تحریر: عبدالباسط علوی
بلوچستان، سندھ اور آزاد کشمیر جیسے خطوں میں ایک چھوٹا سا طبقہ نیشنلسٹ اور علیحدگی پسند نظریات رکھتا ہے۔ جغرافیائی، سیاسی حقیقت پسندی، اسٹریٹجک پیچیدگی اور علاقائی اتار چڑھاؤ کے دور میں یہ تیزی سے واضح ہوتا جا رہا ہے کہ یہ خواہش نہ صرف ناقابل عمل ہے بلکہ اس کے پیچھے ٹھوس دلائل بھی نہیں ہیں۔ خاص طور پر ہندوستان کے طور پر ایک جارحانہ اور بالادستی کے عزائم والے پڑوسی کے خطرے کو دیکھتے ہوئے ایسا سوچنا بھی ناقابل فہم ہے۔ تقسیم اور نفرتوں کی ترویج کرنے کے بجائے اب وقت آگیا ہے کہ خوابوں اور خام خیالیوں میں رہنے والے عناصر کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ان کی حقیقی طاقت، سلامتی اور ترقی مجموعی طور پر پاکستان کو مضبوط کرنے میں مضمر ہے۔ ایک متحد، محفوظ اور مستحکم پاکستان بیرونی خطرات کے خلاف بہترین دفاع اور اپنی متنوع آبادی کے لیے سب سے زیادہ فائدہ مند انتظام ہے۔
ہندوستان کے علاقائی عزائم اس کی اپنی سرحدوں سے بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔ جنگوں، سرحد پار دراندازیوں اور اسٹریٹجک بندشوں کی تاریخ کے ساتھ ہندوستان نے اپنے آپ کو توسیع پسندانہ رجحانات کے ساتھ ایک علاقائی تسلط کے عزائم والے ملک کے طور پر کھڑا کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں اس کے اقدامات بشمول آرٹیکل 370کی منسوخی، غیرقانونی آبادیاتی تبدیلیاں اور اختلاف رائے کو دبانا ایک واضح انتباہ پیش کرتے ہیں۔ ہندوستان اپنے مفادات کے سامنے کسی دوسرے کی خود ارادیت کا احترام نہیں کرتا ہے۔ اگر بالفرض پاکستان کشمیر کو نام نہاد ‘آزاد ریاست’کے طور پر قبول کر بھی لے تو اپنے ایمان سے بتایئے کہ بھارت جیسے پڑوسی کے ہوتے ہوئے ایسی آزاد ریاست کا رہنا ممکن ہے؟ ایسی ریاست میں دفاع کے بنیادی ڈھانچے، معاشی گہرائی، سفارتی شناخت اور فوجی صلاحیت کی کمی ہوگی اور وہ بھارت کے لیے ترنوالہ ثابت ہوگی۔ پاکستان میں ہندوستان کی انٹیلی جنس کارروائیاں، باغی عناصر کے لیے اس کی حمایت اور پاکستان کے مفادات کے خلاف اس کی سازشیں اس طرح کے مخالف کے قریب رہنے کے خطرے کو اور بھی واضح کرتی ہیں۔
قوم پرست اور علیحدگی پسند تحریکیں اکثر اس بات پر زور دیتی ہیں کہ آزادی اپنی حکومت، خوشحالی اور ثقافتی آزادی لائے گی تاہم حقائق اس طرح کے نقطۂ نظر کی حمایت نہیں کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر، بلوچستان اور سندھ پاکستان کی قومی معیشت میں گہرائی سے مربوط ہیں۔ تمام صوبے اور آزاد کشمیر وفاقی مالی اعانت، بین الصوبائی تجارت، بنیادی ڈھانچے کے نیٹ ورکس اور مشترکہ حفاظتی انتظامات پر انحصار کرتے ہیں۔ آزاد ریاستوں کے طور پر ان کے پاس معاشی خود کفالت، صنعتی صلاحیت یا زندہ رہنے کے لیے بنیادی مالی ڈھانچے کی کمی ہے اور تنہا رہنا نا ممکن ہے۔ کوئی بڑی عالمی طاقت ان علاقوں میں فروغ پانے والے علیحدگی پسند نظریات کو تسلیم نہیں کرتی۔ علیحدگی کی کسی بھی کوشش کو بین الاقوامی تنہائی، تجارتی پابندیوں اور ممکنہ طور پر معاشی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان ایک جوہری طاقت اور ایک اسٹریٹجک ریاست کے طور پر ایک عالمی سفارتی وزن رکھتا ہے اور چھوٹی علیحدہ ریاستیں کبھی بھی اس کی برابری نہیں کر سکیں گی۔
