تیسری قسط:
”انہی نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے چند عیسائی لیڈر عراقی جنگ کو بڑھانے میں پیش پیش رہے ہیں اور بار بار اسرائیل کے دورے کرتے رہے ہیں۔ وہ اس کی مدد کے لیے اسے چندے بھی دیتے رہے ہیں اور فلسطینی علاقے کو نوآبادی بنانے کے لیے واشنگٹن میں لابنگ کرتے رہے ہیں۔ یہ دائیں بازو کا مذہبی دباؤ تھا کہ امریکا نے اسرائیلی بستیاں اور مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے میں ہائی ویز کو قبول کرلیا۔ چند اسرائیلی لیڈروں نے یہودیوں کی آخری مصیبت کو نظرانداز کرتے ہوئے اس امداد کو قبول کر لیا۔” (ص 112)
”گھر میں شہری حقوق کی اس فتح کے باوجود امریکا نے مشرقِ وسطی اور دوسرے خطوں کی انتہائی ظالمانہ حکومتوں کو قبول کیے رکھا اور ان کی مدد بھی کرتا رہا۔ حالانکہ حکومتیں اپنے شہریوں کے انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہی تھیں۔” (ص 115)
”گزشتہ چار سو برسوں میں ان حقوق کے تحفظ کے لیے ہمارے ملک کی پالیسیوں میں ڈرامائی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ہمارے بیشتر شہریوں نے دہشت گردانہ حملوں کے خوف سے ان عدیم النظیر پالیسیوں کو قبول کر لیا ہے۔ تاہم امریکی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ امریکا جسے پہلے انسانی حقوق کے ممتاز ترین چیمپئن کی حیثیت سے تقریباً آفاقی طور پر سراہا جاتا تھا، اب جمہوری زندگی کے ان بنیادی اصولوں سے متعلق بین الاقوامی تنظیموں کی تنقید کا سب سے بڑا ہدف بن چکا ہے۔ نائن الیون کے حملے کے بعد امریکی حکومت نے غیرضروری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پورے امریکا میں 1200سے زیادہ بے گناہ افراد کو گرفتار کروا لیا۔ ان میں سے کوئی ایک بھی پہلے کسی دہشت گردی سے مربوط جرم میں ملوث نہیں ہوا تھا۔ ان کی شناخت راز میں رکھی گئی اور انہیں اپنے خلاف الزامات سننے یا قانونی مشاورت حاصل کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ گرفتار ہونے والے تقریباً سارے افراد عرب یا مسلمان تھے اور بیشتر کو امریکا چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا۔ شہری آزادیوں کی ایسی پالیسیوں کو قانونی روپ دینے کے لیے ”پیٹریاٹ ایکٹ” بہت جلدی میں منظور کیا گیا۔” (ص 115)
”افغانستان اور عراق میں جنگوں کے دوران بالغ مردوں کے علاوہ بہت سے کم عمر لڑکوں کو گرفتار کر کے گوانتاناموبے (کیوبا) میں واقع ایک امریکی قید خانے میں منتقل کر دیا گیا۔ اس قید خانے میں چالیس ملکوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 520افراد کو قید میں رکھا گیا ہے۔ انہیں اس قید خانے میں تین سال کا عرصہ گزر گیا ہے جبکہ نہ تو ان پر باقاعدہ کوئی الزام عائد کیا گیا ہے اور نہ ہی انہیں قانونی مشاورت حاصل کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ کئی امریکی اہلکاروں نے تصدیق کی ہے کہ ان قیدیوں پر جسمانی تشدد کیا جا رہا ہے۔” (ص 611)
”عراقی میجر جنرل عید حامد مہوش نے اپنے بیٹوں کو ڈھونڈنے کی کوشش میں بغداد میں امریکی افسروں کو رضاکارانہ طور پر گرفتاری دی، اسے گرفتار کر کے اس پر تشدد کیا گیا اور اسے ایک سبز سلیپنگ بیگ میں بند کر دیا گیا جس میں دم گھٹنے سے وہ 26نومبر 2003ء کو مر گیا۔” (ص 199)
”اتنی ہی پریشان کن وہ رپورٹیں ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ امریکی حکومت بعض دوسرے ملکوں کی حکومتوں کو دہشت گردی کو روکنے کے لیے جارحانہ پالیسیاں اپنانے پر اکسا رہی ہے، جس کے نتیجے میں جمہوری اصول اور قانون کی حکمرانی خطرے میں پڑ گئے ہیں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی بڑھ گئی ہے۔ امریکی پشت پناہی سے جابرانہ اقدامات کرنے والی حکومتوں کی کاروائیاں پیٹریاٹ ایکٹ کے تحت ہونے والی کاروائیوں سے بھی بڑھ گئی ہیں۔” ( ص 120)
”جو کچھ ہو رہا ہے امریکی حکام کو اس کا علم تھا۔ محکمہ خارجہ شام میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے پہلے ہی بتا چکا ہے کہ سابقہ قیدیوں اور حراست میں رکھے جانے والے افراد نے بتایا کہ قیدیوں پر تشدد کے طریقوں میں شامل ہے: بجلی کے جھٹکے لگانا، ناخن کھینچنا، مارنا پیٹنا، چھت سے لٹکانا، ریڑھ کی ہڈی کو بہت زیادہ کھینچنا، کرسی پر بٹھا کر پیچھے جھکانا جس سے قیدی کی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے سرک جاتے ہیں۔” (ص 124)
”اس وقت دنیا بھر میں تقریباً 30,000 (تیس ہزار) ایٹم بم موجود ہیں جن میں سے بارہ ہزار ایٹم بم امریکا کے پاس ہیں۔ روس کے پاس سولہ ہزار، چین کے پاس چار سو، فرانس کے پاس ساڑھے تین سو، اسرائیل کے پاس دو سو، برطانیہ کے پاس ایک سو پچاسی، اور ہندوستان اور پاکستان کے پاس چالیس چالیس ایٹم بم ہیں۔ اس امر کا یقین کیا جاتا ہے کہ شمالی کوریا کے پاس اتنا نیوکلیئر ایندھن ہے جس سے نصف درجن ایٹم بم بنائے جا سکتے ہیں۔” (ص 129)
”گزشتہ پچاس برسوں کے دوران ایٹمی اسلحہ پر کنٹرول کے لیے جتنے معاہدوں پر مذاکرات کیے گئے ہیں امریکا ان میں سے تقریباً تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کرچکا ہے اور ایٹمی اسلحے کے عالمگیر پھیلاؤ کا سب سے بڑا مجرم بن چکا ہے۔ سابق وزیردفاع میکنامارا نے مئی، جون2005ء کے فارن افیئرز میں اپنے خدشات کا یوں اظہار کیا تھا کہ میں امریکا کی موجودہ ایٹمی اسلحہ پالیسی کو غیراخلاقی، غیرقانونی، فوجی اعتبار سے غیرضروری اور ہولناک حد تک خطرناک سمجھتا ہوں۔” (ص 129) (جاری ہے)