امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 18جون 2025 ء کو وائٹ ہاؤس میں فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے اعزاز میں لنچ کئی لحاظ سے تاریخی ہے۔ پاک امریکا تعلقات کی تاریخ میں پہلی بار کسی امریکی صدر نے پاکستانی آرمی چیف کو باقاعدہ سرکاری دعوت پر مدعو کیا۔ اس سے قبل پاکستان کے متعدد سربراہانِ مملکت اور سربراہانِ حکومت اور آرمی چیفس امریکا کے دورے پر جاتے رہے، لیکن جو پذیرائی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو ملی ہے وہ شاید ہی کسی کے حصے میں آئی ہو۔
ظہرانے کے بعد پریس کانفرنس میں ڈونلڈ ٹرمپ کی باڈی لینگوئج اور لب و لہجہ بتا رہے تھے کہ وہ اس ملاقات سے واقعی خوش اور شاد ہیں۔ ٹرمپ اور ان کی کابینہ سے تبادلہ خیالات یقینا ایک بڑی اور اہم کامیابی ہے۔ یہ ملاقات تاریخی کے ساتھ ساتھ پاک امریکا تعلقات ازسرنو مرتب کرنے کے لیے نیا باب بھی قرار دی جارہی ہے۔ اس ملاقات کے بارے میں بدگمان نہیں ہونا چاہیے۔ ہم انوکھی قوم ہیں، دنیا اچھا سلوک کرے تو ہم شک میں پڑ جاتے ہیں کہ آخر دنیا اتنا اچھا برتاؤ کیوں کررہی ہے؟ اگر دنیا توجہ نہ دے تو گلہ کرتے ہیں کہ ہماری قربانیوں کے صلے میں وہ ہمیں منجھدار میں چھوڑ کر چلے گئے اور مثالیں دی جاتی ہیں کہ دنیا میں کوئی فری لنچ نہیں ہوتا۔ کچھ فری لنچ کا پس منظر بھی بیان کرتے چلیں۔
مارکیٹنگ اشیاء یا خدمات فروخت کرنے کا فن ہمیشہ سے سرگرمِ کار رہا ہے۔ 1870ء میں امریکا کے ریستورانوں نے فری لنچ کا نسخہ ایجاد کیا۔ ریستورانوں میں خوراک کے ساتھ انواع و اقسام کی شراب بھی میسر ہوتی۔ پیش کش یہ تھی کہ اگر آپ مشروب خریدیں تو لنچ فری ملے گا۔ اسی زمانے میں عقل مندوں نے یہ محاور ہ تراشا کہ کوئی لنچ مفت نہیں ہوتا:
There is no such thing as a free lunch!!
دنیا دارالاسباب ہے۔ یہاں کوئی شے مفت نہیں ملتی۔ فری لنچ کے اِس تصور کو ان حکومتوں پر منطبق کریں جو اپنی بقا کے لیے سہاروں کی محتاج ہو تی ہیں۔ کوئی حکومت اپنی بقا کے لیے دشمنوں کا سہارا لے تو یہ سوال سامنے آتا ہے کہ کیا یہ کام مفت میں ہوگا تو جناب بالکل نہیں! حکمرانوں کا ایک غیرمرئی غیرتحریری معاہدہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں لنچ کرانے والاکسی بھی قسم کے احتساب سے بالا ہوتا ہے۔ اسی طرح حکومتیں بھی اسے مفاداتی مراعات دیتی ہیں۔ ہمارے آرمی چیف ہوں یا جمہوری حکمران پاک امریکا تعلقات میں جن مشکلات سے گزرے انہیں معاملات آگے بڑھانے کے لیے جس بصیرت کی ضرورت ہے وہ اس کے حامل ہیں۔ حالیہ پاک بھارت جنگ میں عسکری اور سفارتی میدان میں انڈیا کو چاروں شانے چت کرنا اور ٹرمپ کی انوالومنٹ کو جنگ بندی کے لیے آبرومندانہ راہ ہموار کرنے کا ذریعہ بنانا اس کا واضح ثبوت ہے۔ ٹرمپ عاصم ملاقات کے مختلف زاویے ہیں۔ ایک زاویہ امریکا کا اس بات کا علامتی اظہار ہے کہ وہ کسے طاقت کا مظہر سمجھتا ہے۔ پس منظر میں یہ مفروضہ ہے کہ امریکا نے جب بھی کسی پاکستانی جرنیل سے معاملہ کیا پاکستان کے مفادات کو زد پہنچی۔ یہ زاویہ محلِ نظر ہے۔
