اسرائیلی بہیمیت کے خلاف بڑھتا ہوا عالمی ردعمل

امریکا کو چھوڑ کر مہذب دنیا کی مخالفت کے باوجود اسرائیل ستم رسیدہ فلسطینیوں کی نسل کشی اور انہیں بھوک کے ہتھیار سے مارنے کا سلسلہ پوری قوت اور ڈھٹائی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔اسرائیل سوچے سمجھے منصوبے کے تحت غزہ میں بین الاقوامی امداد کی رسائی کو روک رہا ہے،ناجائز صہیونی ریاست کے ننگ انسانیت انتہا پسند وزراء کھلے عام غزہ کو مکمل طور پر تباہ کرنے اور وہاں کے تیس لاکھ باشندوں کو ان کی جدی پشتی سرزمین سے جبراً بے دخل کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں اوراسرائیل کے سرپرست امریکا کی حکمران ریپبلکن پارٹی کے رہنما غزہ پر ایٹم بم گرانے تک کی باتیں کر رہے ہیں۔

جنوبی افریقا پر سفید فاموں کے ساتھ امتیازی سلوک کا واویلا کرنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ غزہ میں فلسطینیوں کی منظم اور منصوبہ بند نسل کشی پرمہر بلب ہیں بلکہ بہت سے مبصرین کے مطابق اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف اس وقت جو کچھ کر رہا ہے،ٹرمپ انتظامیہ کی مکمل آشیر باد سے ہی کر رہا ہے۔ اسرائیل یہی چاہتا ہے کہ روئے زمین پر ایک بھی فلسطینی موجود نہ ہو تا کہ فلسطین نامی قطعہ زمین باقی رہے اور نہ ہی اس کا کوئی نام لیوا موجود ہو، اسی غرض و مقصد کے تحت اسرائیل اپنے ناجائز وجود اور قبضے کے پہلے دن سے بتدریج فلسطین اور فلسطینیوں دونوں کو مٹانے کے منصوبے پر بتدریج عمل پیرا ہے۔

سات اکتوبر کو ہونے والے واقعے کو اسرائیل دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے حماس اور دیگر فلسطینی عسکری تنظیموں کی جانب سے حملوں میں پہل باور کرا رہا ہے اور اب تک اسرائیل کے حامی ممالک اور عالمی ادارے بھی اسرائیل کا ہی یہ بیانیہ اور آموختہ دہراتے چلے آ رہے ہیں، جو زمینی حقائق کی روشنی میں درست نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ غزہ کی فلسطینی تنظیموں نے سات اکتوبر کو اسرائیل کے نہ ختم ہونے والے حملوں کے رد عمل میں ہی تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق ہی یہ کارروائی کی تھی۔ اس کارروائی سے قبل حالات یہ تھے کہ ایک طرف اسرائیل اندرونی سطح پر فلسطینیوں کے قتل، جبری بے گھری اور دار و گیر کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھے، وہ اژدھا بن کر فلسطینیوں کے بچوں اور فلسطینی اراضی کو مسلسل ہڑپ کیے جا رہا تھا، دوسری طرف بیرونی محاذ پر اسرائیل نے امریکا کے مکمل تعاون سے فلسطینی کاز کو یکسر بھلا دینے کا پورا اہتمام کر رکھا تھا۔ پڑوسی عرب ملکوں کی طرف سے اسرائیل کے ناجائز وجود کو جائز تسلیم کرنے کی مہم زوروں پر تھی، چہ می گوئیاں تھیں کہ با اثر عرب ملکوں کے ”تسلیم” ہونے کے بعد عالم اسلام کے باقی ملکوں سے اسرائیل کے وجود کو سند جواز مہیا کرکے فلسطین کے قضیے پر فاتحہ پڑھ لی جائے گی۔اندر و باہر مسئلہ فلسطین کیخلاف ان چومکھی سازشوں اور حملوں کے عین عروج پر رد عمل میں فلسطینی جانبازوں نے سات اکتوبر کی کارروائی کرکے فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالنے کے سارے پلان اور خواب و خیال کو بکھیر کر رکھ دیا ، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اپنے منصوبے کی عین تکمیل کے مرحلے پر بری طرح ناکامی کے رنج میں اسرائیل نے غضب ناک ہوکر غزہ کو لاکھوں فلسطینیوں سمیت ملیا میٹ کرنے کی ٹھان لی۔ اسرائیل اور اس کے سرپرست یہ سوچ رہے تھے کہ وہ چند دنوں میں یکبارگی حملے کے ذریعے ”فتح” اپنے نام کرلیں گے اور ہمیشہ کیلئے فلسطین کا کانٹا پہلو سے نکال دیں گے، مگر سچ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت، چال، فیصلہ اور ارادہ ہمیشہ غالب ہوکر رہتا ہے۔ اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی سوچ کے بر عکس ”جنگ” طول پکڑتی چلی گئی اور اس کے ساتھ ہی اسرائیل اور اس کے حامی اور اس کیلئے کسی بھی حوالے سے نرم گوشہ رکھنے والے صہیونی اور نیم صہیونی بے نقاب ہونا شروع ہوگئے۔

