گریٹر اسرائیل کی طرف بڑھتے قدم؟

اسرائیلی حملوں میں ایران کی اعلیٰ عسکری قیادت کے ساتھ نیوکلیئر سائنس دانوں کا قتل، ایرانی انٹیلی جنس اور دفاعی نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کر گیا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب نے حسبِ روایت ان حملوں کی مذمت پر اکتفا کیا ہے، جبکہ ایران کی جانب سے جوابی حملے کیے گئے، جنہیں ناکام بنانے میں امریکا نے براہِ راست کردار ادا کیا۔ فرانس نے بھی جنگ میں اسرائیل کی مدد کا اعلان کر دیا ہے۔ اسی دوران اطلاعات ہیں کہ ایران میں مستقبل قریب میں رژیم چینج کی سازشیں زور پکڑ چکی ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو روس اور چین اپنے ایک اہم اتحادی سے محروم ہو جائیں گے۔ ایران میں انقلاب مخالف عناصر کو حکومت میں لانے کی کوششیں جاری ہیں۔ ایران کا جوہری پروگرام، جو بظاہر محفوظ سمجھا جا رہا ہے، اگر تباہ ہو جاتا ہے تو روس کا بحیرہ روم کا راستہ بند ہو جائے گا، جبکہ چین کے توانائی منصوبے اور معاہدے شدید خطرے میں پڑ جائیں گے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ایرانی اثر و رسوخ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس تمام صورتِ حال کے پسِ منظر میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، اپنے امریکی اتحادیوں کی مدد سے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو حقیقت میں بدلتے نظر آ رہے ہیں۔

سوالات بہت سے ہیں، ایران میں جاسوسوں کا کردار، اتنی آسانی سے عسکری قیادت کا ختم ہو جانا، اسرائیل کی طرف سے مزید حملوں کی دھمکیاں اور مسلم و عرب حکمرانوں کا صرف مذمتی بیانات پر اکتفا کرنا… یہ سب کچھ بہت کچھ کہہ رہا ہے۔ غزہ میں جاری مظالم کو اس صورت حال سے نئی تقویت ملے گی، بلکہ ممکن ہے اسرائیل غزہ کو مکمل طور پر خالی کرانے میں کامیاب ہو جائے۔ سوشل میڈیا پر یہ سازشی تھیوری بھی گردش میں ہے کہ ایران کے اندر موجود مخبروں نے ہی اعلیٰ قیادت کو مروایا ہے اور عوامی دباؤ سے بچنے کیلئے ایران نے اپنا جوہری پروگرام درپردہ ختم کر دیا ہے، کیونکہ اگر وہ سرِعام اسے رول بیک کرتا تو شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا۔ ماضی میں قاسم سلیمانی اور اسماعیل ہانیہ کے واقعے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔

ایک بات طے ہے کہ ایران کو اس بار ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔ انٹیلی جنس کی ناکامی واضح ہے۔ جواباً ایرانی قیادت نے فوری طور پر نئی عسکری قیادت مقرر کی اور چوبیس گھنٹوں میں پانچویں بار تل ابیب پر میزائل داغے، جن سے کچھ عمارتوں میں آگ بھی بھڑکی، البتہ ایران نے تاحال امریکی اڈوں کو نشانہ نہیں بنایا، لیکن آئندہ یہ ممکن ہے، کیونکہ امریکی تعاون اب علانیہ ہو چکا ہے۔ یہ جنگ اب صرف ایران اور اسرائیل تک محدود نہیں رہی۔ روس اور چین کے مفادات بھی اس سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ نریندر مودی نے نیتن یاہو سے فون پر بات کی، جبکہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے ایرانی صدر سے رابطہ کر کے اسرائیلی حملوں کی مذمت کی۔ اتحادی اپنی صفیں ترتیب دے رہے ہیں۔ امریکا اور فرانس کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں اور بھارت بھی اسرائیلی موقف کی تائید کر چکا ہے۔ پاکستان پر بھی گزشتہ چھ ماہ سے امریکی دباؤ رہا کہ وہ ایران کے معاملے پر اپنی پوزیشن واضح کرے۔ امریکی حکام چاہتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل کی مخالفت سے دستبردار ہو اور خاموشی سے مستقبل میں اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ شاید اسی تناظر میں جنرل عاصم منیر کو دورہ امریکا کی دعوت دی گئی ہے۔ پاکستان اور مسلم دنیا کو اب فیصلہ کرنا ہوگا اگر وہ غیرجانبدار رہتے ہیں تو یاد رکھیں کل پاکستان پر حملہ ہوا تو دنیا بھی غیرجانبدار رہ سکتی ہے۔ اسرائیل پہلے بھی بھارت کی مدد کر چکا ہے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو خطرہ قرار دے چکا ہے۔ چین اور روس کے لیے بھی اب آزمائش کا وقت ہے، اگر انہوں نے ایران کی مدد نہ کی تو ان کے معاشی اور عسکری منصوبے خاک میں مل سکتے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ، توانائی گزرگاہیں، اور اسٹریٹجک شراکت داری سب کچھ داو پر لگ چکا ہے۔

امریکا اپنے ناجائز بچے اسرائیل کے ذریعے پوری دنیا کو بلیک میل کر رہا ہے۔ ایران میں بھارتی جاسوسوں کا نیٹ ورک فعال ہے جو امریکا و اسرائیل کو معلومات فراہم کر رہا ہے۔ بھارت ایران سے ناراض بھی ہے کیونکہ ایران نے ماضی میں پاکستان سے بہتر تعلقات رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جنگ اب گیم آف تھرونز کا منظر پیش کر رہی ہے، جہاں ہر فریق اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے میدان میں اتر رہا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں ایران میں سیاسی افراتفری بڑھے، اسرائیل کے حملے جاری رہیں، اور دیگر ممالک، بالخصوص سعودی عرب اور پاکستان، اس جنگ کا براہِ راست حصہ بن جائیں۔ یہی عالمی طاقتوں کی خواہش بھی ہے، تاکہ اسرائیل اور بھارت کو علاقائی بالادستی حاصل ہو۔ اس وقت ایسا لگتا ہے کہ اکھنڈ بھارت اور گریٹر اسرائیل کے خواب کو عملی جامہ پہنایا جا رہا ہے اور عظیم فارس کا خواب خلیج فارس میں غرق ہو رہا ہے۔ مگر کل کیا ہوگا؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تیسری عالمی جنگ ہو سکتی ہے۔ یہ آرمیگڈون یا ملحمة الکبریٰ کا آغاز ہو سکتا ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیلی مظالم کے انجام کی ابتدا یہی ہو۔