بجٹ آ گیا اور اس پر معاشی ماہرین کے تبصرے بھی شروع ہو چکے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے عام آدمی کو تو خیر کیا اچھے خاصے جاننے والوں کو بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ اس گورکھ دھندے میں کچھ باتیں ہی سمجھ میں آتی ہیں اور وہ بھی یقینی نہیں ہوتیں۔ یعنی حتمی نفاذ سے پہلے اس میں کیا ترامیم ہو جائیں گی اور بعد میں منی بجٹ آئے گا یا نہیں۔ گویا خوش ہونے والی باتیں اگر ہوں بھی اور اس جملے میں اگر کا لفظ اہم ہے تو وہ بھی وقتی ہوتی ہیں، اس لیے طے یہی ہوتا ہے کہ کچھ طے نہیں ہے۔
البتہ ہر بجٹ میں کچھ باتیں طے ہیں۔ طے ہوتا ہے کہ یہ خسارے کا بجٹ ہوگا۔ طے ہے کہ حکومت کے اتحادی اسے بہترین بجٹ قرار دیں گے عوام دوست بجٹ گردانیں گے یہ بتائیں گے کہ ہم نے عوام اور مختلف شعبوں کا کس کس طرح خیال رکھا ہے، کون کون سے ٹیکس کم کر دیے ہیں اور کس کس شعبے کو ریلیف دیا ہے۔ ہر تجویز پر حکومتی ارکان ڈیسک بجائیں گے اور خواہ کسی رکن اسمبلی کی سمجھ میں خاک بھی نہ آرہا ہو زور و شور سے بجٹ کی تائید کرے گا۔ اکثریت کی بنیاد پر بجٹ جوں کا توں یا معمولی رد و بدل کے ساتھ پاس ہو جائے گا۔ حکومت ایک اہم مرحلے سے سرخرو ہو جائے گی۔ اسی طرح دوسری طرف بھی کچھ باتیں طے ہیں۔ اپوزیشن اس بجٹ کو عوام دشمن اور قاتل بجٹ قرار دے گی۔ ایوان میں ہنگامہ کرے گی اور وزیر خزانہ کو آرام سے تقریر نہیں کرنے دی جائے گی۔ اسپیکر بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن کو بات کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ اس پر حزبِ اختلاف اسپیکر کی کرسی کے سامنے جمع ہوکر نعرے لگائے گی۔ بجٹ کی کاپیاں پھاڑی جائیں گی اور حکومتی ارکان کے سروں پر اچھال دی جائیں گی۔ ممکن ہوا تو ایوان سے واک آوٹ کر دیا جائے گا اور میڈیا کے سامنے تند و تیز تقاریر کی جائیں گی تاکہ عوام کو باور کرایا جا سکے کہ حکومت کتنا ظالمانہ بجٹ لائی ہے۔ منگل کے روز پیش کیے گئے بجٹ میں بھی کم و بیش یہی کچھ ہوا اور یہ طے تھا کہ یہی کچھ ہونا ہے۔ حکومت ہو یا حزبِ اختلاف یہ سارے کام کر کے گردن اکڑائے اس طرح نکلتے ہیں جیسے بڑے معرکے سر کر آئے ہوں۔
جمہوری شور و غوغا میں ہر سال یہ مناظر لازمی ہو چکے ہیں۔ ساری عمر یہی تماشے دیکھتے گزری اور اب اس میں کوئی چونکا دینے والی بات رہی نہیں۔ عوام بھی سکون سے یہ سارے منظر دیکھتے ہیں۔ اس میں سے کوئی کام کی چیز نکل آئے تو اس پر بات ہو جاتی ہے ورنہ لوگ اپنے اپنے کاموں میں لگے رہتے ہیں۔ سب کو پتا ہے کہ بالآخر کسی کو فائدہ ہونا نہیں۔ اگر ایک ہاتھ سے ریلیف دیا جائے گا تو دوسرے ہاتھ سے واپس لے لیا جائے گا۔ آخر میں عام آدمی کی جیب سے کیا نکال لیا جائے اور کیا بچے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ سابقہ تجربات کی روشنی میں عام آدمی کی جیب پر مزید بوجھ پڑے گا۔ یہ بات اسے زیادہ پیچیدہ بنا دیتی ہے کہ اعداد و شمار کتنے درست ہیں، کتنے محض بجٹ کو منظور کروانے کیلئے شامل کیے گئے اور کتنے بعد میں تبدیل ہو جائیں گے۔
موجودہ بجٹ 17ہزار 573ارب روپے کا ہے جس میں 6501ارب روپے خسارہ ہے۔ دفاع کیلئے 20فیصد رقم بڑھا کر 2550ارب روپے کی گئی ہے جو موجودہ جنگی حالات میں درست ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق چار ہزار ٹیرف لائنز میں کسٹم ڈیوٹیز کو ختم کیا گیا ہے۔ آبی ذخائر کیلئے رقم زیادہ مختص کی گئی ہے۔ سرکاری تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ اور پنشن کیلئے 7فیصد اضافہ۔ پراپرٹی کی خرید پر وِد ہولڈنگ ٹیکس میں کمی کی گئی ہے۔ اسی طرح جائیداد پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بھی کم ہوئی ہے۔ کسٹم ڈیوٹیز میں کمی سے درآمدی چیزیں سستی ہونے کا امکان ہے۔ میرے خیال میں یہ دراصل امریکا کی طرف سے ٹیرف جنگ ہی کا شاخسانہ سمجھا جانا چاہیے۔ پراپرٹی ٹیکس میں کمی سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر جو اس وقت منجمد پڑا ہے، چلنے کا امکان ہے لیکن یہ کمی اس کیلئے بہت کم ہے اور وہ بھی اس وقت جب یہ طے ہوجائے کہ ایک ہاتھ سے رقم دے کر دوسرے ہاتھ سے واپس نہیں لی جائے گی۔
