یہ انسانیت کی جنگ ہے!

غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مشکلات مزید بڑھنے لگیں، بھوک وافلا س سے صورتحال سنگین ہوگئی، امداد نہ ملنے سے لاکھوں جانوں کو شدید خطرہ ہے،صہیونی فوج کی جانب سے منظم نسل کشی کاسلسلہ بھی زور پکڑ گیا، تازہ حملوں میں مزید بیسیوں فلسطینی جام شہادت نوش کرگئے،درجنوں زخمی ہیں،فلسطینیوں کو بھوکا مارا جارہا ہے، مظالم پر دنیا کی خاموشی حیران کن ہے ،سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ بھی چیخ پڑے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ میں پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے، ایندھن کی ناکہ بندی کے باعث لاکھوں افراد بدترین پیاس سے دوچار ہیں۔

غزہ اس وقت ایک رستا ہوا زخم بن چکا ہے، جہاں سے ہر لمحے انسانی لہو ٹپک رہا ہے۔ دنیا کے سامنے ایک بے بس خطہ ہے، جس پر جدید ٹیکنالوجی اور بارود کی بھرمار سے لیس صہیونی افواج دن رات بم برسا رہی ہیں، زمین پر گولہ باری کر رہی ہیں اور ان سب کے درمیان نہتے فلسطینی اپنے جگر گوشوں کو اپنی بانہوں میں دم توڑتے دیکھنے پر مجبور ہیں۔ تازہ رپورٹس کے مطابق صہیونی فوج کے منظم حملوں میں مزید بیسیوں فلسطینی جام شہادت نوش کر چکے ہیں، جبکہ درجنوں زخمی حالت میں سسک رہے ہیں۔ ان مظلوموں کو صرف بموں سے ہی نہیں، بلکہ بھوک اور پیاس سے بھی مارا جا رہا ہے۔ پانی کی شدید قلت، ایندھن کی بندش، ادویات کی عدم دستیابی اور عالمی امداد کا بند ہو جانا ایک انسانی بحران کی ایسی لرزہ خیز تصویر پیش کر رہا ہے، جس کی نظیر انسانی تاریخ میں شاید ہی کہیں ملے۔ سیکرٹری جنرل اقوامِ متحدہ کی فریاد بھی سنائی دے رہی ہے، لیکن ان کی آواز ان بیجان ضمیروں پر اثر انداز نہیں ہو رہی جو طاقت، سیاست اور مفادات کے خول میں بند ہو چکے ہیں۔ دنیا کی چھ ارب سے زیادہ آبادی میں سے کوئی بھی کردار ایسا نہیں جو کھل کر اس ظلم کے آگے بند باندھنے کی ہمت کر سکے۔ اقوام متحدہ جیسے ادارے محض پریس ریلیز جاری کرنے تک محدود ہو چکے ہیں، جبکہ اسرائیل بغیر کسی خوف و مزاحمت کے مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ نہایت بھیانک اور منظم طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہے۔

المیہ یہ نہیں کہ اسرائیل ایک جارح، ظالم اور جابر قوت ہے، اصل دکھ کی بات یہ ہے کہ دنیا کے بیشتر طاقتور ممالک اس ظلم میں اس کے معاون و مددگار بنے ہوئے ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جو انسانیت، امن، مساوات اور انصاف کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ جو مغرب دنیا بھر میں انسانی حقوق کا علمبردار بنا پھرتا ہے، وہ آج اسرائیل کو ہتھیار، مالی امداد اور سفارتی تحفظ فراہم کرنے میں پیش پیش ہے۔ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ان کے ہاں انسانیت صرف وہاں معتبر ہے جہاں ان کا مفاد ہو، آزادی صرف ان کیلئے اہم ہے جو ان کے نظریے سے ہم آہنگ ہوں اور انصاف صرف وہی ہے جو ان کی طے کردہ شرائط کے مطابق ہو۔اس ظلم و جارحیت نے نہ صرف مغربی دنیا کو ننگا کیا ہے بلکہ مسلم اور عرب دنیا کی بے حسی کو بھی واضح کر دیا ہے۔ ڈیڑھ سال سے غزہ کے نہتے مسلمان اپنے کلمہ گو بھائیوں کی طرف امدد طلب نگاہوں سے دیکھ رہیہیں، مگر مسلم دنیا کے حکمران اپنے مفادات، تعلقات، معیشت اور پروٹوکول میں اس حد تک غرق ہو چکے ہیں کہ وہ فلسطینیوں کے قتل عام پر بھی چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ ان کے لیے غزہ ایسا ہی ایک غیر اہم معاملہ بن چکا ہے، جیسے پندرہویں صدی میں اندلس کے چالیس لاکھ سے زائد مسلمان اس دور کی اسلامی دنیا کیلئے غیر اہم ہوچکے تھے اور پھر مسلم امہ کی بے حسی سے اسپین سے مسلمانوں کا ایسا خاتمہ ہوگیا کہ کوئی بھی اسلام کا نام لیوا نہیں رہا۔ کیا غزہ بھی خاکم بدہن اب اسی انجام سے دوچار ہونے جا رہا ہے؟ خلیجی ممالک کے حالیہ رویے نے اس بے حسی کو اور نمایاں کر دیا ہے۔ امریکی صدر کے دورہ مشرق وسطی کے دوران نہ صرف انہیں قیمتی تحائف پیش کیے گئے بلکہ امریکی معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے ایک سے بڑھ کر ایک بھاری ڈیل بھی آفر کی گئی مگر اس ساری خوشامد میں کسی ایک عرب حکمران نے بھی غزہ کے مظالم پر امریکی صدر کے سامنے لب کشائی نہیں کی۔ اس قدر شرمناک خاموشی شاید خود ٹرمپ کے بھی وہم و گمان میں نہ ہو۔

