سچ کا قتل!

حالیہ پاک بھارت چار روزہ جنگ نے یہ ثابت کیا کہ جنگ میں سب سے پہلا قتل سچ کا ہوتا ہے’ جھوٹ کو سچ کہہ کر بیچا جاتا ہے اور حیرت انگیز حد تک اُس کے خریدار مارکیٹ میں دستیاب ہوتے ہیں۔ یہ تو انسانی تاریخ میں ہوتا آیا ہے کہ جب کسی ملک کی افواج ہزیمت اٹھا رہی ہوں تو عوام میں بے دلی’ خوف اور سراسیمگی پھیلنے سے بچنے کے لیے زمانہ جنگ میں بعض اوقات سچ کو چھپایا جاتا ہے’ لیکن بھارت کی جانب سے جھوٹ کو سو فیصد سچ بناکر پیش کرنے کے شواہد اس جنگ میں دیکھے گئے۔ بھارتی میڈیا نے اپنی ساکھ اور وقار واعتبار کا کچھ بھی پاس نہ رکھا۔ سینکڑوں ٹی وی چینلوں پر گز گز بھر لمبی زبانیں شعلے اُگل رہی تھیں’ تجزیہ کار اپنی خواہشات کو حقیقت بناکر پیش کررہے تھے۔ مصنوعی ذہانت نے جھوٹ کے کاروبار کو آسان کردیا ہے۔ غزہ کے بعض مناظر کو پاک بھارت جنگ کا حصہ بناکر پیش کیا گیا’ بہت سی جھوٹی خبروں کو فیکٹ چیک کے ذریعے ردّ کیا گیا۔ پہلی مرتبہ مغربی میڈیا نے بھارت کے جھوٹ’ خبروں میں تضاد اور مبالغہ آرائی کا پردہ چاک کیا۔

ہم نے یہ کہاوت سن رکھی تھی: ”جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے” یعنی جھوٹ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا’ لڑکھڑاکر گر جاتا ہے یا رینگتا رہتا ہے’ مگر اب جھوٹ کو پائوں کی ضرورت ہی نہیں’ کیونکہ الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے وہ فضائوں میں پرواز کر رہا ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے: ایک جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے لیے سو جھوٹ بولنا پڑتے ہیں’ لیکن حالیہ جنگ میں بھارتی میڈیا نے کذب بیانی’ تضاد بیانی اور مبالغہ آرائی میں ماضی کے سارے عالمی ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ دانشوروں کو کسی قوم کا ضمیر سمجھا جاتا ہے’ لیکن اس جنگ میں چند مستثنیات کے سوا بھارت کے دانشور بھی بالعموم اپنا اعتبار قائم نہ رکھ سکے۔زمانہ جنگ میں حبّ الوطنی کے تقاضوں کے پیشِ نظر سچ کو چھپانا اور دبانا تو سنا تھا’ لیکن سچ کو پسِ پشت ڈال کر جھوٹ کو پھیلانے کا نیا فن بھارت نے ایجاد کیا ہے اور ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔

