غزہ جنگ بندی کی قرارداد اور ایک بار پھر امریکی ویٹو

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قرارداد امریکا نے ویٹو کر دی، جبکہ پاکستان نے کہا ہے کہ اس اقدام سے خطرناک پیغام جائے گا۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل میں غزہ میں مستقل جنگ بندی کی قرارداد پاکستان سمیت 10 غیر مستقل ارکان کے ساتھ مل کر الجزائر نے پیش کی۔ قرارداد میں غزہ میں مستقل جنگ بندی اور بلا رکاوٹ امداد کی رسائی کا مطالبہ شامل تھا، سلامتی کونسل کے 15میں سے 14ارکان نے غزہ جنگ بندی مطالبے کے حق میں ووٹ دیا۔ قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والوں میں پاکستان بھی شامل تھا، امریکا نے سلامتی کونسل کے یہ مطالبہ مسترد کر دیا کہ اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسندوں حماس کے درمیان غزہ میں فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی اور پورے علاقے میں بلاروک ٹوک امداد کی رسائی کا مطالبہ کیا گیا تھا، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب عاصم افتخار نے کہا کہ قرارداد ویٹو سے ہونے سے خطرناک پیغام جائے گا، کرہ ارض میں غزہ کے حالات جہنم سے بھی بدتر ہیں، وہاں حالات خراب ہوتے جارہے ہیں۔ ہم فلسطینی عوام کی بھرپور حمایت جاری رکھیں گے، غزہ میں امداد کی بلا روکاوٹ تقسیم کیلئے آواز بھی اٹھاتے رہیں گے، عاصم افتخار نے یو این سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے حالات بد سے بدترین ہو چکے ہیں، 54 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ سیکورٹی کونسل کی جانب سے جنگ بندی میں ناکامی تاریخ میں یاد رکھی جائے گی۔

امریکا کی اسرائیل کو یہاں تک پشت پناہی حاصل ہے کہ وہ اسرئیل کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ہمیشہ سے ویٹو کرتا چلا آرہا ہے۔ اسرائیل کے حق میں امریکی ویٹو کی یہ تاریخ آپ کی آنکھیں کھول دے گی۔ مختلف عربی اور انگریزی رپورٹوں کے مطابق 1972میں شام اور لبنان نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف سلامتی کونسل میں شکایت دائر کی۔ سلامتی کونسل کے 15 ارکان میں سے 13 نے شام اور لبنان کی حمایت کی اور اسرائیل پر پابندیاں لگانے کی درخواست کی۔ اسرائیل کے حق میں صرف ایک ووٹ پڑا۔ 2 اکتوبر 1972کو امریکا نے اسرائیل کے حق میں ویٹو کردیا۔ 1973میں مشرق ِوسطی کی صورت حال پر 8 ممالک نے اسرائیل کے خلاف قرارداد پیش کی۔ ایوان کے 15 میں سے 13 ارکان نے اسرائیل کے خلاف ووٹ دیے۔ امریکا نے 7 فروری 1973کو اسے بھی ویٹو کردیا۔ 1975میں مصر اور لبنان نے اسرائیل پر پابندیاں لگانے کی درخواست کی۔ 13 ممالک نے حمایت اور ایک نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ 12 اگست 1975کو امریکا نے اسے ویٹو کردیا۔ 1976میں 6 بڑی اقوام نے فلسطینی ایشو اور مشرق وسطی کی صورت حال پر اقوامِ متحدہ میں اپیل دائر کی۔ 9 ممالک نے اسرائیل پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جبکہ 3 ممالک نے اسرائیل کی حمایت کی۔ اس قرارداد کو بھی امریکا نے 26 جنوری 1976کو ویٹو کردیا۔ مارچ میں 5ممالک نے عرب علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف قرارداد پیش کی۔ 15 ارکان میں سے 14 نے اس قرارداد کی حمایت کی۔ 25 مارچ 1976کو امریکا نے اسے ویٹو کردیا۔ حقوقِ انسانی کی کمیٹی نے فلسطینی عوام پر جاری اسرائیلی مظالم کو بنیاد قرار دے کر اسرائیل کے خلاف کارروائی کی درخواست کی۔ 10 ممالک نے اس درخواست کی حمایت کی اور 4 نے مخالفت۔ امریکا نے 29 جون 1976کو اسے بھی ویٹو کردیا۔ اپریل 1980میں تیونس نے فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے درخواست دی۔ امریکا نے 30 اپریل 1980کو اسے ویٹو کردیا۔ اردن نے جولان کی پہاڑیوں پر قبضے کے خلاف جنوری 1982کو اسرائیل کے خلاف درخواست دی۔ 9 ممبر اس درخواست کے حامی تھے اور 5 مخالف۔ امریکا نے 20 جنوری 1982کو اسے ویٹو کر دیا۔ اردن نے مقبوضہ علاقوں کی دگرگوں صورت حال پر فروری 1982میں اسرائیل کے خلاف قرارداد پیش کی۔ 13 ارکان نے اس ایشو پر اردن کی حمایت کی، اسرائیل کو صرف ایک ووٹ ملا۔ امریکا نے 2 اپریل 1982کو اسے بھی ویٹو کردیا۔ قارئین! آپ انصاف کے علمبردار امریکا کی ہٹ دھرمی کی تاریخ پڑھتے جائیں اورسوچتے جائیں۔ اپریل 1982ہی میں مسجدِ اقصی پر حملے کے خلاف 4 ممالک نے قرارداد پیش کی۔ اس قرارداد کو 14 ووٹ ملے مخالف کوئی نہیں تھا لیکن 20 اپریل 1982کو امریکا نے اسے بھی ویٹو کردیا۔ جون 1982میں لبنان کے ایشو پر اسپین نے قرارداد پیش کی۔ 14 ممالک نے اس قرارداد کی حمایت کی، صرف ایک ملک مخالف تھا لیکن امریکا نے 8 جون 1982کو اسے بھی ویٹو کردیا۔ اگست 1982میں سوویت یونین نے لبنان ایشو پر قرارداد پیش کی۔ سلامتی کونسل کے 15 ارکان میں سے 11 ارکان نے روس کی حمایت کی اور اس قرارداد کی مخالفت میں 3 ووٹ پڑے۔ امریکا نے 6 اگست 1982کو اسے بھی ویٹو کردیا۔ اگست 1983میں 20 ممالک نے مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف سلامتی کونسل میں قرارداد پیش کی۔ 13 ممالک نے فلسطینیوں اور ایک ملک نے اسرائیل کی حمایت کی۔ 2 اگست 1983کو امریکا نے اسے بھی ویٹو کر دیا۔ 1983میں سلامتی کونسل نے مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودیوں کی آباد کاری کے منصوبے کی مخالفت کی۔ امریکا نے اس سے احتجاج کو کارروائی کا حصہ ہی نہیں بننے دیا۔

