اِس بار یوم تکبیر تزک واحتشام سے منایا جا رہا ہے، ایسا ہی ہونا چاہیے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ جب میاں نواز شریف کا تختہ الٹ کر جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو اس حکومت نے کئی برسوں تک یوم تکبیر کی تقریب منعقد نہیں کی، شاید اس لیے کہ انہیں لگتا ہوگا کہ اس سے میاں نواز شریف کی یاد وابستہ ہے۔ یہ غلط طرزعمل تھا۔ جس و قت یہ کالم لکھ رہا ہوں تو سوشل میڈیا پر یہی بحث جاری ہے۔ کچھ لوگ میاں نواز شریف کو کریڈٹ دینا چاہ رہے ہیں تو تحریک انصاف سے وابستہ افراد کا بس نہیں چلتا کہ میاں نواز شریف کو کٹھ پتلی قرار دے کر ان سے پورا کریڈٹ چھین لیں۔ یہ لوگ بھٹو اور ڈاکٹر عبد القدیر خان کو کریڈٹ دینے پر البتہ تیار ہیں۔ ادھر پیپلزپارٹی سے وابستہ اور حامی لوگوں کے علاوہ ہمارے لیفٹ کے بیشتر لوگ ایٹمی پروگرام اور نیوکلیئر بم بنانے والوں میں جنرل ضیاء الحق کا نام لینا پسند ہی نہیں کرتے۔ یہ اگرچہ حقیقت ہے کہ جنرل ضیا نہ ہوتے تو کسی بھی صورت میں ایٹم بم نہ بن پاتا۔ سادہ سا اور درست طریقہ یہ ہے کہ جس کا کریڈٹ ہے اسے دیا جائے۔ انصاف اور عدل تو یہی ہے کہ ہماری پسند ناپسند اور مخالفت ہمیں حق اور سچ بات کہنے سے نہ روک سکے۔ ہم منصفانہ رائے دیں۔
ایٹمی پروگرام یا ایٹم بم کے مرکزی معماروں کی فہرست بنائی جائے تو بھٹو صاحب کو ا س سے نکالنا ممکن نہیں کہ یہ ان کا ہی آئیڈیا تھا اور ڈاکٹر قدیر کو پاکستان آکر کام کرنے کے لیے تیار انہوں نے کیا۔ یہ بات مگر واضح ہے کہ تب تک ایٹمی پروگرام کی صرف بنیاد ہی ڈالی گئی تھی، بنیادی انفراسٹرکچر تک نہیں بنا تھا اور نہ ہی وہ بنیادی چیز تیار ہوئی جس کے باعث یورینئم بیسڈ ایٹم بم بن پایا۔ جب جنرل ضیاء الحق بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آئے تو ایٹمی پروگرام بالکل ہی ابتدائی سٹیج میں تھا بلکہ ایک طرح سے وہ سٹارٹ ہی نہیں ہوا تھا۔ جنرل ضیاء الحق ہی نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کومکمل اختیارات سونپتے ہوئے یہ پراجیکٹ دیا، خزانہ غلام اسحاق خان کی تحویل میں تھا، جنرل ضیاء نے اسحاق خان کو کہا کہ ایٹمی پروگرام کے لیے فنڈ کبھی ختم نہیں ہونے چاہیے۔ خود ڈاکٹر قدیر خان گواہی دیتے ہیں کہ غلام اسحاق خان نے ان کے ساتھ بے پناہ تعاون کیا۔ انہوں نے ڈاکٹر قدیر کو ان کے مرضی کے بندے دیے اور ہر طرح سے سہولت کاری بہم پہنچائی۔ جنرل ضیاء الحق کا بڑا کریڈٹ یہ ہے کہ انہوں نے روس کے خلاف افغان تحریک مزاحمت میں امریکی شمولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکیوں سے یہ شرط منوائی کہ وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر کوئی بات نہیں کریں گے۔ امریکیوں نے ایسا ہی کیا۔
