کیا یوکرین نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا؟

تحریر: محمد عامر خاکوانی
چار دن دن قبل یوکرین نے روس کے مختلف ائیربیسز پر شدیدترین حملہ کر کے نہ صرف روس جیسی بڑی قوت کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ دنیا بھر میں اس حملے اور اس کے دوران استعمال ہونے والی تکنیکس زیربحث لائی جا رہی ہیں۔ اسے گیم چینجز کہا جا رہا ہے۔ یہ سیکھنے کی بات ہے کہ ایک چھوٹا ملک اپنے سے کئی گنا بڑی فوجی قوت اور جدید ٹیکنالوجی رکھنے والے ملک کو کس طرح سرپرائز دے کر اسے شدید دھچکا پہنچا سکتا ہے۔ یوکرین کے اس آپریشن کو آپریشن سپائیڈرویب کہا گیا ہے۔ سپائیڈر ویب یعنی مکڑی کا جالا۔ اطلاعات کے مطابق یوکرائنی صدر زیلنسکی نے خود اس آپریشن کی نگرانی کی، تاہم اس پوری پلاننگ میں ڈیڑھ سال تک کا عرصہ لگا۔ یوکرین کی خفیہ ایجنسی ایس بی یو کے ذرائع نے بتایا کہ یوکرینی ڈرون حملے میں جن چار روسی فضائی اڈوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اُس میں سے دو روسی فضائی اڈے یوکرین کی سرحد سے ہزاروں میل دور روس کے اندر واقع ہیں۔ بیلایا ارکتسک کا علاقہ سائبیریا میں واقع ہے جبکہ اولینیا روس کے انتہائی شمال مغرب میں مورمانسک کے علاقے میں واقع ہے۔ یہی اس پورے حملے کا سب سے اہم اور خطرناک پہلو ہے۔

یوکرین کے دارالحکومت کیف سے ڈھائی تین ہزار کلومیٹر دور روس کے بہت اندر کے علاقوں میں واقع ان ائیربیسز پر حملہ کس طرح ممکن ہوا۔ ڈرون کی اتنی ریچ نہیں ہوتی، یہ حملے یوکرائن کے اندر سے نہیں کئے گئے بلکہ روس کی سرزمین سے ہوئے ہیں۔ بتایا جا رہا ہے کہ ان ڈرونز کو لکڑی کے موبائل کیبنز میں چھپایا گیا تھا جن کی چھتیں آٹومیٹک ہوتی ہیں اور انھیں فاصلے سے کھولا جا سکتا ہے۔ یہ کیبنز اٹرکوں پر رکھے گئے تھے جنھیں مختلف طریقوں سے سمگل کر کے روس کے ان اندرونی علاقوں میں موجود فضائی اڈوں کے قریب پہنچایا گیا اور پھر مناسب وقت پر حملہ کیا گیا۔ بین الاقوامی میڈیا اور عسکری متن شائع کرنے والی دفاعی ویب سائٹس کے مطابق یہ پوری کارروائی نقل و حمل کے لحاظ سے انتہائی پیچیدہ تھی۔ یوکرائنی خفیہ ایجنسی ایس بی یو نے سب سے پہلے ایف پی وی ڈرونز روس میں سمگل کیے اور پھر لکڑی کے موبائل کیبنز منتقل کیے گئے۔ روسی سرزمین پر پہنچنے کے بعد یہ ڈرونز ان کیبنز کی چھتوں کے نیچے چھپائے گئے، جو سامان لے جانے والے ٹرکوں پر رکھے گئے تھے۔ مناسب وقت پر چھتیں کھولی گئیں اور ڈرونز ٹرکوں سے پرواز کر کے روسی بمبار طیاروں کو نشانہ بنانے نکل گئے۔