ہم اکثر سوچا کرتے تھے کہ سامری نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی پوجا پر کیسے آمادہ کرلیا مگر حیرت انگیز طور پر یہود و ہنود میں ایک قدر مشترک بچھڑا اور گائے بھی ہے۔ یہود نے بچھڑے کو پوجا اور ہندو گئو ماتا کے پجاری بنے۔ مزید یہ کہ اس جنگ میں بھارت کو اسرائیل کی مکمل تائید وحمایت اورحربی وفنی معاونت بھی حاصل تھی’ لہٰذا یہ دونوں کی مشترکہ شکست ہے۔ شاید قدرت ان دونوں کے سحر کو توڑنا چاہتی تھی’ اس لیے دونوں کے اشتراک کو شکست ملی۔ قدرت جب مہربان ہوتی ہے تو اسباب اسی طرح سازگار بن جاتے ہیں اور ”توفیقِ باری تعالیٰ” کے معنی بھی یہی ہیں: ‘قدرت کی طرف سے کسی نیک مقصد کے حصول کے لیے اسباب کو سازگار بنا دینا’۔ بھارت نے نہ صرف اپنا وقار واعتبار گنوایا’ بلکہ اسرائیل کے ڈرون اور فرانس کے رافیل طیاروں کا سحر بھی توڑ دیا۔ اسرائیل کے خودکش یا کاماکازی ڈرون ہیروپ بھی ناکام ثابت ہوئے۔ کْشتی یا باکسنگ میں تو سنا تھا کہ کسی پہلوان یا باکسر نے پہلے ہی رائونڈ میں فریقِ مخالف کو پچھاڑ دیا لیکن بھارت اور پاکستان جیسے دو بڑے ملکوں کی جنگ چار دن میں فیصلہ کُن ہو گئی’ ایسے مناظر کم دیکھے تھے’ اس کی تصویر کشی اسماعیل میرٹھی نے اس شعر میں کی ہے
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہوگیا
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہوگیا

ہم سنا کرتے تھے: کوئی دس بیس یا سو پچاس کو بیوقوف بناسکتا ہے’ لیکن کوئی سب کو بیوقوف نہیں بنا سکتا۔ مگر بھارتی وزیراعظم مودی نے ایک ارب چوالیس کروڑ بھارتیوں کی عقل کو مائوف کر کے سب کو بیوقوف اور اپنا اندھا پیروکار بنا دیا۔ اپنی حمایت کو حبُّ الوطنی کے ہم معنی قرار دے کر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ’ وشوا ہندو پریشد’ بجرنگ دَل’ شیو سینا اور ہندو جن جاگرتی سمیتی وغیرہ کے ذریعے ستانوے کروڑ ہندوئوں کے ذہنوں میں یہ راسخ کر دیا کہ صرف مودی ہندو قوم اور ہندو مذہب کا محافظ ہے۔ لہٰذا سچ اور جھوٹ اور حق اور باطل سے ماورا ہو کر اس کی حمایت ہندوتوا کے نظریے کی حفاظت کے لیے ضروری ہے اور اس سیاسی عقیدے میں پاکستان کی نفرت کا زہر بھی گھول دیا گیا۔ جمہوریت کی دیوی کے پجاری ہمیشہ ہمیں یہ باور کراتے رہتے ہیں: ‘جمہور کا فیصلہ کبھی غلط نہیں ہوتا’ لیکن ہٹلر اور مسولینی دونوں عوامی مقبولیت کے گھوڑے پر سوار ہوکر آئے تھے’ جمہور کو اپنے سحرِ خطابت سے اور حسین خواب دکھاکر اپنا اندھا مقلّد بنایا۔ پھر ہٹلر مقبولیت’ طاقت اور فتوحات کے زعم میں ساری دنیا سے جا ٹکرایا اور آخر میں شکستِ فاش سے دوچار ہوا۔

آخرکار خودکشی کی اور مسولینی بھی کسی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ نریندر مودی نے بھی ہندوتوا کے غلبے کو ایک بت بنا کر قوم کو اُس کا پجاری بنایا اور پاکستان کی نفرت کو اس آگ کا ایندھن بناکر اس پورے خطے کو نفرت کی آگ میں جھونک دیا۔ مودی نے اپنے آپ اور بھارت کو کسی استحقاق کے بغیر برتر اور اپنے پڑوسی ممالک کو حقیر جانا’ کیونکہ یہ سب ممالک حجم کے اعتبار سے اُس سے چھوٹے ہیں۔ یہ خواہش بھی اس کے دل ودماغ میں پنپتی رہی کہ وہ خطے کا ڈان بن جائے اور سارے پڑوسی ممالک اس کے باجگزار ہوں’ کوئی اس کے سامنے پَر مارے نہ پلک جھپکے’ بس سراپا تسلیم ورضا بن کر رہے۔ سری لنکا’ میانمار’ سکم’ بھوٹان’ نیپال اور بنگلادیش الغرض سب کو وہ پرِکاہ کے برابر نہیں سمجھتا اور وہ پاکستان کو بھی ایسا ہی مفلوج دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اپنی تمام تر کمزوریوں اورکوتاہیوں کے باوجود صرف پاکستان ہے جو اُس کے مقابل پوری قامت کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان نے اس کے تسلّط کو قبول نہیں کیا۔ چین بھی بھارت کا ہمسایہ ہے’ لیکن وہ چونکہ طاقت کی پوزیشن میں ہے’ اس لیے بھارت اسے فنا کرنے کا خواب دیکھ نہیں سکتا۔ زعمِ طاقت کا انجام آخرکار زوال اور فنا ہوتا ہے’ ہمیشہ قائم رہنے والی ذات اور قائم رہنے والا اقتدار صرف اللہ تعالیٰ کا ہے اور اُسی کو زیبا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
سروَری زیبا فقط اُس ذاتِ بے ہمتا کو ہے
حکمراں ہے اک وہی’ باقی بتانِ آزری