چارلی ولسنز مشہور امریکی کانگریس مین رہے ہیں، وہ افغان مزاحمت کے دنوں میں بہت ایکٹو رہے اور پاکستان متعدد بار آئے۔ چارلی ولسن نے اپنی کتاب چارلی ولسنز وار میں کئی دلچسپ انکشافات کئے ہیں۔ چارلی ولسن بتاتا ہے کہ سی آئی اے کے ایجنٹ کانگریس کی مختلف کمیٹیوں کے سامنے دانستہ طور پر یہ گواہی نہیں دیتے تھے کہ پاکستان ایٹم بم بنا رہا ہے۔ انہیں خدشہ تھا کہ امریکی سینیٹ ایسی صورت میں پاکستان کو امداد پر پابندی لگا دے گی اور ایسا ہوا تو جنرل ضیاء نے امریکیوں کو روس کے خلاف پورے کھیل سے باہر کر دینا ہے۔ چارلی ولسن نے ایک واقعہ لکھا کہ سینٹ کی ایک اہم میٹنگ میں ایک اہم سی آئی اے افسر کو پیش ہونا تھا۔ وہ دانستہ میٹنگ میں اتنی تاخیر سے پہنچا کہ اس سے سوال پوچھے جانے ممکن نہ رہے۔ سینیٹرز نے چڑھائی کی تو سی آئی اے افسر نے عذر کیا کہ میرے ایک عزیز کی ڈیتھ ہوگئی تھی، اس کی آخری رسومات میں شمولیت کی وجہ سے دیر ہوئی۔ اپنے بہانے کو حقیقی شکل دینے کے لیے وہ سی آئی اے ایجنٹ ماتمی بلیک سوٹ پہن کر کمیٹی اجلاس میں گیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق حکومت کی ایک اور ہوشیاری یہ بھی تھی کہ انہوں نے مختلف حربوں سے سی آئی اے اور امریکی حکومت کو یہ تاثر دیا کہ ایٹم بم پاکستانیوں سے نہیں بن پا رہا، مگر یہ لگے ہوئے ہیں۔ امریکی شاید یہ سمجھتے تھے کہ پاکستانی ماہرین کبھی ایٹم بم نہیں بنا سکتے، تو چلو انہیں اپنے شوق پورے کر لینے دو۔ یوں ایٹم بم بنانے کا پورا منصوبہ مکمل ہوگیا۔ ایٹم بم بنانے کا پورا قصہ جب بھی بیان کیا جائے، یہ جنرل ضیاء الحق کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔ ہم ا س سے بھٹو کو نکال سکتے ہیں نہ ضیا کو اور ڈاکٹر قدیر تو خیر فادر آف ایٹمی پروگرام تھے۔
میاں نواز شریف کا ایٹم بم بنانے میں ظاہر ہے کوئی کردار نہیں تھا کہ تب وہ اس پوزیشن میں ہی نہیں تھے۔ البتہ ایٹمی دھماکے کرنے کا کریڈٹ میاں نواز شریف کو جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان پر غیرمعمولی دباؤ ڈالا گیا۔ میاں نوازشریف نے اس دباؤ کو برداشت کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ میں ذاتی طور پر یہ ناانصافی سمجھتا ہوں کہ یہ کہا جائے کہ اسٹیبلشمنٹ نے زور دے کرایسا کرایا تھا یا بزرگ مجیدنظامی صاحب کا دباؤ تھا، نہیں یہ کہنا غلط ہے۔ ایٹمی دھماکے کرنے کا فیصلہ وزیراعظم نوازشریف نے کیا تھا، مرکزی کریڈٹ بھی انہیں ہی ملنا چاہیے۔
ایٹمی پروگرام کا جب ذکر ہو تو کچھ لوگ ضرور ایسے نکل آتے ہیں جو ڈاکٹر عبدالقدیرخان پر بھی انگلی اٹھاتے ہیں۔ تین باتیں کہی جاتی ہیں کہ ڈاکٹر قدیر خان نیوکلیئر سائنس دان نہیں تھے، وہ میٹرلرجسٹ یعنی دھاتوں کے ماہر تھے۔ یہ کہ ایٹمی پروگرام میں ہزار ڈیڑھ ہزار لوگ شامل تھے، مگر کریڈٹ صرف ایک ہی شخص کو دیا جاتا ہے۔ یہ کہ ڈاکٹر قدیر نے یورینئم انرچمنٹ کی تھی جو کہ ایٹم بم بنانے کے عمل کا صرف پانچ فیصد ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ اعتراضات درست نہیں اور بنیادی طور پر یہ ڈاکٹر قدیر خان سے حسد پر مبنی ہیں۔
