حج کے مقبول ہونے کی کئی علامات بتائی جاتی ہیں۔ حج کے مقبول ہونے کی ایک علامت حدیث میں یہ آئی ہے کہ جمرات پر شیطان کو جو کنکریاں ماری جاتی ہیں، اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جن کا حج قبول ہوجاتا ہے، ان کی کنکریاں اُٹھالی جاتی ہیں۔” جو کنکریاں پڑی رہ جاتی ہیں یہ ان لوگوں کی ہوتی ہیں جن کا حج قبول نہیں ہوتا، اس لیے علما نے لکھا ہے وہاں کی کنکریاں اُٹھاکر رمی نہ کی جائے، کیونکہ یہ ان لوگوں کی کنکریاں ہیں، جن کا حج مقبول نہیں ہوا۔ دوسری علامت یہ ہے کہ حج سے واپس آنے کے بعد حاجی کے اعمال اور اقوال میں بہتری پیدا ہوجائے۔ فرائض، واجبات اور حقوق کی ادائی میں جتنا اہتمام پہلے ہوتا تھا، اب اس سے زیادہ ہونے لگے۔ گناہوں سے بچنے کی پہلے جتنی کوشش کی جاتی تھی، اب اس سے زیادہ ہونے لگے۔ اگر کسی کے اندر یہ بات پیدا ہوجائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ حجِ مقبول اور حجِ مبرور کرکے آیا ہے۔
ایک علامت یہ بتائی جاتی ہے کہ دوبارہ وہاں جانے کا شوق بڑھ جاتا ہے۔ ہمیں چاہیے اپنے اعمال کا باریک بینی سے جائزہ لیں اور دیکھیں کہ حج کے بعد ہمارے اعمال میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ فرائض وواجبات کی ادائیگی میں جو اہتمام حج سے پہلے ہوتا تھا، اس اہتمام میں بہتری آئی ہے یا نہیں؟ گناہوں سے بچنے کی جو کوشش حج سے پہلے ہوتی تھی، اس کوشش میں کچھ اضافہ ہوا ہے یا نہیں؟ اگر یہ تبدیلیاں ہوئی ہیں تو پھر یہ حجِ مقبول کی علامت ہے۔ اگر خدانخواستہ حج کے بعد بھی اعمال میں بہتری پیدا نہیں ہوئی اور وہی کیفیت برقرار ہے جو حج سے پہلے تھی تو بھی مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ توبہ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ اب توبہ کرلیں تو پچھلے سارے گناہ معاف! حدیث میں آتا ہے: ” التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَہ ”… ”گناہ سے توبہ کرنے والا گناہوں سے ایسا پاک ہوجاتا ہے جیسے اس نے کبھی کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔”حضرت مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب نے حج کے موضوع پر بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا: انسان کو بری صحبت چھوڑ کر نیک لوگوں کی مجالس کا اہتمام کرنا چاہیے۔
آخر کیا وجہ تھی کہ عاد کی قوم پر ایسی آندھی بھیجی گئی جس نے اس قوم کے ایک ایک قدآور اور بلندوبالا فرد کو کھجور کے لمبے تنے کی طرح مردہ اور بے حس و حرکت کر کے زمین پر ڈال دیا۔ ان کی آبادی، کھیت و کھلیان، چوپائے اور مویشی غرض، ایک ایک چیز فنا کے گھاٹ اتار دی گئی۔ وہ کون سا جرم تھا جس کی پاداش میں ثمود کی قوم پر ایسی چیخ اور چنگھاڑ مسلط کی گئی، جس کی تیز آواز نے ان کے دل، سینے اور پیٹ کو چیر کر رکھ دیا۔ اسی طرح وہ کیا غلیظ حرکات تھیں جن کے اصرار پر قومِ لوط کی بستیوں کو اتنا اونچا اٹھایا گیا کہ آسمان کی بلندی پر قدسیوں نے ان بستیوں کے کتوں کی آوازیں سنیں، پھر اس بستی کو الٹ کر انہیں اندھا کر دیا گیا۔ آسمان سے ان پر پتھروں کی مسلسل بارش ہوتی رہی اور ایک ایک شخص ہلاک کردیا گیا۔ وہ کون سی چیز تھی جس کی وجہ سے شعیب کی قوم پر سائبان کی شکل میں بادلوں کا عذاب نازل کیا گیا۔ اَبر کی یہ چھتری جب ان کے اوپر تن جاتی تو اس کے اندر سے آگ کے شعلے نمودار ہوتے اور دہکتے ہوئے انگاروں کی بارش ہوتی۔
