مشرقِ وسطی۔ آگ میں گھرا خطہ اور بے حس دنیا

مشرقِ وسطیٰ، جو کبھی تہذیبوں کا گہوارہ، علم و حکمت کا مرکز اور روحانی نور کا سرچشمہ تھا، آج بارود کی بو، خون کی دھار اور آنکھوں میں نمی کا استعارہ بن چکا ہے۔ یہ خطہ گزشتہ کئی دہائیوں سے آگ و خون کے کھیل کا میدان بنا ہوا ہے، جہاں طاقت کی ہوس نے امن کے سب خواب چکنا چور کر دیے ہیں۔ فلسطین سے لبنان، شام سے عراق، یمن سے ایران تک ہر سمت اضطراب، تباہی اور غیر یقینی صورتحال نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

غزہ ان دنوں ظلم و ستم کی ایسی ہولناک تصویر پیش کر رہا ہے جو تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں لکھی جا رہی ہے۔ اسرائیلی بمباری، محاصرے، بھوک، قحط اور طبی سہولیات کی شدید قلت نے اسے زندہ قبروں کا علاقہ بنا دیا ہے۔ بچوں کی لاشیں ملبے تلے، ماں کی سسکیاں اور باپ کی بے بسی، سب کچھ دنیا کو پکار رہا ہے کہ انسانیت کہاں مر گئی؟ مگر بدقسمتی سے اقوامِ متحدہ اور عالمی طاقتیں صرف مذمتی بیانات اور سفارتی جملوں سے کام چلا رہی ہیں، جبکہ امریکا اپنے ویٹو کے ذریعے اسرائیل کے جرائم پر پردہ ڈال رہا ہے۔

لبنان میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ایک بار پھر کشیدگی بڑھ رہی ہے، جس سے کسی بھی وقت ایک نیا محاذ کھلنے کا اندیشہ ہے، جبکہ ایران کے ساتھ باقاعدہ جنگ اسرائیلی جارحیت کے ساتھ ہی شروع ہوچکی ہے۔ شام کی خانہ جنگی کے اثرات ایک دہائی گزرنے کے باوجود مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکے۔ لاکھوں افراد بے گھر، لاکھوں جاں بحق اور لاکھوں ذہنی صدمے کا شکار ہو چکے ہیں۔ عراق میں سیاسی عدم استحکام اور مسلح گروہوں کی موجودگی نے امن کو خواب بنا دیا ہے، جبکہ یمن میں سعودی عرب اور ایران کے پراکسی وار نے معصوم انسانوں کو ایندھن بنا دیا ہے۔

ایران اور خلیجی ریاستوں کے درمیان سرد مہری، اسرائیل کے ساتھ بعض عرب ممالک کے تعلقات کی بحالی اور فلسطین کے مسئلے پر بڑھتی ہوئی بے حسی، اس بات کا ثبوت ہے کہ مشرق وسطیٰ کو صرف باہر سے نہیں، بلکہ اندر سے بھی توڑا جا رہا ہے۔ یہ انتشار، فرقہ واریت، اور علاقائی مفادات کا تصادم دراصل سامراجی قوتوں کے لیے ایک مکمل میدانِ کارزار بن چکا ہے، جہاں یہ مکار عالمی طاقتیں اسلحہ بیچتی ہیں، معاہدے کرواتی ہیں اور پھر انہی معاہدوں کو توڑ کر نئی جنگوں کا آغاز کرتی ہیں۔

اس تمام تر صورتحال میں عالمی اور مقامی میڈیا کا کردار بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ مغربی میڈیا عموماً اسرائیل کے بیانیے کو ترجیح دیتا ہے، جبکہ مظلوم فلسطینی عوام کی آواز دب جاتی ہے۔ سوشل میڈیا ایک موثر پلیٹ فارم ضرور ہے، مگر اسے بھی محدود کیا جا رہا ہے۔ فیک نیوز، پروپیگنڈا اور معلومات کی جنگ نے سچ اور جھوٹ کے درمیان لکیر دھندلا دی ہے۔ ایسے میں مسلم میڈیا اداروں کی ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ مظلوموں کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کریں، اور عالمی ضمیر کو جھنجھوڑیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ مسلم دنیا اس تمام صورت حال پر منقسم، بزدل اور بے بس نظر آتی ہے۔ او آئی سی جیسے ادارے صرف اجلاس بلانے اور اعلامیے جاری کرنے تک محدود ہو گئے ہیں۔ کہیں بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ مسلم ممالک اپنی اجتماعی طاقت، معیشت، سفارت یا ابلاغ کو استعمال کر کے اس خطے میں حقیقی تبدیلی لا سکیں۔ جب تک مسلمان ممالک آپس کے اختلافات اور تنازعات سے بلند ہو کر ایک امت بن کر نہیں سوچتے، مشرقِ وسطیٰ کے مسائل کم ہونے کی بجائے بدقسمتی سے بڑھتے ہی چلے جائیں گے۔

