آج کے دور میں اگرچہ پوری دنیا میں اتحاد کے معاہدے سمیت ہر طرح کے دیگر معاہدے موسموں کی طرح بدلتے رہتے ہیں اور سیاسی موقف بھی مفادات کی منڈی میں ایک جنس بن کر رہ گیا ہے اور برائے فروخت ہوگیا ہے، تاہم اصولوں سے وابستگی اور اس قطب نما کی طرف واپسی بہرحال ناگزیر ہے، جو ہمیشہ ہمیں صحیح راستہ دکھاتی رہی ہے اور یہ ہے ہماری اخلاقی، دینی اور تاریخی سمت نما۔
فطری اور عقلی طور پر یہ رویہ قابل قبول نہیں کہ آج کے دور میں اسرائیلی جارحیت پر کسی پڑوسی ملک کے خلاف تالیاں بجائی جائیں، چاہے وہ ملک کوئی بھی ہو اور چاہے وہ ہمیں اچھا نہ لگتا ہو۔ فلسطین اور غزہ میں میں اسرائیل کی ننگی جارحیت کے بعد بھی بعض لوگوں کا صہیونی دشمن کے بیانیے کے ساتھ ہم آہنگ ہونا اور ایران پر اسرائیلی حملے کو جواز فراہم کرنا یا اس پر خوشی کا اظہار کرنا دین و ملت کے ضمیر سے ہر رشتہ کھو دینے کے مترادف ہے۔
ہم ایرانی پالیسیوں کا دفاع نہیں کرتے، نہ ہی ان کی علاقائی مداخلتوں میں موجود حقیقی سازشوں، اشکالات اور اختلافات سے آنکھیں بند کرتے ہیں، لیکن ہمارا ایمان ہے کہ اختلاف، خواہ کتنا بھی شدید ہو، کبھی بھی ایک ایسے وجودی دشمن کے ساتھ صف بندی کو جواز نہیں دیتا، جو کسی بھی عرب اور مسلمان میں فرق نہیں کرتا اور اپنے توسیعی منصوبے میں کسی ایک دارالحکومت یا دوسرے میں کوئی تمیز رکھنے کا روادار نہیں۔ اس کے سامنے صرف اور صرف اپنے ناجائز وجود اور ناجائز قبضوں کا دفاع ہی اہم ہے، اس کے سوا وہ دنیا کا کوئی اصول، انسانیت اور امن کا قائل نہیں۔ ایران، اپنے تمام مثبت و منفی پہلوؤں کے باوجود، ایک ایسا ملک ہے جس کے ساتھ عقیدے اور فروعی اختلافات کے باوجود بات چیت اور باہمی مفادات کے ذریعے حل نکالا جا سکتا ہے۔ اسرائیل مگر ایک عارضی وجود اور دائمی دشمن ہے، اس کی دشمنی کوئی سیاسی انتخاب نہیں، بلکہ ایک تاریخی اور عقائدی حقیقت ہے، جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
اسرائیل نے اپنی ابتدا ہی سے جارحیت، قتل عام، زمینوں پر قبضے، شناخت اور تاریخ کے مٹانے جیسے جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کے باوجود کچھ لوگ ان حقائق سے چشم پوشی کرتے ہیں اور تنگ نظری پر مبنی فرقہ وارانہ حساب کتاب میں الجھ کر اس دشمن کے مجرمانہ ماضی، حال اور تاریک مستقبل کو نظرانداز کرتے ہیں۔ یہ حساب کتاب چاہے وقتی طور پر کتنا بھی پرکشش کیوں نہ لگے، نہ کبھی امن قائم کر سکتا ہے، نہ عزت محفوظ رکھ سکتا ہے اور نہ ہی دائمی دشمن کو روک سکتا ہے۔