بے شک وہ چیز، وہ جرم، وہ غلیظ حرکات اور عمل، صرف اور صرف اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں اختیار کیے گئے گناہوں پر اصرار تھا، جس کے نتیجے میں ماضی میں لاتعداد افراد اور قوموں کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا۔احادیث میں بھی اللہ کے اس قاعدے کی وضاحت کی گئی ہے۔ حضرت ام سلمہ سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب میری امت میں گناہوں کی کثرت ہوگی تو اللہ ان پر اپنا ہمہ گیر عذاب مسلط کرے گا۔ میں نے عرض کیا: ”یارسول اللہ! ان دنوں ان کے اندر نیک لوگ نہیں ہوں گے؟” آپ نے فرمایا: ”کیوں نہیں!” میں نے عرض کیا: ”تو ان کے ساتھ کس قسم کا برتاؤ ہوگا؟” فرمایا: ”عام لوگوں کو جو مصیبت پہنچے گی وہ لوگ بھی اس کا شکار ہوں گے۔ پھر انجامِ کار اللہ کی مغفرت اور اس کی خوشنودی ان کا ٹھکانا ہوگی۔” (مسنداحمد)حضرت حسنفرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ امت اس وقت تک اللہ کے ہاتھ کے نیچے اور اس کے جوارِ رحمت میں ہوگی، جب تک اس امت کے اُمرا اپنے علما کی موافقت اور ان کی اعانت کریں گے۔ امت کے صالحین، فاسقوں اور فاجروں کو صالح اور نیک بنائیں گے اور اچھے لوگ، بروں کی اہانت اور تذلیل نہیں کریں گے۔ جب وہ غلط عمل کریں گے تو اللہ ان کے اوپر سے اپنا ہاتھ اٹھا لے گا۔ پھر ان کے اوپر انہی میں سے سرکش لوگوں کو مسلط کرے گا، جو انہیں بدترین عذاب دیں گے اور اللہ انہیں فقروفاقہ میں مبتلا کرے گا۔”
حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی مہاجرین کی دس کی جماعت میں، مَیں دسواں آدمی تھا۔ ہم بیٹھے تھے اتنے میں رسول اللہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”5 قسم کی عادتوں سے میں اللہ کی پناہ اور حفاظت چاہتا ہوں۔ ایسا نہ ہو کہ تم اس کا شکار ہوجاؤ۔ایک، جو قوم کھلم کھلا برائی اور بے حیائی کرے گی، اللہ انہیں بھوک اور طاعون میں اس طرح مبتلا کرے گا کہ اس سے پہلے کبھی کوئی اس طرح مبتلا نہیں ہوا ہوگا۔دو، جو قوم ناپ تول میں کمی کرے گی اللہ انہیں قحط سالی، سخت محنت، مشقت اور ظالم بادشاہوں کے ظلم و ستم میں مبتلا کرے گا۔ تین، جو قوم اپنے مال کی زکوٰة نہیں دے گی، اللہ انہیں بارش کے قطروں سے محروم کردے گا۔ اگر ان کے مویشی نہ ہوتے تو پانی کی ایک بوند بھی ان پر نہ برستی۔ چار، جو قوم عہدشکنی کرے گی اللہ ان پر اجنبیوں کو مسلط کرے گا جو ان سے ایک ایک چیز چھین لیں گے۔ پانچ، جب کسی قوم کے حکمران اور امام، اللہ کی کتاب کے مطابق عمل نہیں کریں گے، تو اللہ انہیں آپس میں سخت لڑائی اور جھگڑوں میں مبتلا کردے گا۔”اللہ کے نافرمان، فاجر اور بدکار لوگوں کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ نیکی اور بدی کے نتائج کو یکساں ثابت کردیں۔ اچھے اور برے افراد میں تفریق اور تمیز ختم کردیں۔
اس مقصد کے حصول کے لیے، وہ گناہ گاروں اور نیکوکاروں کے بارے میں دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ نیک اور بد دونوں ایک جیسی زندگی گزارتے ہیں، اس لیے مرنے کے بعد بھی یکساں سلوک کے مستحق ٹھہریں گے، حالانکہ یہ غیرعقلی، غیرسائنسی دعویٰ محض ان کے بے بنیادگمانوں پر مبنی ہے، کیونکہ اسلام کے مطابق مصیبت اور گناہوں کے انسانی جسم اور روح پر نہایت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گناہوں کا برا اثر انسانی دل اور جسم پر یکساں پڑتا ہے۔ سو، گناہوں کو ایک آگ سمجھ کر اس سے بچیے۔ ان سے خود کو ہر ممکن طور پر بچانے کی کوشش کیجیے۔