ایران اسرائیل حالیہ جنگ نے خطے کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا ہے۔ یہ جنگ ہولناک تباہیوں کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے اور ایک اور عالمی جنگ میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے۔ یہ تمام تر صورتحال پوری دنیا کے سنجیدہ حلقوں کے لیے نہایت پریشان کن ہے۔ مشرق وسطیٰ کا بحران محض زمینی یا سیاسی نہیں، بلکہ یہ ایک فکری اور اخلاقی بحران بھی ہے۔ جب تک حکمران اپنی کرسیوں کے تحفظ کی بجائے اپنے عوام کے درد کو نہیں سمجھیں گے، جب تک امت کے اجتماعی مفاد کو ذاتی مفادات پر ترجیح نہیں دی جائے گی، تب تک غزہ جلتا رہے گا، شام اجڑتا رہے گا اور یمن روتا رہے گا اور اب اس آگ میں ایران کو بھی جھونک دیا گیا ہے۔

اس بحرانی کیفیت کا ایک پہلو تعلیم اور شعور کی کمی بھی ہے۔ نوجوان نسل کو گمراہ کن نظریات اور شدت پسندی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ مدارس، یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے اگر امن، رواداری اور انسان دوستی کی تربیت نہ دیں، تو نئی نسل بھی نفرت، تقسیم اور تصادم کا شکار بنے گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیمی نصاب کو ازسرنو ترتیب دیا جائے اور جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔

اسی طرح معاشی عدم مساوات اور غربت نے عوام کو مایوسی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ جب بھوک، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل درپیش ہوں، تو عوام کے لیے قومی مفادات اور عالمی حالات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک جامع معاشی منصوبہ بندی، شفاف حکمرانی اور کرپشن سے پاک نظام ناگزیر ہے۔

مزید برآں، مذہبی رہنماؤں اور دانشوروں کا کردار بھی قابلِ توجہ ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ نفرت کی بجائے اخوت، تصادم کی بجائے مصالحت اور انتقام کی بجائے انصاف کا درس دیں۔ جب بلا امتیاز مسلک ہماری تمام مساجد کے منبر اور محراب سے وحدتِ امت کا پیغام دیا جائے گا تو قوموں کے درمیان فاصلے کم ہوں گے۔ صرف حکومتیں نہیں، بلکہ ہر طبقہ فکر کو اس جدوجہد میں شامل ہونا ہو گا۔

عوامی سطح پر شعور بیدار کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ عام شہری کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ اس کے ایک ووٹ، ایک آواز اور ایک قدم سے فرق پڑ سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کے درست استعمال، بائیکاٹ کی مہمات، احتجاج اور رائے عامہ کی تشکیل جیسے ذرائع کو مؤثر طریقے سے استعمال کیا جائے، تو عالمی طاقتوں کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں۔

دنیا کو یہ سوچنا ہو گا کہ امن کی قیمت صرف الفاظ نہیں، بلکہ عمل ہے۔ طاقتوروں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ظلم و جبر سے وقتی فائدہ تو حاصل ہو سکتا ہے، مگر تاریخ ایسے کرداروں کو ہمیشہ رسوائی کے ساتھ یاد رکھتی ہے اور مسلم دنیا کو اب خواب غفلت سے بیدار ہو کر متحد، بیدار اور فعال ہونا ہوگا، ورنہ مشرق وسطیٰ کا یہ زخم کبھی نہیں بھرے گا۔