مقبوضہ بیت القدس/لندن/غزہ/انقرہ:قابض اسرائیلی انتظامیہ نے اتوار کی صبح ایک بار پھر مسجد اقصیٰ کو بند کر دیاحالانکہ چند ہی روز قبل اسے نمازیوں کے لیے دوبارہ کھولا گیا تھا۔ یہ بندش نہ صرف قبل اول کی بے حرمتی ہے بلکہ القدس میں مسلمانوں کی مذہبی آزادی پر ایک کھلا حملہ ہے۔
محافظہ القدس نے بتایا کہ قابض اسرائیلی فوج نے صبح سویرے مسجد اقصیٰ کے تمام دروازے بند کر دیے اور صرف اوقاف کے عملے کو اندر جانے کی اجازت دی گئی جب کہ نمازیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔
معلومات کے مطابق قابض فوج نے گزشتہ شب مسجد اقصیٰ کے قدیم مصلی میں گھس کر وحشیانہ تلاشی لی، سامان کو تہس نہس کیا، الماریاں توڑ دیں اور توہین آمیز انداز میں مقدس مقام کو نقصان پہنچایا۔
اسی دوران مسجد کے چار محافظین محمد عرباش، رمزی الزعانین، باسم ابو جمعہ اور ایاد عودہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ دیگر کئی محافظوں اور ایک فائر بریگیڈ اہلکار سے موقع پر ہی تفتیش کی گئی۔
یہ سب اقدامات مسجد اقصیٰ اور اس کے عملے کے خلاف قابض اسرائیل کے بڑھتے ہوئے حملوں کا حصہ ہیں، جو روزانہ کی بنیاد پر چھاپوں، گرفتاریوں اور دبائو کی شکل میں جاری ہیں۔ ان اقدامات کا مقصد مسجد اقصیٰ کے انتظام و انصرام پر ناجائز قبضہ کرنا اور اسلامی اوقاف کے کردار کو محدود کرنا ہے۔
ماہرین اور انسانی حقوق کے ادارے اس صورتحال کو مسجد اقصی کے تاریخی اور قانونی اسٹیٹس کے لیے سنگین خطرہ قرار دے رہے ہیں۔یورپی یونین کی سفارتی سروس نے ایک دستاویز میں اشارہ دیا ہے کہ اسرائیل انسانی حقوق کی اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
یہ رپورٹ ایسے وقت پر سامنے آئی ہے جب یورپی دارالحکومتوں میں غزہ کی صورتحال اور اسرائیلی فوجی کارروائیوں پر گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے خوراک، ادویات، طبی سازوسامان اور دیگر بنیادی امداد کی فراہمی پر مسلسل پابندیوں نے غزہ کی پوری آبادی کو متاثر کیا ہے۔
اسرائیلی عہدیدار نے اس رپورٹ کو یکطرفہ اور یورپی یونین کی دوہرے معیار کی ایک مثال قرار دیا۔یورپی یونین کی اعلیٰ سفارتکار کائیا کالاس نے مئی میں اعلان کیا تھا کہ یورپی یونین اس بات کا جائزہ لے گی کہ آیا اسرائیل معاہدے کی شرائط پر پورا اتر رہا ہے یا نہیں۔
یورپی یونین کے نصف سے زائد رکن ممالک نے اس جائزے کی حمایت کی تھی۔رپورٹ میں غزہ کی صورتحال پر ایک جامع سیکشن شامل ہے جس میں انسانی امداد کی روک تھام، بڑے پیمانے پر جانی نقصان والے حملے، اسپتالوں اور طبی مراکز پر حملے، نقل مکانی اور احتساب کی کمی جیسے مسائل کو اجاگر کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ مغربی کنارے میں آبادکاروں کے تشدد کو بھی رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔اس دستاویز میں آزاد بین الاقوامی اداروں کی جانب سے تصدیق شدہ حقائق اور حالیہ واقعات کی بنیاد پر تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ بین الاقوامی قانون کا احترام کرتا ہے اور غزہ میں اس کی کارروائیاں حماس کو تباہ کرنے کے لیے ناگزیر ہیں، جو 7 اکتوبر 2023 ء کے حملوں کی ذمہ دار ہے۔یورپی وزرائے خارجہ پیر کو برسلز میں ہونے والے اجلاس میں اس رپورٹ پر گفتگو کریں گے۔
اگرچہ کچھ وزرا اس رپورٹ کی روشنی میں عملی اقدامات کا مطالبہ کر سکتے ہیں، تاہم پیر کے اجلاس میں کسی حتمی فیصلے کی توقع نہیں کی جا رہی۔سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے حکام رپورٹ کے نتائج اسرائیل کو پہنچائیں گے تاکہ اس پر اثر انداز ہوا جا سکے اور جولائی کے اجلاس میں اس موضوع پر دوبارہ غور کیا جائے گا۔
دریں اثناء غزہ پر اسرائیل کے تازہ حملوں میں مزید امداد کے متلاشیوں سمیت کم از کم 26 افراد شہید ہو گئے ہیں۔یہ حملے ایسے وقت میں ہوئے جب اسرائیلی ناکہ بندی کے تحت مایوس فلسطینی بھوک کے جاری بحران کے دوران خوراک کی تقسیم کے مقامات پر انتظار کر رہے تھے۔
اسرائیلی حملوں کے دوران شہید ہونے والوں میں 11 امریکا اور اسرائیل کی حمایت یافتہ غزہ ہیومینٹیرین فائونڈیشن (GHF) کی طرف سے چلائے جانے والے تقسیم مراکز میں امداد وصول کرنے والے تھے۔
اقوام متحدہ نے اس کی مذمت کی ہے۔دریں اثنا وفا نیوز ایجنسی نے اطلاع دی ہے کہ جنوبی غزہ کے علاقے المواصی میں بے گھر فلسطینیوں کو نشانہ بنانے والے اسرائیلی ڈرون حملے میں کم از کم تین افراد شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حملے میں شوراب خاندان کے بے گھر افراد کو پناہ دینے والے ایک خیمے کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ خیمہ اس علاقے میں واقع تھا جسے اسرائیلی فوج نے پہلے ”محفوظ زون” کے طور پر نامزد کیا تھا۔
علاوہ ازیںاقوام متحدہ کی بے گھر کر دیے گئے فلسطینیوں کے لیے قائم کی گئی ایجنسی انرواترکیہ میں اپنا دفتر کھولے گی۔ دفتر دارالحکومت انقرہ میں کھولا جائے گا۔میڈیارپورٹس کے مطابق انہوں نے اس موقع پر مسلم ممالک سے اپیل کی کہ وہ انروا کے لیے زیادہ سے زیادہ امداد کا سامان پیدا کریں۔
یاد رہے اقوام متحدہ کے اس ادارے پر اسرائیل نے غزہ جنگ کے تناظر میں پابندی لگا رکھی ہے کہ یہ جنگ زدہ اہل عزہ کی مدد نہ کر سکے۔ اسرائیل کی طرف سے یہ پابندی پچھلے سال لگائی گئی تھی۔