آج اسرائیل کے وحشیانہ حملوں اور بے گناہ و نہتے فلسطینی بچوں، خواتین اور عام آبادی کی ظالمانہ مار کاٹ کو ڈیڑھ سال کا عرصہ گزرچکا ہے ،مگر اس دوران پوری دنیا ایک طرف ہوگئی ہے، اب اسرائیل کا حامی و موید یورپ اس کیخلاف کھڑا ہے، کہاں سات اکتوبر سے پہلے مسئلہ فلسطین اور فلسطینیوں کو دفن کرکے آگے بڑھنے کی باتیں تھیں اور کہاں آج یہ عالم ہے کہ دنیا کے تین اہم ممالک فرانس،برطانیہ اور کینیڈا نے اسرائیل کے خلاف تادیبی اقدامات کرنے کا انتباہ کیا ہے۔کئی یورپی ممالک نے فلسطین کو باقاعدہ الگ ریاست تسلیم کرنے کی ڈنکے کی چوٹ پر منظوری دے دی ہے اور باقی ممالک بھی ان کے نقش قدم پر ہیں۔یہ اسرائیل، اس کے سرپرستوں اور اس کے پڑوسی دوستوں اور اس کے ساتھ کسی بھی حوالے سے شراکت کے خواہش مندوں کی بڑی ناکامی ہے۔ اس طرح تمام تر مظالم کے باوجود ہر گزرتا دن اس کی ذلت و رسوائی میں ہی اضافہ کر رہا ہے۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پوری دنیا اس بات پر متفق ہو چکی ہے کہ حملے روکے جانے چاہئیں اور اسرائیل کو ‘ جنگ روک کر فلسطینی ریاست کا وجود تسلیم کرنے کیلئے مذاکرات کرنے چاہئیں، جو اہل غزہ کی استقامت، جہاد اور عزم و ثبات کی واضح کامیابی ہے۔ عالم یہ ہے کہ سوائے امریکا کے پوری دنیا یکطرفہ طور پر اسرائیل کیخلاف اور اہل غزہ و فلسطینیوں کی حمایت میں کھڑی ہے، یہ عالم اسلام کیلئے مسئلہ فلسطین کے حل اور اللہ کی طرف سے سخت آزمائش کا موقع ہے۔

اس میں شک نہیں کہ غزہ میں مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی اب تک کی یکطرفہ مار کاٹ کے بدترین جرم کا اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے ساتھ مسلم دنیا کے حکمرانوں کی مصلحت آمیز خاموشی بھی ذمے دار ہے، غزہ میں جاری وحشیانہ کارروائیوں کا ہر گزرتا دن جس طرح اسرائیل اور امریکا کے چہرے سے انسانیت کا غازہ اتارتا جا رہا ہے، عالم اسلام کیلئے بھی آزمائش میں اضافہ کر رہا ہے۔ اب جبکہ پوری دنیا کی رائے عامہ ہی نہیں، حکومتیں، اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے، عالمی عدالت سبھی یک زبان ہیں اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے انسان یک آواز ہیں کہ نہتے، کمزور اور ستم رسیدہ انسانوں کے قتل و خون کا یہ وحشیانہ اور بہیمانہ جنگی تھیٹر بن کر دیا جائے، مسلم دنیا کے حکمرانوں بالخصوص سعودی عرب، پاکستان، ترکیہ اور مصر کیلئے مزید مصلحت کی چادر اوڑھے رکھنے کا اب کوئی جواز نہیں رہ گیا ہے۔ اب جب زمین ہموار ہے اور اسرائیل کا ہاتھ مروڑنے اور اس کے سرپرستوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا اہم موقع ہے، مسلم دنیا کے بڑوں کو چاہیے کہ اب کھل کر سامنے آئیں اور واضح کر دیں کہ اسرائیل اگر اب بھی باز نہیں آ رہا تو سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ فلسطین اور فلسطینیوں کو اس کے چنگالِ ستم سے چھڑانے کیلئے مناسب عملی اقدام کیا جائے، یہ مسلم حکمرانوں نے بے حمیتی سے یہ موقع بھی گنوا دیا توتاریخ انہیں ہر گز معاف نہیں کرے گی۔