نوبل امن انعام کے امیدوار کا امنِ عالم پر حملہ

اتوار کے علی الصبح ایران کے فردو، نطنز اور اصفہان میں قائم نیوکلیئر تنصیبات پر حملہ کرکے امریکا آخرکار جنگ میں باقاعدہ شامل ہوگیا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق امریکا نے ایران کے فردو جوہری سائٹ حملے میں 6 بنکر بسٹر بم استعمال کیے، دیگر ایرانی جوہری سائٹس پر حملوں میں 30 ٹوماہاک میزائل استعمال کیے گئے۔ ٹرمپ نے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد خطاب میں ایران کو متنبہ کیا ہے کہ اسے اب امن قائم کرنا ہوگا، ورنہ آئندہ حملے ایران کیلئے سانحہ ہوں گے۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ اونتونیو گوتریس نے کہا کہ تنازع سے عام شہریوں، خطے اور دنیا پر تباہ کن اثرات پڑسکتے ہیں، اس خطرناک گھڑی میں افراتفری کی لہر سے بچنا ضروری ہے۔ اقوام متحدہ سیکرٹری جنرل نے کہا کہ تنازع کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، آگے بڑھنے کا واحد راستہ سفارت کاری ہے، واحد امید امن ہے۔ دوسری طرف ایران نے ان حملوں کے ردعمل میں اسرائیل پر حملوں میں شدت پیدا کر دی ہے اور ساتھ ہی یمن اور عراق میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں نے بھی امریکا کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔

بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ امریکا نے اسرائیل کی اندھی محبت و حمایت میں آخرکار خود کو مشرقِ وسطی کی ممکنہ بڑی جنگ میں جھونک دیا ہے۔ امریکا کے اس متکبرانہ اقدام نے صرف ایران نہیں بلکہ پورے خطے میں اشتعال کی ایک نئی لہر کو جنم دیا ہے، جس کے اثرات دور رس اور تباہ کن ہوں گے۔ ان حملوں سے امریکا اور اس کے صدر کے چہرے سے بدترین منافقت کا نقاب بھی اتر گیا ہے۔ کل تک امریکا کا منافق صدر امن کا راگ الاپ رہا تھا۔ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان فوری جنگ بندی کا کریڈٹ لیتے ہوئے امن کے نوبل انعام کیلئے خود کو مضبوط امیدوار کے طور پر پیش کر رہا تھا۔ پاکستان نے بھی کسی خونریز مہم جوئی سے باز رکھنے کی ایک کوشش کے طور پر ان کا نام نوبل پیس پرائز کیلئے نامزد کرنے کی تجویز دی تھی۔ ساتھ ہی ٹرمپ نے خود بھی یہ عندیہ دیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کی بجائے امن کو ترجیح دیں گے اور مسئلہ حل کرنے کیلئے مذاکرات کو ایک اور موقع دیں گے۔

دوغلے پن کا عالم یہ ہے کہ ٹرمپ نے ایران پر حملوں سے چند گھنٹے قبل ہی یہ بیان بھی دیا تھا کہ وہ اس معاملے کو دو ہفتے تک موخر کرتے ہیں، اس دوران ہم فیصلہ کریں گے کہ ہم نے کیا کرنا ہے، مگر اس منافقانہ بیان کی گونج ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ٹرمپ نے راتوں رات وائٹ ہاؤس کے سیچوایشن روم میں اپنی جنگی کابینہ کو جمع کیا اورایران کے خلاف فضائی کارروائی کو مانیٹر کرنے بیٹھ گئے۔ ٹرمپ نے اپنے بیان و عمل اور گفتار و کردار سے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک نہایت مکار، عیار، منافق، گھٹیا، بے حیا اور بے اصول شخص ہیں۔ ان کے نزدیک قول و قرار کی کوئی اہمیت ہے، نہ کردار و گفتار کا کوئی وزن و معنی ہے۔ وہ اپنے مفاد کیلئے کسی تیسرے درجے کے فریبی اور جعل ساز شخص کی طرح دل میں کچھ، اور زبان پر کچھ رکھ کر کوئی بھی شیطانی چال چلنے سے ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔ بہرکیف امریکا نے اپنے بغل بچہ اسرائیل کے فرطِ حمایت میں جنگ میں خود کو شامل تو کر دیا ہے مگر اس کے پاس اصول و قانون کی دنیا میں اس عمل کا کوئی جواز موجود ہے اور نہ ہی اس حملے کیلئے اسے کوئی اخلاقی اور قانونی حمایت حاصل ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکا نے کھل کر اسرائیل کی حمایت اور ایران کی مخالفت کا پرانا بیزار کن آموختہ دہرایا، مگر وہ سلامتی کونسل سے ایران کے خلاف کسی بھی کارروائی کی حمایت اور منظوری حاصل نہیں کرسکا۔ دنیا کے کسی ملک نے بھی اس کی منطق سے اتفاق کرکے یہ نہیں کہا کہ امریکا ایران پر حملے کرسکتا ہے۔ اس کے باوجود امریکا نے پوری دنیا کو اندھیرے میں رکھ کر رات کی تاریکی میں بزدلانہ حملہ کرکے اپنا دوغلاپن آشکار کردیا ہے اور ایک بار پھر بتا دیا ہے کہ امن اور انسانیت اس کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتے، یہ نعرہ فقط اپنے گھناؤنے مفادات نکالنے کی خفیہ سازشوں کو کور کرنے کا ایک پردہ ہے۔