یوکرینی دفاعی تجزیہ کار سرہی کزان نے یوکرینی ٹی وی کو بتایا کہ دنیا کی کوئی خفیہ ایجنسی آج تک ایسا آپریشن نہیں کرسکی۔ (روس کے) یہ سٹریٹیجک بمبار طیارے یوکرین پر طویل فاصلے تک میزائل حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی مجموعی تعداد صرف 120 ہے جن میں سے ہم نے 40 کو نشانہ بنایا۔ یہ ایک ناقابلِ یقین تعداد ہے۔ یوکرائن نے ابتدا میں دعویٰ کیا کہ چالیس روسی بمبار طیارے تباہ ہوئے اور ان کا نقصان پانچ سے سات ارب ڈالر کاہوا۔ تاہم آزاد ذرائع کے مطابق ان دعوؤں میں کچھ مبالغہ ہے۔ بی بی سی رشیئن کی تحقیق کے مطابق یکم جون کو یوکرین کے ڈرون حملوں کے نتیجے میں روس کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے اور سٹریٹیجک ایئر فیلڈز پر موجود 11سے زیادہ طیارے تباہ ہو گئے یا انھیں نقصان پہنچا۔ ان حملوں میں جن روسی طیاروں کو نشانہ بنایا گیا ان میں Tu-95اور Tu-22M3جیسے سٹریٹیجک نیوکلیئر بمبار طیارے شامل تھے۔

دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق ان تباہ ہونے والے جہازوں میں میں پانچ یا چھ Tu-95MS، ممکنہ طور پر پانچ Tu-22M3اور ایک An-12 شامل تھا۔ یاد رہے کہ اگر کسی جہاز کو کم نقصان پہنچا ہو تب بھی وہ فوری طور پر مرمت کے بعد جنگ میں استعمال نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی ایسے بمبار طیارے کو واپس سروس میں نہیں لایا جا سکتا جسے نقصان پہنچا ہو کیونکہ طیاروں میں خرابی ایک حساس معاملہ ہے: مثال کے طور پر اگر کسی کار کو سڑک پر نقصان پہنچتا ہے تو اس میں موجود افراد کے زندہ بچنے کے امکانات ہوائی جہاز کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا شعبہ ہوا بازی میں (فوجی اور سول) خرابیوں کو زیادہ احتیاط سے دیکھا جاتا ہے اور ایسا کوئی بھی جہاز جنگ کے لیے تیار یونٹ میں نہیں رہ سکتا جسے تھوڑا سا بھی نقصان پہنچا ہو۔ Tu-22M3 اور Tu-95MS بہت مختلف بمبار طیارے ہیں۔ Tu-22M3کو سٹریٹجک بمبار نہیں سمجھا جاتا کیونکہ ان کی رینج 2500 کلو میٹر سے زیادہ نہیں۔ روسی ایوی ایشن میں یہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے بمبار طیاروں میں شامل ہوتا ہے اور اس کا اہم ہتھیار Kh-22 میزائل ہے۔

عالمی میڈیا کے مطابق یہ کافی خطرناک ہتھیار ہے لیکن یہ میزائل سوویت یونین میں تیار کیے گئے تھے اور اب ان کی پروڈکشن نہیں ہوتی۔ یہ طیارہ دوسرے ہتھیاروں کا استعمال کر سکتا ہے، جیسے کہ فضا سے پھینکے جانے والے بم لیکن فی الحال یہ K-22کو لانچ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ان میزائلوں کا ذخیرہ ختم ہونے پر Tu-22M3کیا کرے گا، یہ معلوم نہیں۔ Tu-95ایک سٹریٹجک بمبار طیارہ ہے جو شاید روس کا سب سے پرانا طیارہ ہے۔