اسی طرح بالترتیب 6 ستمبر 1984ئ، 13 ستمبر 1985ئ، 12 مارچ 1985ئ، 30 جنوری 1986ئ، 17 جنوری 1986ئ، 6 فروری 1986ئ، 18 جنوری 1988ئ، 10 مئی 1988ئ، 14 دسمبر 1988ئ، 17 فروری 1989ئ، 9 جون 1989ئ، 7 نومبر 1989ئ، 31 مئی 1989ئ، 31 مئی 1990ئ، 17 مئی 1995ئ، 7 مارچ 1997ئ، 21 مارچ 1997ئ، 27 مارچ 2001ئ، 15 دسمبر 2001ئ، 20 دسمبر 2002ئ، 16 ستمبر 2003ئ، 14 اکتوبر 2003کو امریکا نے اسرائیل کے حق میں ویٹو پاور استعمال کی۔ مارچ 2004میں ایریل شیرون کے حکم پر شیخ احمد یاسین کو میزائل حملے میں شہید کردیا گیا۔ سلامتی کونسل نے اس کھلی جارحیت کا نوٹس لیا۔ سلامتی کونسل کے 15 میں سے 11 ارکان نے اسرائیل کی اس کارروائی کو ظلم قرار دیا۔ امریکا نے اسے بھی ویٹو کردیا۔ غزہ پر اسرائیلی حملے روکنے کیلئے سلامتی کونسل میں قرارداد منظور ہوئی لیکن حسبِ عادت امریکا نے اسے بھی ویٹو کردیا اور خونخوار اسرائیل کی بے جا حمایت کا یہ ظالمانہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ان میں سے بعض قراردادیں تو وہ ہیں جنہیں امریکا نے خود ویٹو کیا اور پوری دنیا پر یہ ثابت کردیا کہ وہ کسی قاعدے قانون کا پابند نہیں۔ وہ جنگل کا بادشاہ ہے، انڈے دے یا بچے! پچیس تیس ایسے مواقع بھی ہیں جب اسرائیل نے عالمی قوانین کی سخت خلاف ورزی کی۔ جب معاملہ سلامتی کونسل کے نوٹس میں آیا۔ سلامتی کونسل کے ارکان کا اجلاس بلایا گیا اور ارکان نے اسرائیل کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا تو امریکا نے اس فیصلے کے خلاف ویٹو کرکے اسرائیل کو سفارتی فتح دلائی۔ امریکا کی یہ سینہ زوری اسرائیل تک محدود نہیں بلکہ جو بھی بات صدر بش اور اس کی پالیسی کے خلاف ہوتی ہے اسے ویٹو کرنا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے۔