹالین زبان بول رہے تھے، لیکن آپ Subjective Verb اور conditional Verb میں تھوڑی سی غلطی کر جاتے ہیں۔ جیسے: ”I wish I could have been doing do” اس طرح تو مشکل اور پیچیدہ ہوجاتی ہے؟” میں نے کہا: ”جی! آپ کی بڑی مہربانی۔” میں نے اُس سے کہا: ”میں بھی آپ کو جانتا ہوں؟” اب اُن کا جو حوالہ تھا، وہ تو میں نے اُن سے نہیں کہا کہ آپ اس دنیا کے بہت بڑے امیر آدمی ہیں، یہ مجھے معلوم ہے۔ اُس کا پہلا حوالہ یہ تھا کہ وہ ایک بہت بڑے ”مافیا کا چیف” تھا۔
اُس شخص نے مجھ سے کہا: ”میں آپ کو ایک بڑی عجیب و غریب بات بتاتا ہوں، جو میری امارت کا باعث بنی اور میں اس قدر امیر ہوگیا۔ وہ یہ کہ مجھے ”ہارس ریسنگ” کا شوق تھا۔ میں گھوڑوں پر جُوا لگاتا تھا۔ میری مالی حالت کبھی اونچی ہو جاتی تھی اور کبھی نیچی۔ ایک بار میں نے اپنا سارا مال ومتاع ایک گھوڑے کی ریس پر لگادیا اور کہا کہ اب اس کے بعد میں ریس نہیں کھیلوں گا۔ کرنا یہ ہوا کہ میں وہ ریس ہار گیا۔ میری جیبیں بالکل خالی تھیں۔ میں بالکل مفلس ہو گیا تھا۔ جب میں وہاں سے پیدل گھر لوٹ رہا تھا مجھے شدت سے واش روم جانے کی ضرورت محسوس ہوئی، لیکن وہاں جانے کے لیے میرے پاس مقامی کرنسی کا سکّہ تک نہیں تھا جو واش روم کا دروازہ کھولنے کے لیے اُس کے لاک میں ڈالا جاتا ہے، اس کے بغیر دروازہ کھلتا نہیں ہے۔
میں بہت پریشان تھا۔ مجھے جسمانی ضرورت کے تحت تکلیف بھی محسوس ہو رہی تھی۔ میں وہاں قریبی پارک میں گیا۔ وہاں بنچ پر ایک شخص بیٹھا ہوا اخبار پڑھ رہا تھا۔ میں نے بڑی لجاجت سے اُس سے کہا: ”کیا آپ مجھے ایک سکّہ دیں گے؟” اُس شخص نے میری شکل وصورت کو دیکھا اور کہا: ”کیوں نہیں!” اور سکّہ دیدیا، لیکن اس سے قبل میری جسمانی صحت پر غور ضرور کیا۔ اُسے کیا خبر تھی میں بالکل مفلس ہو چکا ہوں۔
جب میں وہ سکّہ لے کر چلا اور واش روم کے دروازے تک پہنچا، جہاں لاک میں سکّہ ڈالنا تھا، اچانک وہ دروازہ کھل گیا ،جبکہ وہ سکّہ ابھی میرے ہاتھ میں تھا۔ جو اندر آدمی پہلے موجود تھا، وہ باہر نکلا اور اُس نے مسکرا کر بڑی محبت، شرافت اور نہایت استقبالیہ انداز میں دروازہ پکڑے رکھا اور مجھ سے کہا: ”یہ ایک روپے کا سکّہ کیوں ضائع کرتے ہو؟” میں نے اُس کا شکریہ ادا کیا اور میں اندر چلا گیا۔
اب جب میں باہر نکلا تو میرے پاس وہ ایک روپے کی قدر کا سکّہ بچ گیا تھا۔ میں قریب کسینو میں چلاگیا۔ وہاں پر جوا ہو رہا تھا کہ ایک روپیہ لگاؤ، ہزار روپے پاؤ۔ میں نے وہ روپے کا سکّہ اُس جوئے میں لگا دیا اور سکّہ بکس میں ڈال دیا۔ وہ سکّہ کھڑ کھڑایا اور ہزار کا نوٹ کڑک کرکے باہر آ گیا۔ جواری آدمی کی بھی ایک اپنی زندگی ہوتی ہے۔ میں نے آگے لکھا دیکھا کہ ایک ہزار ڈالو تو ایک لاکھ پاؤ۔ میں نے ہزار کا نوٹ وہاں لگادیا۔ رولر گھوما، دونوں گیندیں اُس کے اوپر چلیں اور ٹک کر کے ایک نمبر پر آکر وہ گریں اور میں ایک لاکھ جیت گیا۔ آپ غور کریں کہ وہ ابھی وہیں کھڑا ہے، جہاں سے اُس نے ایک سکّہ مانگا تھا۔ اب ایک لاکھ روپیہ لے کر ایک امیر آدمی کی حیثیت سے چل پڑا اور گھر آ گیا۔
اگلے دن اخبار میں پڑھا کہ یہاں پر اگر کوئی Sick Industryمیں انویسٹ کرنا چاہے، حکومت انہیں مالی مدد بھی دے گی اور ہر طرح کی انہیں رعایت دے گی۔ میں نے ایک دو کارخانوں کا انتخاب کیا۔ حکومت نے ایک لاکھ فیس داخل کرنے کا کہا اور کہا: ”ہم آپ کو ایک کارخانہ دیدیں گے۔” شاید وہ جُرابیں بنانے یا انڈر گارمنٹس کا کارخانہ تھا۔ ”وہ کارخانہ چلا تو اس سے دوسرا، تیسرا اور میں لکھ پتی سے کروڑ پتی اور ارب پتی ہوگیا۔ ”آپ اب غور کریں کہ یہ سب کچھ ایک دروازہ کھلا رکھنے کی وجہ سے ممکن ہوا۔
اُس نے کہا: ”میری اتنی عمر گزر چکی ہے۔ میں تلاش کرتا پھر رہا ہوں اُس آدمی کو، جس نے مجھ پر یہ احسان کیا ہے۔” میں نے کہا: ”اُس آدمی کو، جس نے آپ کو ایک روپیہ دیا تھا؟” اُس نے کہا: ”نہیں! اُس آدمی کو، جس نے دروازہ کھلا رکھا تھا۔” میں نے کہا: ”آپ اُس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اُس سے ملنا چاہتے ہیں؟” اُس نے جواب دیا: ”نہیں! یہ دیکھنے کے لیے اُس سے ملنا چاہتا ہوں کہ وہ شخص کن کیفیات سے گزر رہا ہے؟ کس اونچے مقام پر ہے؟ مجھے یقین ہے کہ دروازہ کھولنے والے کا مقام روحانی، اخلاقی اور انسانی طور پر ضرور بلند ہوگا۔ وہ ہر حال میں مجھ سے بہتر اور بلند تر ہوگا، لیکن وہ آدمی مجھے مل نہیں رہا ہے۔”دیکھا آپ نے کس طرح ایک شخص کی تھوڑی سی توجہ، ہمت اور محنت سے اس کی زندگی بدل گئی، بلکہ کایا پلٹ گی۔