امریکا کے اس حملے سے اب ایران اور خطے میں پھیلے ہوئے اس کے تمام اتحادیوں کو بھی اس بات کا جواز مل گیا ہے کہ وہ خطے میں موجود تمام امریکی اڈوں اور فوجی تنصیبات پر حملے کریں۔ ایران نے اس کا عندیہ بھی دے دیا ہے، جس کا واضح مطلب ہے کہ اب کھلی جنگ شروع ہوگئی ہے اور جنگ پھیل کر پورے خطے کو محیط ہوگئی ہے۔ یہی وہ انتہائی سنگین صورتحال ہے جس کے حوالے سے گزشتہ دو برس سے امن و انسانیت کے سچے ہمدرد اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا کو متنبہ کر رہے تھے کہ جنگ کی آگ پورے خطے میں پھیل سکتی ہے، مگر طاقت کے نشے میں چور اسرائیل اور اس کے سرپرست امریکا نے ان باتوں پر کوئی توجہ نہ دی اور اپنے اشتعال انگیز اقدامات جاری رکھے، جس کا انجام اب خطے میں جنگ کی آگ پھیلنے کی صورت میں دنیا کے سامنے ہے۔ امریکا نے سپر پاور اور بڑی طاقت ہونے کے ناتے قیام امن کیلئے سنجیدہ کوشش کرنے کی بجائے مٹھی بھر صہیونیوں اور اسرائیل کی حمایت اور اس کی فرمائش پر بم کو لات مار کر خطے کے کروڑوں انسانوں کی جانوں کو جنگ کی بھٹی میں جھونک دیا ہے۔ اب اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ آگ انسانیت کا مزید کتنا خون پی کر فرو ہوگی۔

اس کے ساتھ ہی ایک بار پھر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ صہیونی دنیا کے شریر ترین، موذی اور انسانیت دشمن گروہ ہیں، اس شریر طبقے نے اپنی شیطانی سازشوں سے بیسویں صدی میں انسانیت کو دو عالمگیر جنگوں میں جھونکا، جن میں کروڑوں انسان لقمہ اجل بنے، اب ایک بار پھر انسانیت دشمن صہیونیت نے انسانیت کو تیسری جنگِ عالمگیر کے دروازے پر لے آئی ہے اور ثابت کر دیا ہے کہ صہیونیوں کے وجود سے انسانیت کی بقا کو سنگین اور سنجیدہ خطرات لاحق ہیں، تاہم اس بار دنیا کے باشعور طبقات، انسانیت کے علمبردار ممالک اور عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اس تباہی کو روکنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ جنگیں کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتیں، ان سے صرف لاشیں، آنسو اور تباہی جنم لیتی ہے، یہ بات انسانیت کسی حد تک جان چکی ہے مگر خون آشام صہیونیت اب تک سمجھنے سے عاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری فوری طور پر ثالثی کا کردار ادا کرے، بصورت دیگر جنگ کا یہ آتش فشاں پھٹ پڑا تو پھر کوئی بھی ملک اس کی لپیٹ سے محفوظ نہیں رہے گا اور اس کی تمام تر ذمے داری دنیا کا امن غارت کرکے امن کا انعام حاصل کرنے کے خواہشمند امریکا کے احمق ترین صدر ٹرمپ اور ان کے ڈریکولا ساتھی نیتن یاہو پر عائد ہوگی۔