غزہ اور عالمی بے حسی

پاک بھارت جنگ کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے، روس یوکرین جنگ میں بھی شدت آ رہی ہے، لیکن تاریخ کا بدترین ظلم اس وقت غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر جاری ہے اور کوئی ان کی مدد کو تیار نہیں۔ عید کے تیسرے روز بھی اسرائیلی مظالم جاری رہے۔ غزہ میں قحط کی سی صورت حال ہے۔ ایسے میں ایک علامتی امدادی قافلے کو بھی اسرائیل نے بیدردی سے نشانہ بنا کر یہ پیغام دیا ہے کہ اسے نہ عالمی قوانین کی پروا ہے اور نہ انسانی حقوق کی۔ اسرائیلی فوج نے غزہ میں بے یار و مددگار فلسطینیوں کی مدد اور غزہ کا اسرائیلی محاصرہ توڑنے کے لیے آنے والے امدادی قافلے کو بھی نہ بخشا۔ خبر کے مطابق غزہ کے ساحل کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں فریڈم فلوٹیلا پر پہلے ڈرون حملہ کیا گیا اور اس پر ایسا سفید اسپرے چھوڑا گیا جس نے اس قافلہ حریت کے شرکا کی جلد کو شدید متاثر کیا۔ اس کے ساتھ ہی چند ہی منٹوں بعد فلوٹیلا کی شپ کا کمیونی کیشن نظام بھی مفلوج کر دیا گیا۔ اس کے بعد اسرائیلی کمانڈوز نے کارروائی کا آغاز کر دیا اور امدادی قافلے کی کشتی مدلین (Madleen ) پر موجود تمام رضاکاروں کو اغوا کر لیا۔ ایسے حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم امہ کی تنظیمیں متحرک ہو جاتیں، نوجوان امدادی قافلوں کا اعلان کرتے، تاکہ اسرائیلی وحشیت و بہیمیت مزید بے نقاب ہوتی اور غزہ کے مسلمانوں تک کوئی مدد پہنچتی۔

دوسری طرف جب پوری دنیا کے مسلمان سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں جانور قربان کر رہے تھے، غزہ پر اسرائیلی بمباری خوشی کے اس تہوار عیدالاضحی کے دنوں میں بھی جاری رہی۔ عید کے دنوں میں مزید چالیس سے زائد فلسطینی قربان ہو گئے۔ اللہ کے دین کیلئے فلسطینیوں کا یہ ذبح افسوسناک مگر ایمان افروز ہے۔ شہداء میں حماس کے رہنما اسعد ابو شریعہ بھی شامل تھے۔

اس بدترین ظلم پر انسانیت کے تمام عالمی علمبردار نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے خاموش اور مہر بہ لب ہیں، مسلم حکمرانوں کو بھی اہل غزہ کی کوئی فکر نہیں۔ او آئی سی، عرب لیگ، سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور اگر کچھ کرتے بھی ہیں تو صرف رسمی بیانات کی حد تک۔ ایسا لگتا ہے جیسے انہیں بھی یہی مطلوب ہے کہ غزہ میں مسلمانوں کا قتل عام جلد مکمل ہو جائے تاکہ وہ دباؤ سے آزاد ہو سکیں۔ سوال یہ ہے کہ مسلم حکمرانوں کو اپنی کرسیوں کی اتنی فکر کیوں ہے؟ امت مسلمہ کی امنگوں کا خیال کیوں نہیں؟ مدینہ سے اسلام آباد تک موت، خوف، بے شرمی، بے غیرتی اور بدترین بے حسی کا سناٹا کیوں چھایا ہوا ہے؟ غزہ میں بھوک سے نڈھال لاکھوں مظلوم مسلمان اپنے حق اور اپنے کلمے اور سرزمین کے دفاع میں ڈٹے ہوئے ہیں، جبکہ ستاون اسلامی ملکوں کے جرنیل اور حکمران خاموش تماشائی ہیں۔ بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ یہ حکمران نہ خود کچھ کر رہے ہیں اور نہ ہی عوام کو احتجاج کرنے دے رہے ہیں۔ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے حق میں ہونے والے احتجاج پر بھی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں۔ کیا اس سے اسرائیل کو مزید تقویت نہیں ملے گی؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ حکمران بھی اسرائیل کے اس بدترین ظلم کے حامی ہیں۔