اس کے باوجود کچھ باتیں عام آدمی کو بھی نظر آرہی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ملک کا معاشی سانس بحال ہوا ہے۔ ڈیفالٹ کا خطرہ کافی دور چلا گیا ہے اور مہنگائی کافی حد تک کم ہوئی ہے۔ یہ بھی واضح ہے کہ جب تک ہم آئی ایم ایف کے چنگل میں ہیںاپنی مرضی سے بجٹ نہیں بنا سکتے۔ اپنی مرضی سے اگر ہم بجلی کی قیمت کم کرنا چاہیں بھی تو نہیں کرسکتے۔ پٹرول سستا کرنا چاہیں تو ممکن نہیں ہے۔ کسی معاملے میں سبسڈ ی دینا چاہیں تو نہیں دے سکتے۔ اس لیے کہ قرض دینے والے کی مرضی ہے کہ مانے یا نہ مانے۔ ہم تو اسی بات پر خوش ہوجاتے ہیں کہ مہاجن نے ہمیں قرض دے دیا ہے کسی بھی شرط پر سہی، چنانچہ یہ بجٹ بھی اسی کی مرضی سے بنایا گیا ہے۔ جو حزبِ اختلاف اس وقت شور مچا رہی ہے، اس نے بھی جب بجٹ بنایا تھا تو اسی مہاجن کی مرضی سے بنایا گیا تھا۔ کچھ خبروں سے امید بندھتی ہے کہ شاید پاکستان چند سالوں میں اس گرداب سے نکل آئے گا۔ لیکن فی الحال یہ ”شاید” سے زیادہ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف نے قسط جاری کردی ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک نے بھی بڑی رقم قرض کے طور پر دی ہے لیکن زیادہ اہم خبر ورلڈ بینک کی ہے۔ اس نے دس سال کیلئے 40بلین ڈالر کا قرضہ منظور کیا ہے۔ یہ بڑی خبر ہے۔خبروں کے مطابق یہ مخصوص شعبوں مثلا صحت کیلئے قرضہ ہے اور اسے دیگر شعبوں پر خرچ نہیں کیا جاسکتا۔
بہرحال پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ! 2025کا وسط آ چکا۔ اگر حالات یونہی چلتے رہے اور کوئی بڑا مسئلہ نہ ہوا تو 2028میں ان شاء اللہ پاکستان بہتر پوزیشن میں آ چکا ہوگا۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تکمیل ہوکر پانی جھیل میں جمع ہونا شروع ہو جائے گا اور بجلی کی پیداوار شروع ہو چکی ہوگی۔ یہ ایک بڑا منصوبہ ہے جو بہت بہتری لاسکتا ہے۔ ریکوڈک بلوچستان میں سونے اور تانبے کی پیداوار شروع ہوکر پاکستان کو حصہ ملنا شروع ہو جائے گا۔ مہمند ڈیم بھی آپریشنل ہوجائے گا۔ کئی اور منصوبے بھی تکمیل تک پہنچ جائیں گے۔ آئی پی پیز کی ضرورت محدود ہو چکی ہوگی۔ اگر عالمی صورتحال بہتر ہوئی اور پابندیاں اٹھ گئیں تو پاکستان روس اور ایران سے سستا تیل خرید سکے گا۔ آئی ٹی کی برآمدات میں مسلسل اضافہ حوصلہ افزا ہے اور پاکستان نے اس شعبے میں بہت اچھی پیشرفت کی ہے۔ اس وقت یہ تین ارب ڈالرز سے زائد ہیں جنہیں 25ارب تک لے جانا ہے۔ پاکستان کی برآمدات میں اس شعبے کا اضافہ ایک نئی جہت ہے۔ بنگلہ دیش کی سیاسی صورتحال کے پیشِ نظر پاکستان کو ٹیکسٹائل کے شعبے میں کافی آرڈرز ملنے کی امید ہے۔ ٹرمپ کا رویہ حوصلہ افزا ہے اور اس نے پاکستانی صنعتوں کی تعریف کی ہے۔ اس وقت اہم اقدامات کیے جائیں تو مارکیٹ کا کافی حصہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایس آئی ایف سی کا اقدام کامیاب رہا ہے۔ اس پر تنقید بھی ہوئی تھی اور شک کی نگاہوں سے دیکھا گیا لیکن اب تک اس نے ملکی معیشت میں اپنا حصہ شامل کیا ہے۔ مجھے اس میں خاص طور پر بنجر زمینوں اور صحراؤں کو سرسبز کرنے کا اقدام بہت خوش آئند لگتا ہے۔ البتہ معدنیات کا شعبہ بھی بہت اہم ہے۔
شاعر نے کہا تھا: کچھ خواب نہ دیکھیں تو گزارہ نہیں ہوتا۔ ہم بھی پاکستان کو ایک فلاحی مملکت کے روپ میں دیکھنے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور کب سے دیکھ رہے ہیں۔ اصل منزل یہ نہیں کہ حکومتی خزانے میں کتنے پیسے جمع ہوتے ہیں۔ اصل منزل یہ ہے کہ لوگوں کو خاص طور پر پسے ہوئے طبقات کو غربت کی لکیر سے کب اوپر اٹھایا جا سکے گا؟ پاکستان کے خزانے میں رقم آنا بھی اہم ہے لیکن لوگوں کی جیبوں تک پہنچنا زیادہ اہم ہے۔ ہم اسی اہم ترین کام کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ امیدِ بہار نہ ہو تو پت جھڑ نہیں گزارے جا سکتے۔