اِسلامی تعلیمات کی رو سے بندے کا تکبر واستکبار اور زعمِ کبریائی اللہ تعالیٰ کو ہرگز پسند نہیں ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں فرمایا: ‘متکبر قیامت کے دن بشری شکل میں چیونٹیوں کی مانند اٹھائے جائیں گے’ اُن پر ہر طرف سے ذلّت مسلّط ہو گی’ انہیں جہنم کے ایک قید خانے میں لے جایا جائے گا جس کا نام ‘بولَس’ ہے’ ایسی آگ کے شعلے ان پر بلند ہوں گے’جسے آگوں کی آگ کہا جاتا ہے (یعنی جو آگ کو بھی جلا دے)’ پیاس بجھانے کے لیے انہیں جہنمیوں کے زخموں کی پیپ پلائی جائے گی” (ترمذی)۔ (2) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کِبریائی اور عظمت میری شان ہے’ جو اِن میں سے کسی ایک کے بارے میں مجھ سے جھگڑے گا’ میں اسے جہنم میں ڈال دوں گا” (ابن ماجہ)۔ ان صفات میں جھگڑنے سے مراد یہ ہے کہ وہ متکبر بن جائے’ اپنے آپ کو عظیم المرتبت سمجھنے لگے اور دوسروں کو اپنے مقابل حقیر جانے۔ قرآنِ کریم میں الحشر کی آیات: 23 تا 24 میں اللہ تعالیٰ کی یہ صفاتِ جلیلہ بیان کی گئی ہیں: اَلمَلِک (ملک و اقتدار کا حقیقی مالک)’ اَلقدّوس (ہر عیب اور نقص سے پاک)’ اَلسَّلَام (سلامتی دینے والا)’ اَلمْومِن (امان بخشنے والا)’ اَلمْھَیمِن (نگہبان)’ اَلعَزِیز (بہت غالب)’ اَلجَبَّار (نہایت عظمت والا)’ اَلمْتَکبِّر (کبریائی والا)’ سبحٰن (ہر نقص اور عیب سے پاک)’ اَلخَالِق (خالق)’ البَارِی (موجد) اور اَلمْصَوِّر (صورت گری فرمانے والا)۔

پس اِن صفات میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفتِ جلیلہ ‘ اَلمْتَکبِّر’ بھی ہے۔ قرآنِ کریم میں شیطان کی صفتِ رذیلہ تکبر واستکبار بتائی گئی ہے’ فرعون کی بابت بھی یہی بتایا گیا : ‘بیشک فرعون زمین میں بڑا بن بیٹھا’ (القصص: 4)۔ فرعون ونمرود دعوائے خدائی کرتے رہے’ لیکن آخرکار اپنے اپنے عہد کے سب متکبرین انتہائی ذلّت آمیز اور عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے۔ قارون جس کے خزانوں کی چابیوں کو ایک پوری جماعت اٹھاتی تھی’ تمام تر خزانوں سمیت اُسے زمین میں دھنسا دیا گیا۔