ایک اور سوال، کیا حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے دوران اسرائیلی فوجی افسران مقبوضہ کشمیر میں ہندوستان کی مدد کے لیے موجود نہیں تھے؟ کیا اسرائیل، ہندوستان کے بعد پاکستان کا کھلا دشمن نہیں بن چکا؟ کیا ماضی میں اسرائیل پاکستانی ایٹمی پروگرام اور تنصیبات پر حملے کی سازشوں میں ملوث نہیں رہا؟ اگر یہ سب سچ ہے تو اسلام آباد میں سینیٹر مشتاق احمد خان کو کیوں گرفتار کیا گیا؟سوالات بہت ہیں، لیکن ایک بات واضح ہے کہ پَہلگام کے فالس فلیگ آپریشن کا فائدہ سب سے زیادہ کس کو ہوا؟ کیا دنیا کی نظریں فلسطین سے ہٹ کر پاک بھارت کشیدگی کی طرف نہیں چلی گئیں؟ اور کیا مستقبل میں دوبارہ ایسا فالس فلیگ آپریشن نہیں ہو سکتا؟ واشنگٹن کے دورے میں پاکستان کے پارلیمانی و سفارتی وفد کی قیادت کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ بھارت کی جانب سے پاکستان کی پانی کی فراہمی بند کرنا ایٹمی جنگ کی بنیاد ڈالنے کے مترادف ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھارت آئندہ موسم میں پانی بند نہیں کرے گا؟ اور کیا آئندہ دنوں یا مہینوں میں پاک بھارت جنگ کا خطرہ موجود نہیں؟

سفارتی تعلقات اور عالمی طاقتوں تک اپنا موقف پہنچانا یقینا اہم ہے، یہی سفارتی حکمت عملی (ڈپلومیسی) ہے، لیکن اس سے بڑھ کر اسلامی اخوت اور بھائی چارہ ہے، ایک ایسی طاقت، جس کے سامنے دنیا کی کوئی قوت نہیں ٹھہرتی۔ مغرب اور امریکا کھل کر اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں، جبکہ غزہ کے مظلوم مسلمان ڈیڑھ ارب مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ کیا مسلم حکمرانوں کی کرسیاں اس خاموشی میں محفوظ رہ سکیں گی؟ اسلام امن کا دین ہے، لیکن مظلوم کی مدد اور ظالم کو ظلم سے روکنے کا بھی حکم دیتا ہے۔ کیا ہمارا ایمان اور عقیدہ یہ نہیں کہ روز محشر ہے، حساب کتاب ہوگا اور ایک مسلمان دوسرے کا بھائی ہے، اس کی مدد اس پر فرض ہے؟ اسی تناظر میں پاکستانی علماء نے فلسطینی مسلمانوں کی مدد کے لیے جہاد کا فتویٰ دیا تھا، جو آج بھی موجود و موثر ہے۔ دوسری طرف اسرائیل روز بروز مظلوموں کے خون سے ہولی کھیل رہا ہے۔ عیدالاضحیٰ پر سنتِ ابراہیمی کی اہمیت اپنی جگہ قائم ہے اور قیامت تک رہے گی، لیکن جہاد کی فرضیت کا سوال بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ پاکستان سے لے کر سعودی عرب تک سب کو اپنی سلامتی کی فکر ہے، جو بجا ہے، لیکن غزہ کے مظلوم مسلمانوں کا دفاع کون کرے گا؟ کیا یہ زیادہ اہم نہیں؟

امت مسلمہ کی قیادت کا سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے، سعودی عرب، پاکستان، ایران، ترکیہ، سب کی خواہش ہے کہ وہ قیادت کریں، لیکن سب کی بے حسی غزہ کے معاملے میں نمایاں ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ غزہ پر اور ہم سب پر رحم فرمائے۔ دن بدلتے رہتے ہیں، لیکن یہ جنگ رکنے والی نہیں۔ اس کے شعلے عرب کو بھی لپیٹ میں لیں گے اور عجم کو بھی۔ بات صرف اتنی ہے کہ ٹیپو سلطان نے کہا تھا: گیڈر کی سو سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔

تیسری عالمی جنگ پانی پر ہو یا کسی اور مسئلے پر، ایک بات واضح ہے کہ اس کا مرکز ایشیا ہوگا۔ پاک بھارت جنگ ہو یا کوئی اور ، عالمی طاقتیں اس پر متفق ہیں کہ جنگ کا میدان ایشیا کو بنایا جائے۔ جنگ تو ہونی ہے، کب ہوگی یہ معلوم نہیں، لیکن جس طرح مغربی طاقتیں اور اسرائیل ہندوستان کو پاکستان کے خلاف اکسا رہے ہیں، لگتا ہے کہ یہ جنگ جلد برپا ہو گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ جنگ چند گھنٹوں کی ہوگی، یا روس یوکرین جنگ کی طرح طویل اور تباہ کن؟ بظاہر لگتا ہے کہ یہ طویل بھی ہوگی اور مہلک بھی۔ اللہ امت مسلمہ پر رحم فرمائے، اسے توبہ کی توفیق دے، اور مظلوموں کی دعائیں رنگ لائیں ورنہ دشمن کا عذاب ہم سب پر مسلط ہو جائے گا۔