ایسے دشمن کے ساتھ اتحاد یا اس کے ساتھ ہم آہنگی بالآخر اسی کے خلاف جاتی ہے جو اس پر آمادہ ہوتا ہے۔ اسرائیل کبھی بھی مخلص اتحادی یا قابلِ اعتماد شراکت دار نہیں رہا، بلکہ ہمیشہ رنگ بدلتا رہا ہے اور اس کی دشمنی ہمیشہ ان کے ساتھ رہی ہے جو اس کی بالادستی کو قبول نہ کریں۔ جو یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس کی گود میں جا کر اس کے شر سے محفوظ رہے گا، وہ نہ صرف بصیرت سے محروم ہے، بلکہ اس نے تاریخ سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔
تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ آج جس دشمن کی ایران پر جارحیت پر کچھ لوگ خوشی مناتے ہیں، وہی دشمن عرب قائدین کو قتل کر چکا ہے، عرب شہروں کو مٹا چکا ہے اور پوری کی پوری اقوام کو بے گھر کر چکا ہے۔ تو کیا ہم تہران سے اختلاف کی بنیاد پر یہ سب کچھ بھول جائیں؟ کیا اختلاف، خیانت کا جواز بن سکتا ہے؟ کیا وقتی مفادات کی بنیاد پر اپنی پوزیشن بدل لینا دانشمندی ہے؟ ہمیں مفاہیم کو دوبارہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے، اور یہ سمجھنے کی بھی کہ ہمسایہ، چاہے غلطی پر ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی ہمسایہ ہوتا ہے، جس سے صلح کی جا سکتی ہے، اور تعلقات کی اصلاح ممکن ہے لیکن دشمن، دشمن ہی رہتا ہے، اس کی دشمنی ختم نہیں ہوتی اور اس کے شر سے امن ممکن نہیں۔ جو شخص ہمسایے اور دشمن کے بیچ اپنی جگہ بدلتا رہتا ہے، وہ اپنی سمت کھو بیٹھتا ہے، اور واپسی کے راستے سے محروم ہو جاتا ہے۔
ایسے وقت میں اس دھوکا دہی پر خاموشی اختیار کرنا خیانت کے مترادف ہے اور حق بات کہنا فرض بن جاتا ہے۔ ہمیں دوبارہ دوست اور دشمن کی تعریف کرنی ہو گی، لیکن جذبات یا خواہشات کی بنیاد پر نہیں، بلکہ شعور، حق اور تاریخ کے معیار پر کیونکہ دائمی دشمن کے لیے نرم گوشہ رکھنا اور عارضی دشمن کو دائمی آسیب بنا دینا کوئی دانشمندی نہیں۔ پڑوسیوں کے ساتھ چاہے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں، تعلقات چاہے جتنے بھی پیچیدہ ہوں، عقل اور حکمت کے ساتھ درست کیے جا سکتے ہیں۔ تاریخ پر نگاہ رکھنے والوں پر پوشیدہ نہیں کہ یہی ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے۔ جب تک ہم یہ فرق کرنا نہیں سیکھیں گے کہ کون ہم سے اختلاف رکھتا ہے، اور کون ہمیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ارادہ رکھتا ہے تب تک نہ ہماری جغرافیائی حدود محفوظ رہ سکتی ہیں اور نہ ہی ہماری عزت اور وقار محفوظ رہ سکتے ہیں۔ سو خوب سمجھ لیجیے کہ اسرائیل ہی پہلا، دائمی اور وجودی دشمن تھا، ہے اور رہے گا۔ یہ ہم نہیں بلکہ قرآن کہتا ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ مائدہ کی آیت نمبر بیاسی۔ ”تم یہ بات ضرور محسوس کرلو گے کہ مسلمانوں سے سب سے سخت دشمنی رکھنے والے ایک تو یہودی ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو (کھل کر) شرک کرتے ہیں۔” آج یہود (اسرائیل) اور انڈیا کے مشرکوں کا گٹھ جوڑ قرآن کی حقانیت کی ایک اور واضح اور زندہ مثال ہے۔