روٹی پکانے کے کئی مراحل ہیں، آٹا لے آنا، آٹا گوندھنا، پیڑے بنانا، اسے توے پر ڈال کر پلٹتے رہنا اور جلائے بغیر اچھی طرح سینکی ہوئی روٹی بنا لینا۔ یہ سب بہت اہم ہیں مگر سب سے بنیادی کام گندم کو پیس کر آٹا بنانا ہے۔ یہ آئیڈیا جس نے سوچا، ہم تک روٹی اسی کے باعث پہنچی۔ ورنہ آج لوگ کچی پکی گندم چبا رہے ہوتے۔ یورینئم کی افزودگی بے شک پانچ فیصد کام ہے، مگر یہ بنیاد ہے۔ اگر یورینئم افزودہ نہ ہو تو اتنے بڑی انرجی پیدا ہی نہ ہوسکے۔ ڈاکٹر قدیر خان نے ایٹم بم بنانے کا بنیادی کام کیا۔ اگر وہ سینٹری فیوج کے ڈیزائن بنا کر ہمارے انجینئروں اور ماہرین کو نہ دیتے تو یورینئم انرچمنٹ نہ ہوپاتی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نیوکلیئر سائنس دان نہیں تھے، انہوں نے جرمنی سے میٹرلرجی میں پی ایچ ڈی کی تھی، اسی وجہ سے انہیں ہالینڈ کی اس لیبارٹری میں اہم ذمہ داری ملی جہاں سینٹری فیوج بنانے اور یورینئم انرچمنٹ کا سب کام ہونا تھا۔ ڈاکٹر قدیر خان نے اپنے اس تجربے اور معلومات کو پاکستان کے لیے بہترین طریقے سے استعمال کیا۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈاکٹر قدیر بہت اچھے منتظم تھے، ان میں بعض بشری کمزوریاں تھیں مگر ایٹمی پروگرام کو انہوں نے نہایت دیانت داری اور کمال مہارت سے چلایا اور ایک بظاہر ناممکن کام کو ممکن بنا ڈالا۔ ان کے ساتھ برسوں کام کرنے والے جنرل (ر) زاہد علی اکبر اور جنرل (ر) ذوالفقار علی خان اس کی گواہی دیتے رہے ہیں۔ مشہور نیوکلیئر سائنس دان ڈاکٹر سلطان بشیرالدین محمود اینٹی ڈاکٹر قدیر خان کیمپ میں سمجھے جاتے تھے۔ سینئر صحافیوں سے ایک گفتگو میں ڈاکٹر بشیرالدین محمود نے اعتراف کیا کہ دراصل گورنمنٹ کالج گروپ ڈاکٹر قدیر کے سخت مخالف تھا۔ ڈاکٹر بشیر الدین خود گورنمنٹ کالج کے پڑھے ہوئے (راوین) تھے، مگر ان کا کہنا تھا کہ گورنمنٹ کالج والا کا تعصب اس قدر زیادہ ہے کہ وہ کسی باہر والے کی برتری برداشت ہی نہیں کر پاتے۔ یہ اپنی جگہ درست ہے کہ بھٹو، ڈاکٹر قدیر اور میاں نواز شریف کو اپنی زندگی کے ایک خاص فیز میں اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں پریشانی اٹھانا پڑی۔ یہ مگر سچ ہے کہ بھٹو اور نواز شریف کو ایٹم بم کی وجہ سے تنگ نہیں کیا گیا۔ بھٹو اس لیے قبر میں پہنچے کہ وہ اگر نہ جاتے تو جنرل ضیاء کی باری آتی۔ ضیا یہ بات کہا کرتے تھے کہ قبر ایک اور بندے دو، کسی ایک نے اس میں جانا ہے۔ میاں نوازشریف کے نکالے جانے کے پیچھے تو خیر ایٹمی دھماکوں کا ایشو سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔ وہ پاناما کی وجہ سے نشانہ بنے یا کہہ لیں سول ملٹری کشمکش انہیں نگل گئی۔ ڈاکٹر قدیر خان کو البتہ ایٹمی پروگرام کا حصہ ہونے کی وجہ سے تکلیف سہنا پڑی۔ محسن پاکستان کے لیے یہ بہت پریشان کن اورکربناک رہا۔ ڈاکٹر قدیر خان کے ساتھ ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور ان جیسے بے شمار سائنس دانوں، ٹیکنیشنز، انجینئرز وغیرہ نے غیر معمولی کام کیا، ان سب کو کریڈٹ دینا چاہیے۔ یہ سب ہیروز ہیں۔
ایٹمی پروگرام کی کہانی ہمیں اپنی اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے، یہ ہماری نسل کی ذمہ داری ہے۔ یہ بھی مگر ضروری ہے کہ دیانت داری سے ایسا کیا جائے۔ اپنے ناپسندیدہ کرداروں کوکہانی سے حذف نہ کر دیا جائے۔ اس لیے کہ یہ فکشن نہیں، تاریخ کا سچ ہے، جسے بدلنے کی کسی کو اجازت نہیں مل سکتی۔