یوکرین کے اس حملے کے کئی پہلو ہیں۔ اس نے روس جیسی بڑی جنگی قوت کو ایک بڑا سرپرائز دیا۔ روسی انٹیلی جنس مکمل طور پرناکام ہوئی۔ روسی سیٹلائٹ سسٹم مدد نہ دے سکا۔ روس کا مضبوط ترین اینٹی میزائل سسٹم بھی کام نہ آیا۔ روس کے ائیربیسز کے لیے کئے گئے حفاظتی انتظامات بھی ناکافی اور غیرموثر ثابت ہوئے۔ ایک اہم یورپی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ان حملوں نے ہوائی اڈوں پر سٹریٹیجک طیاروں کی تعیناتی میں سنگین کوتاہیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ یوکرین کے ڈرون پرواز کے دوران آزادانہ طور پر نقل و حرکت کرتے نظر آئے۔ وہ واضح طور پر کنٹرول کیے جا رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان ہوائی اڈوں کے علاقے میں کوئی الیکٹرانک جنگی نظام کام نہیں کر رہا تھا۔ ان حملوں کے دوران فضائی دفاعی نظام یا یہاں تک کہ چھوٹے ہتھیاروں سے فضائی اہداف پر فائرنگ کے بارے میں بھی کوئی خبر نہیں تھی۔ Tu-95MSکو بغیر کسی شیلٹر کے کھلے علاقے میں پارک کیا گیا تھا۔ سیٹلائٹ تصاویر کے مطابق Tu-22M3b، محفوظ علاقوں میں پارک تھے لیکن یہ حفاظت ناکافی تھی۔

ڈرون حملے سے روس کے نیوکلیئر ٹرائیڈ کو نقصان تو پہنچا لیکن یہ کوئی بہت بڑا نقصان بھی نہیں۔ ان حملوں سے روس کی جوہری طاقت کم نہیں ہو گی اور نہ ہی اس کی یوکرین پر میزائل فائر کرنے کے لیے باقی طیاروں کی صلاحیت پر فرق پڑے گا۔ تاہم روس کو اس طرح کے حملوں کے ممکنہ خطرے کے بارے میں اب کچھ کرنا پڑے گا اور اس کے لیے حفاظتی اقدامات کافی مہنگے ثابت ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا یوکرین کی انٹیلی جنس کے پاس اب بھی مستقبل میں ایسی کارروائیاں کرنے کے ذرائع موجود ہیں؟ اس لئے کہ یہ حملے پورے روس میں کیے جا سکتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ان حملوں کے اہداف صرف ہوائی اڈے ہوں۔ اس پورے معاملے سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ بہتر پلاننگ، آوٹ آف دا باکس سوچنے اور تخلیقی آئیڈیاز کی مدد سے ایک چھوٹا ملک بھی اپنے سے دس بیس گنا زیادہ بڑی جنگی طاقت کو سرپرائز دے سکتا، اسے دھچکا پہنچا سکتا۔ مئی میں پاکستان نے بھی اپنے سے بڑی بھارتی فضائیہ کو ایسا سرپرائز دے کر شدید زک پہنچایا تھا بلکہ وہ ایسی مفلوج ہوئی کہ اگلے دنوں گویا غائب ہی ہوگئی۔

اب یہ رائے مزید مستحکم ہوئی ہے کہ آئندہ جنگوں میں فضائیہ اور ڈرون کا کردار بہت اہم ہوگا۔ اب ائیربیسز کو کسی نہ کسی انداز سے نشانہ بنایا جاتا رہے گا اور ان کی حفاظت کے انتظامات بھی بہت زیادہ اپ گریڈ کرنے پڑیں گے۔ اگرچہ روس نے جوابی طور پر یوکرائن کو پوری قوت اور شدت سے نشانہ بنایا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس یوکرائنی حملے کے بعد روس جنگ مزید طویل کرے گا یا پھر وہ یوکرائنی پوٹینشل کو دیکھ کر درمیانہ راستہ اختیار کرتے ہوئے جنگ بندی کی طرف آئے گا۔ یہ سب سوالات اہم ہیں اور آنے والے کچھ عرصہ میں ان کے جواب ہمیں مل جائیں گے۔