پی ٹی آئی کی نئی صف بندی

تحریر: رفیع صحرائی
چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر علی گوہر نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کے بعد جیل سے باہر صحافیوں سے غیررسمی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی کو پارٹی کا پیٹرن ان چیف بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ حکومت مخالف مجوزہ احتجاجی تحریک کے دوران عمران خان جیل سے خود اس تحریک کی قیادت کریں گے جبکہ عمرایوب خان اور سلمان اکرم راجہ احتجاج کے دوران عمران خان کی نمائندگی کریں گے۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ احتجاج کے دوران انہیں ڈپلومیٹک رابطوں کی ذمہ داری ملی ہے۔ وہ بدستور پارٹی کے چیئرمین ہیں اور ہائی کورٹ میں پارٹی کے کیسز لے کر بھی وہی چلیں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتا یا کہ وزیرِ اعلیٰ پختونخوا علی امین گنڈاپور اب صرف صوبے کی گڈ گورننس پر توجہ دیں گے۔ علی امین گنڈاپور ہمیشہ بانی پی ٹی آئی کے لیے فرنٹ فٹ پر کھیلتے آئے ہیں۔ انہیں بھی اب شیر افضل مروت کی طرح احتجاجی ایکٹیوٹیز سے سائیڈ لائن پر کر دیا گیا ہے جو ایک سوالیہ نشان ہے۔ ابھی دو ہفتے قبل ہی 22مئی کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے بعد علی امین گنڈاپور نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ صوبے کی گڈگورننس پر توجہ دینے کے علاوہ احتجاجوں کے دوران اہم ذمہ داریاں بھی نبھائیں گے۔ اب اس طرح سے اچانک انہیں سائیڈ لائن پر کر دینا سوالات کو جنم تو دے رہا ہے مگر جب آپ اسے اس بات سے ملا کر دیکھیں گے کہ بیرسٹر گوہر کو بھی احتجاجی تحریک سے الگ کر دیا گیا ہے تو بات بڑی حد تک سمجھ میں آ جائے گی۔

یہ سچ ہے کہ علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں۔ 26نومبر کو بھی علی امین مکمل رابطے میں تھے۔ وہ اپنے طے شدہ کردار کے مطابق آگے بڑھ رہے تھے۔ اصل معاملہ بشریٰ بی بی کی وجہ سے خراب ہو گیا جب انہوں نے ڈی چوک پہنچنے کی ضد پکڑ لی۔ علی امین گنڈا پور پوری کوشش کے باوجود احتجاجی جلوس سے باہر نہ نکل سکے۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں یا بالفاظ دیگر بشریٰ بی بی کے متعین کردہ نوجوانوں نے انہیں وہاں سے نکلنے نہ دیا۔ علی امین ڈی چوک نہیں جانا چاہتے تھے مگر بشریٰ بی بی اس سے کم پر راضی نہ تھیں۔ نتیجہ وہی نکلا جو اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد کے بغیر چلنے والے تحریکوں کا نکلا کرتا ہے۔ قبل ازیں عمران خان خود بھی ایک احتجاجی جلوس کے دوران گولی کا نشانہ بن کر تحریک کو بیچ میں چھوڑ چکے ہیں۔ علی امین گنڈاپور کے علاوہ بیرسٹر گوہر بھی بالواسطہ اور بلاواسطہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطوں میں رہتے ہیں۔ انہیں احتجاج کے دوران ڈپلومیٹک رابطوں کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

سوال تو یہ بھی اہم ہے کہ یہ تحریک تو پاکستان کے اندر چلے گی۔ اس کے لیے ڈپلومیٹک رابطوں کی کیا ضرورت پڑے گی؟ اب بانی پی ٹی آئی نے ان دونوں کو اپنی مجوزہ احتجاجی تحریک سے الگ کر کے بین السطور میں یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ اس تحریک کو فائنل اور فیصلہ کن بنانے کے موڈ میں ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ سلمان اکرم راجہ اور عمر ایوب اسٹیبلشمنٹ سے رابطہ نہیں کریں گے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ رابطہ کرے گی۔ علی امین گنڈا پور کو ہٹا کر پختونخوا کی صدارت جنید اکبر کو سونپی گئی تھی۔ اب انہیں بھی اس تحریک کی کسی اہم ذمہ داری کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ علی امین گنڈا پور کو احتجاجی تحریک سے الگ کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ تحریک صرف پختونخوا سے شروع نہیں ہو گی۔ پورا پاکستان اس تحریک کا مرکز ہو گا۔ علی امین نے انتہائی مشکل حالات میں بطور صوبائی صدر اور وزیر اعلیٰ پختونخوا پارٹی احتجاجوں کی قیادت کی۔ ان کے قریبی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ ہر احتجاج کے دوران انہوں نے اخراجات بھی اپنی ذاتی جیب سے ادا کیے۔ وہ بانی کے موقف سے کبھی ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ وہ ہمیشہ دوٹوک اور سخت موقف اپناتے رہے ہیں جسے پارٹی کے اندر بعض لیڈران پسند نہیں کرتے تھے۔ ذرائع تو یہ بھی بتا رہے ہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر ہارڈ لائنر شاہد خٹک اور شاندانہ گلزار کو بھی اس احتجاجی تحریک سے دور رکھا جائے گا۔

جہاں تک اس احتجاجی تحریک کو جیل کے اندر سے لیڈ کرنے کا تعلق ہے تو بظاہر ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ جیل کے اندر سے عمران خان کی ہر قسم کی سہولت کاری ختم کر دی گئی ہے۔ اگر تحریک شروع ہو گئی تو غالب امکان ہے کہ ان کے ساتھ ہر قسم کی ملاقاتوں پر پابندی لگا دی جائے گی۔ یہ صورت یقینا عمران خان کے بھی پیشِ نظر ہو گی۔ ہو سکتا ہے تحریک شروع کرنے سے پہلے وہ اپنے دونوں ساتھیوں کو سچویشن کے مطابق لائحہ عمل اختیار کرنے کا پلان دے دیں۔ جہاں تک مجوزہ احتجاجی تحریک کی کامیابی کا تعلق ہے تو پاکستان کی اب تک کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ یہاں صرف وہی تحریک کامیاب ہوئی ہے جسے اسٹیبلشمنٹ کی چھتری کا سایہ میسر تھا۔ اینٹی اسٹیبلشمنٹ تحریک یہاں کبھی کامیاب نہیں ہوئی۔ ایسی صورت میں اس کی کامیابی اور بھی مشکل نظر آتی ہے جبکہ حال ہی میں ہماری فوج نے اپنے ازلی دشمن کو میدان میں دھول چٹائی ہے اور اس کی مقبولیت ساتویں آسمان پر ہے۔