سیاست ہمیشہ حقیقت پسند ہوتی ہے۔ ٹرمپ اس معاملے میں روایتی سیاستدانوں اور حکمرانوں سے دو ہاتھ آگے ہیں۔ پہلے حکمران نظر کی شرم رکھتے تھے۔ صدر کلنٹن پاکستان آئے تو انہوں نے جنرل مشرف سے ہاتھ نہیں ملایا۔ یہ علامتی اظہار تھا کہ امریکا مارشل لا کو درست نہیں سمجھتا۔ یہ اظہار مگر علامت سے آگے نہیں بڑھا۔ امریکا نے مشرف سے آٹھ برس معاملہ کیا اور خوب کیا۔ موجودہ امریکی صدر ایسے کسی تکلف کے قائل نہیں۔ سچ یہ ہے کہ اقتدار کی سیاست داخلی ہو یا خارجی زمینی حقائق کے تابع ہوتی ہے۔ طاقت کی اپنی اخلاقیات ہیں۔ ٹرمپ اپنی اخلاقیات کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔ وہ کسی کو پروٹوکول دیتے ہیں اور کسی کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں، ایلون مسک کی مثال سب کے سامنے ہے۔ دوسرا زاویہ بھی اس مفروضے پر مبنی ہے کہ فوجی حکمران امریکا سے معاملہ کرے تو مشکوک ہے اور سیاستدان کرے تو شفاف۔
پاکستان کے جمہوری حکمرانوں بینظیر بھٹو اور نوازشریف کے بارے میں یہی تاثر دیا کیا گیا۔ وزیراعظم واجپائی کی آمد پر لاہور میں کیا ہوا؟ ٹرمپ عمران خان ملاقات کے متعلق کہا گیا کہ بھارت نے اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کے بارے میں جو اقدام کیا اُس کے بارے میں عمران کو اعتماد میں لیا گیا۔ غرض اس میں جمہوری یا غیرجمہوری حکمرانوں میں کوئی امتیاز نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا واقعات ان مفروضوں کی تائید کرتے ہیں؟ ایک ایسے موقع پر جب بھارت عالمی سیاست میں غیرمتعلق ہے ایک عالمی تنازعے میں پاکستان کے کردار اور اہمیت کا اعتراف ایک بڑی سفارتی پیش رفت ہے۔ رہا یہ مفروضہ کہ پاکستان کا حکمران طبقہ امریکی خوشنودی کے لیے ذاتی مفادات کو قومی مفاد کے بدلے گروی رکھتا ہے تو یہ بات غور طلب ہے۔ ہمارے حکمران جمہوری ہوں یا عسکری اپنے اقتدار کے تسلسل کے لیے امریکا کی طرف ضروردیکھتے رہے ہیں، مگر اس کے شواہد موجود نہیں کہ انہوں نے قومی مفادات کو پسِ پشت ڈالا
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
جنرل ضیاء الحق کی افغان پالیسی پر بہت سے اعتراضات ہیں۔ اس سے پاکستان کے سماج اور ریاست دونوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ لیکن انہوں نے اس کے عوض ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھایا جو اس کا واضح ثبوت ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے قومی مفادات سے صرفِ نظر نہیں کیا۔ ٹرمپ جو آج کل امریکی مفادات ایک طرف رکھ کر بھارت کے ساتھ تعلقات کو وہ اہمیت نہیں دے رہے جتنی امریکا پچھلے 77برس سے دیتا آیا ہے۔ حالانکہ بھارت امریکا کے لیے زیادہ اہم ملک ہے۔ صدر نکسن کے بعد ٹرمپ شاید واحد صدر ہیں جنہوں نے پاکستان کو اتنی اہمیت دی جس پر پورے بھارت میں ماتم بپا ہے۔ پاکستان نے آخر ٹرمپ پر کیا جادو کر دیا ہے۔ بھارت کا رونا پیٹنا تو سمجھ میں آتا ہے پاکستانیوں کا نہیں۔ امریکی ہمیں اپنے سے دور کرلیں تو ہم انہیں طعنے مار مار کر بے حال کردیتے ہیں۔ اگر وہ قریب کرلیں تو پہاڑ پر چڑھ جاتے ہیں۔ ہیلری کلنٹن نے طعنوں سے زچ ہوکر کہا تھا کہ اگر تم نے ہماری جنگ لڑی تو ہم پر کیا احسان کیا؟ اس کے ہر سال ڈیڑھ ارب ڈالرز لیا کرتے تھے اور تمہیں کل 32ارب ڈالرز کی ادائیگی کی گئی تھی
اتنا نہ بڑھا پاکی ٔداماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ
وہ ڈیڑھ ارب ڈالرز بند ہوئے توہم کبھی چین کبھی سعودی عرب تو کبھی دبئی سے کمرشل ریٹ پر قرض لے کر اپنی درآمدات کا بل دیتے ہیں۔ دوست کمرشل قرض دیتے اور اس پر تگڑا سود لیتے ہیں۔ دو تین سال پہلے بجٹ میں سود کی ادائی کے لیے سالانہ 3200ارب روپے رکھے جاتے تھے، اس سال اس مد میں آٹھ ہزار ارب ادا کرنے ہیں۔ امریکی قرض نہیں امداد دے رہے تھے
آج کل ان کو بہت ہے میری خاطر منظور
یا میری یا میرے دشمن کی قضا آئی ہے
بھارت کے خلاف جنگ میں امریکا کا نیوٹرل ہونا بھی ہمارے لیے خطرناک تھا۔ ہم تو خوش قسمت ہیں کہ چین کے مفادات بھی ہمارے مفادات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اس طرح اگر امریکا کو بھی پاکستان میں کرپٹوکرنسی یا منرلز ٹھیکوں میں دلچسپی لے تو اس پر ہمیں رونے دھونے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم شکر کریں کہ اب تک ہم امریکا کے پاس کچھ نہ کچھ مانگنے جاتے تھے اور پہلی دفعہ امریکی کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ تجارتی معاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو ہمارا رونا دھونا ختم نہیں ہو رہا۔ ایک طرف آپ کو بیرونی سرمایہ کاری درکار ہے۔ دوسری جانب اگر آپ کے پاس کچھ ہے جو دنیا خریدنا چاہتی ہے تو ہم نے اس پر بھی شورڈال دیا ہے۔ ہم لوگ امداد اور قرض کے اتنے عادی چکے ہیں کہ تجارت کے نام سے بھی بدک جاتے ہیں۔ اس وقت بھارت جس طرح کی بدترین عالمی تنہائی کا شکار ہے اور پاکستان کو امریکی حمایت ملی حاصل ہے اس سے بڑی خوش قسمتی کیا ہوگی کہ دنیا کے دو بڑے طاقتور ملک جن کی آپس میں نہیں بنتی لیکن پاکستان کے ساتھ ان دونوں کے تعلقات اچھے ہیں۔ اگر ٹرمپ ہماری بجائے بھارت کے ساتھ کھڑے ہوتے تو وہ عسکری فتح سفارتی کامیابی کا ذریعہ کیسے بنتی؟ اس ملاقات سے سوائے بھارت اور اس کی لے پالک باقیات کے سب خوش ہیں
ضبط لازم ہے مگر دکھ ہے قیامت کا
ظالم اب کہ بھی نہ رویا تو مر جائے گا