غزہ کی صورتحال اس حد تک سنگین ہو چکی ہے کہ ایک طرف اگر اسرائیلی بمباری سے لوگ مر رہے ہیں، تو دوسری طرف بچے، جوان اور بوڑھے شدید ترین محاصرے کے باعث بھوک، پیاس اور طبی سہولتوں کی کمی سے دم توڑ رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی نسل کشی کے یہ تمام پہلو صرف جنگی جرم نہیں بلکہ انسانیت کے ماتھے پر سیاہ داغ ہیں۔ ایسی کیفیت میں عالمی برادری کا خاموش تماشائی بنے رہنا کسی ایک فریق کا جرم نہیں بلکہ پوری عالمی انسانیت کے اجتماعی ضمیر کی موت ہے۔ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ موجودہ عالمی نظام میں انصاف، اخلاقیات اور انسانی اقدار محض فریب اور دھوکا بن چکی ہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل جیسے ادارے صرف طاقتوروں کی مرضی سے سانس لیتے ہیں اور ان کی ترجیحات بھی وہی ہوتی ہیں جو طاقتور طے کریں۔ فلسطینی بچوں کے کٹے ہوئے جسم، ماؤں کی آہ و بکا اور مردہ خانوں میں سجے بے جان وجود ان اداروں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کیلئے ناکافی ہیں۔

اس افسوسناک اور خونی منظر نامے میں مسلم دنیا کے سربراہان سے کسی جرات مندانہ اقدام کی امید رکھنا اب عبث ہو چکا ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا بھر میں موجود وہ فعال انسان دوست تنظیمیں، چاہے وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، غزہ کیلئے آواز بلند کریں اور آگے بڑھ کر دنیا کے طاقتور حکمرانوں اور انسان دوست سیاستدانوں کو انسانی بنیادوں پر جھنجھوڑنا ہوگا۔ امداد کی راہیں کھولنے، اسرائیلی جارحیت پر پابندیاں لگوانے اور ایک انسانی کوریڈور قائم کروانے کیلئے منظم عالمی مہم کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر کا میڈیا، سول سوسائٹی، مذہبی رہنما اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اگر متحد ہو جائیں تو عالمی ضمیر کو بیدار کیا جا سکتا ہے، بصورت دیگر غزہ پوری دنیا کے ضمیر کا قبرستان بن جائے گا، انسانیت کی موت کا وہ عنوان بن جائے گا جو کئی نسلوں تک آج کی دنیا کا سیاہ کردار یاد دلاتا رہے گا۔ غزہ کی جنگ صرف فلسطینیوں کی جنگ نہیں، یہ انسانیت کی جنگ ہے۔ یہ جنگ اس بات کی گواہی ہے کہ دنیا آج بھی حق و باطل، مظلوم و ظالم، اور انصاف و طاقت کے بیچ کسی ایک کا انتخاب کر سکتی ہے۔ اگر آج دنیا نے خاموشی اختیار کیے رکھی تو کل کسی اور غزہ کی باری ہوگی اور تاریخ گواہ ہے کہ ظلم جب بڑھتا ہے تو سرحدیں نہیں دیکھتا، ویسے بھی ”گریٹر اسرائیل” کا خیال و خواب محض فلسطین تک محدود نہیں!