732 قبل مسیح میں آشوریوں نے پہلی بار اسرائیل کی سلطنت کو تباہ کیا تھا اور اسے تاریخ میں یہودیوں کا زوالِ اول کہا جاتا ہے۔ پھر 70عیسوی میں رومیوں نے یروشلم کو راکھ کے ڈھیر میں بدل کر ہیکلِ سلیمانی کو زمین بوس کیا تو یہ یہودیوں کے لیے زوالِ دوم بن گیا۔ دونوں بار زوال محض فوجی شکست نہیں تھی بلکہ یہودیوں کے ظلم، غرور اور باطل عقائد کے خلاف آسمانی تازیانہ تھا۔
اب دو ہزار سال بعد تاریخ کا پہیہ ایک بار پھر ویسی ہی گردش میں ہے مگر اس بار جو زوال نمودار ہو رہا ہے وہ صرف کسی ایک ملک کا کارنامہ نہیں بلکہ امت مسلمہ کے اجتماعی شعور اور خصوصاً اہلِ فلسطین کی نسل در نسل قربانیوں اور حالیہ ایران اسرائیل جنگ کا مشترکہ نتیجہ ہے۔ ان شاء اللہ یہودیوں کے لیے یہ زوالِ سوم ثابت ہوگا اور اس بار یہود کے مدمقابل نہ کوئی آشوری لشکر ہے، نہ رومی سپاہ بلکہ ایک عالمگیر امت ہے جو بیدار ہو رہی ہے۔ جسے زخم دیے گئے، جسے بانٹا گیا، دبایا گیا لیکن ختم نہ کیا جا سکا۔ اسرائیل کا غرور جس چٹان پر ٹوٹنا ہے وہ چٹان فلسطینی شہداء کا لہو، ایرانی مزاحمت کا عزم اور امت کے دلوں کی دعاؤں ہیں۔ اسرائیل جو خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا، جسے امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دنیا کی بڑی طاقتوں کی غیرمشروط پشت پناہی حاصل تھی وہ چند دنوں کی لڑائی میں ایسا بے بس نظر آیا جیسے کوئی آہنی قلعہ اندر سے دیمک زدہ ہو۔ ایران نے پہلی بار براہِ راست اسرائیلی سرزمین کو نشانہ بنایا ہے اور ایسا نشانہ بنایا کہ اسرائیلی دفاعی نظام جسے ”آئرن ڈوم” کہہ کر دنیا کو بیچا جاتا تھا خود اسرائیلی عوام کی نظروں میں خاکستر ہو گیا ہے۔
ایران کا حملہ محض میزائل حملہ نہیں تھا بلکہ یہ پچاس برس سے دبے انتقام کا اظہار تھا۔ ایران پچھلے پچاس سال سے دباؤ میں تھا، دنیا اسے مسلسل ”گھیرنے” کی کوشش کر رہی تھی، امریکی پابندیاں، اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، اسرائیل کی مسلسل دھمکیاں اور خلیجی ممالک کی سرد مہری۔ ان سب کے باوجود ایران نے نہ صرف اپنی عسکری خود انحصاری قائم رکھی بلکہ اسرائیل کے خلاف خطے کی مزاحمتی قوتوں کا سرپرست بھی بنا اور اس بار اس نے محض پراکسی نہیں خود میدان میں آ کر وار کیا ہے۔ ایرانی حملے کے بعد اسرائیلی فوج اور عوام کی بوکھلاہٹ دیدنی ہے اور یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ ایران کا پیغام صرف میزائلوں سے نہیں بلکہ نفسیاتی، تزویراتی اور سفارتی میدان میں بھی اپنی اثرانگیزی دکھا چکا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ کہ ایران نے کوئی عظیم عسکری اتحاد بنا کر یہ حملہ نہیں کیا، نہ کوئی رسمی فوجی اتحاد، نہ کسی بین الاقوامی معاہدے کے سائے اور نہ کسی عالمی طاقت کی پشت پناہی۔ عالمی دباؤ اور پابندیوں کے باوجود ایران کا حملہ اور اس کے اثرات دہائیوں یاد رکھے جائیں گے۔ ایران کے کامیاب حملوں کے بعد کچھ حقیقتیں واضح ہو گئی ہیں، پہلی یہ کہ اسرائیل ناقابلِ شکست نہیں رہا۔ دوسری یہ کہ امتِ مسلمہ خاموش تماشائی نہیں ہے، چاہے کچھ حکومتیں بے حس ہوں مگر عوام کے جذبات ہرگز نہیں مرے۔ ایران کے حملے نے ان جذبات کو ایک عملی تصویر دے دی ہے اور اسرائیل کو وہ پیغام مل گیا ہے جو صرف الفاظ سے نہیں عمل سے سمجھایا جا سکتا تھا۔ اسرائیل کے اندر اس وقت سیاسی بحران، سماجی تقسیم اور فوجی قیادت پر سوالات کا طوفان ہے۔ دنیا بھر میں یہودیت کو جو یکجہتی اسرائیل نے فراہم کی تھی وہ ٹوٹنے لگی ہے۔ نوجوان یہودی نسل اسرائیل کے اقدامات سے بیزار ہے اور یورپ و امریکا میں اسرائیل مخالف جذبات اب خفیہ نہیں رہے ۔ یہ سب اس زوال کا آغاز ہے جس کی بنیاد ظلم پر رکھی گئی ریاست کی طبعی عمر سے جڑی ہے۔
اس جنگ میں پاکستان کا کردار بھی اہم ہے۔ پاکستان ایک نیوکلیئر اسلامی ریاست ہے جس کی فوجی صلاحیت، سفارتی پوزیشن اور نظریاتی اساس کسی بھی مسلم ملک سے کہیں زیادہ وزنی اور حساس ہے۔ ایران اور اسرائیل کی اس کشمکش میں پاکستان کا موقف غیرجانب دار نہیں رہا بلکہ واضح ہے۔ پاکستان اگرچہ براہِ راست اس جنگ میں شریک نہیں ہوا مگر اس کی خاموش حکمتِ عملی مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستان جانتاہے کہ اگر اسرائیل کو کھلا چھوڑ دیا گیا تو اگلا ہدف ایران نہیں بلکہ وہ طاقتیں ہوں گی جو اسرائیل کو نظریاتی سطح پر چیلنج کرتی ہیں اور پاکستان ان میں سرِفہرست ہے۔ اسرائیل کے خلاف پاکستان کی پالیسی شروع دن سے واضح ہے ہم نہ اسے تسلیم کرتے ہیں، نہ اس کے وجود کو قانونی حیثیت دیتے ہیں اور نہ ہی فلسطینی مظلوموں کے خلاف اس کی بربریت پر خاموش رہ سکتے ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ لمحہ اہم ہے کہ ہمیں صرف تماشائی نہیں رہنا بلکہ اپنے بیانیے، اپنے سفارتی تعلقات اور اپنی عسکری تیاری کو اس انداز میں استوار کرنا ہے کہ اگر کل امت کو کسی نئی کمک کی ضرورت پڑے تو پاکستان ایک حقیقی قوتِ بازو ثابت ہو۔ ہمارا کردار صرف جلسوں، قراردادوں، یا مذمتوں تک محدود نہ ہو بلکہ ہم ایک ایسی اسٹریٹیجک پوزیشن میں ہوں جہاں ہم امت کے اجتماعی دفاع کے ضامن بن سکیں۔
یہ حقیقت ڈھکی چھپی نہیںکہ اسرائیل نے ہمیشہ پاکستان کو مختلف ذرائع سے گھیرنے کی کوشش کی۔ بھارت کے ذریعے بلوچستان میں بدامنی، افغان بارڈر پر کشیدگی، اسرائیلی لابیز کی یورپ و امریکا میں پاکستان مخالف پروپیگنڈا یہ سب اسی عالمی منصوبے کا حصہ تھے جس کا مقصد پاکستان کو داخلی طور پر غیر مستحکم کرنا اور اسے اسلامی دنیا کی قیادت سے دور رکھنا تھا۔ مگر ایران اسرائیل جنگ نے یہ حقیقت واضح کر دی کہ پاکستان کی تزویراتی حیثیت ناقابلِ انکار ہے۔ اب جب تاریخ اور حالات نے پاکستان کو اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے تو اس پر لازم ہے کہ امت کے بیانیہ ساز اور تزویراتی رہنما کے طور پر اپنا کردار ادا کرے۔