تباہی، افراتفری اور غیر ملکی تسلط کا باعث بننے والے نظریات کا تعاقب کرنے کے بجائے نیشنلسٹ اور علیحدگی عناصر کو متحد پاکستان کا حصہ ہونے کے واضح اور ٹھوس فوائد کو تسلیم کرنا چاہیے۔ پاکستان کی طاقتور مسلح افواج، جوہری ڈیٹرینس اور اسٹریٹجک اتحاد اس کے تمام خطوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اور پاکستان خاص طور پر آزاد کشمیر کا بھرپور دفاع کرتا ہے جسے ہر وقت ہندوستان سے خطرات لاحق ہیں۔ پاکستان کے حصے کے طور پر یہ علاقے قومی سلامتی کی ڈھال سے فائدہ اٹھاتے ہیں، جسے ایک نیا آزاد ملک حاصل نہیں کر سکتا۔ پاکستان نے قومی منصوبوں میں لاکھوں ملین کی سرمایہ کاری کی ہے جو دُوردراز اور پسماندہ علاقوں کو مربوط کرتے ہیں۔ سی پیک بلوچستان، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لیے ایک گیم چینجر منصوبہ ہے۔ پاکستان سے الگ ہونے کا مطلب ترقی کے اس راستے سے منقطع ہونا اور اس کے نتیجے میں معاشی تنہائی ہوگی۔ شکایات کا حل بغاوت میں نہیں بلکہ پاکستان کے جمہوری عمل میں حصہ لینے میں ہے۔ پاکستان کا آئین نمائندگی، علاقائی خود مختاری اور ثقافتی تحفظ کے لیے طریقہ کار فراہم کرتا ہے۔ قوم پرست خدشات کو بات چیت، قانون سازی اور ترقی کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے نہ کہ تشدد یا عدم اتحاد کے ذریعے۔
عالمی تاریخ انتباہ کی تفصیلات سے بھری ہوئی ہے جہاں علیحدہ ریاستیں بین الاقوامی توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں یا مضبوط پڑوسیوں کی طرف سے فوری طور پر مغلوب ہوگئیں۔ یوگوسلاویہ کی تحلیل، مشرق وسطیٰ کے کچھ حصوں میں جاری عدم استحکام اور نگورنو کاراباخ یا کردستان میں حل نہ ہونے والے بحرانوں کو ہی دیکھ لیں۔ ان معاملات میں سے ہر ایک میں اقلیتی قوم پرستی طویل تنازعات، معاشی تباہی اور انسانی آفات کا باعث بنی ہے۔ پاکستان اس کے برعکس فیڈریشن کا ایک بہترین ماڈل پیش کرتا ہے۔ اس کے اتحاد نے طاقتور دشمنوں کے خلاف علاقائی سالمیت اور قومی بقا کو یقینی بنایا ہے۔ بھارت نے پاکستان میں علیحدگی پسندانہ نظریات کی کھل کر حمایت کی ہے۔ کلبھوشن یادیو کے اعترافات سے لے کر بلوچستان میں را کے مالی تعاون سے چلنے والے گروہوں کی موجودگی تک اور پاکستان کے خلاف بھارت کی جارحانہ پروپیگنڈا مہموں کے ذریعے یہ واضح ہے کہ داخلی تقسیم کو فروغ دینا بھارت کی طویل مدتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ پاکستان کے اندر نیشنلزم اور علیحدگی پسندی کو فروغ دے کر ہندوستان پاکستان کو بغیر گولی چلائے اندر سے کمزور کرنے کی امید کرتا ہے۔ نیشنلسٹ اور علیحدگی پسند عناصر جو اپنے آپ کو ان مقاصد کے ساتھ مربوط کرتے ہیں، شعوری یا نادانستہ طور پر اپنے ہی لوگوں کے مستقبل کی قیمت پر دشمن کے مفادات کی خدمت کر رہے ہیں۔
یہ علیحدگی پسند رہنماؤں، ان کے پیروکاروں اور پاکستان اور آزاد کشمیر میں قوم پرستی کی طرف جھکاؤ رکھنے والوں کے لیے اپنے مفروضوں پر نظر ثانی کرنے کا وقت ہے۔ کیا فوجی اور سفارتی طور پر ایک جارحانہ ہندوستان کے سائے میں تنہا رہنا سمجھداری ہے؟ کیا پاکستان کے اداروں، دفاع اور معیشت کی حمایت کے بغیر ایک الگ تھلگ خطہ عالمی سطح پر مقابلہ کر سکتا ہے؟ کیا تشدد، تخریب کاری اور بغاوت واقعی لوگوں کے مفادات کی تکمیل کرتی ہے یا صرف مزید مصائب پیدا کرتی ہے؟ اس کا منطقی جواب واضح ہے کہ پاکستان کا اتحاد طاقت کا ذریعہ ہے ایک بوجھ نہیں۔ گورننس کو بہتر بنانے، انصاف کو یقینی بنانے اور فیڈریشن کے اندر مساوات کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرنا ہی واحد راستہ ہے۔ ایک ایسے دور میں جس میں اقوام کو معاشی بحرانوں، علاقائی تنازعات اور جغرافیائی سیاسی دشمنی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، پاکستان کی بقا اور کامیابی کا انحصار داخلی ہم آہنگی پر ہے۔ علیحدگی پسندی کا تصور نہ صرف غیر حقیقی ہے بلکہ خطرناک اور تباہ کن بھی ہے۔ وفاق کو اندر سے کمزور کرنے کے بجائے پاکستان اور آزاد کشمیر میں نیشنلسٹوں اور علیحدگی پسندوں کے لیے یہ بہت زیادہ فائدہ مند ہے کہ وہ اپنی توانائیاں اصلاحات اور قومی ترقی میں لگائیں۔ ایسا کرنے سے وہ اپنے لوگوں کو غیر ملکی تسلط اور علاقائی افراتفری کے خطرات سے بچاتے ہوئے ان کے معیار زندگی کو بلند کر سکتے ہیں۔ مستقبل تعمیر کرنے والوں کا ہے تباہ کرنے والوں کا نہیں۔
وقار، خوشحالی اور طاقت کا راستہ پاکستان کو مضبوط کرنے میں ہے نہ کہ اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی کوششوں میں۔ قوم پرستوں کے لیے یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اگر پاکستان نہیں ہے تو وہ ہندوستان کی موجودگی میں خطے میں آزادانہ طور پر زندہ نہیں رہ سکتے۔ پاکستان میں آزادیاں اور حقوق ہیں لیکن فیڈریشن چھوڑنے سے یہ غائب ہو جائیں گے۔ یہ دیکھنا افسوس ناک ہے کہ کچھ لوگ پاکستان اور ہندوستان کو ایک ہی نظر سے دیکھتے ہیں جو کہ غیرحقیقی اور غیرمنصفانہ ہے۔ ہندوستان کا بین الاقوامی کردار اور اس کی سرحدوں کے اندر اقلیتوں کے ساتھ اس کا سلوک دنیا کے سامنے ہے اور ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ مساوی سلوک کرنے والوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔
آپریشن بنیان مرصوص واضح طور پر پاکستان کی طاقت کا پیغام دیتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ پاکستان میں ہر کوئی اندرونی یا بیرونی دشمنوں کے خوف کے بغیر آزادانہ طور پر رہ سکے اور کام کر سکے۔ آپریشن بنیان مرصوص کو محض ایک فوجی فتح کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ اس سے سبق بھی حاصل کرنا چاہیے۔ پاکستان اپنی علاقائی سالمیت اور پنجاب، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور آزاد جموں و کشمیر سمیت اپنی سر زمین کے ہر ایک انچ کی حفاظت کا عزم کیے ہوئے ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ آپریشن بنیان مرصوص ہر شہری کو اپنا جائزہ لینے کے لیے مجبور کرتا ہے۔ نیشنلسٹوں اور علیحدگی پسندوں کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ غیرمنطقی خوابوں اور ناکام نظریات کو ترک کردیں۔ پاکستان کے ساتھ وفاداری کوئی سیاسی نعرہ نہیں ہے بلکہ یہ اخلاقی، تاریخی اور سالمیت کی ضرورت ہے۔ ہر پاکستانی کا مستقبل، اس کے علاقے یا نسل سے قطع نظر تقسیم میں نہیں بلکہ اتحاد میں ہے اور آپریشن بنیان مرصوص نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان ہر قیمت پر اس اتحاد کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہے۔