اس وقت دنیا میں ترجمہ یعنی ٹرانسلیشن کو باقاعدہ ایک مستقل فن کی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کی مشہور و معروف یونیورسٹیوں میں ترجمہ کے فن میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی ہوتی ہے۔ برطانیہ و امریکا ہی کی مثال لے لیجیے، بیسیوں یونیورسٹیوں میں آج بھی ٹرانسلیشن اسٹڈیز میں ماسٹرز کروانے کے پروگرامز موجود ہیں اور طلبہ جوق در جوق ان میں داخلہ لے رہے ہیں۔ ان ماسٹرز کے اندر مختلف زبانوں مثلاً عربی، چینی زبان (مینڈران چینی جو سب سے زیادہ چینی زبان بولی جاتی ہے) جرمن، فرنچ وغیرہ میں پروفیشنل ترجمہ کرنا سکھایا جاتا ہے۔ عربی زبان کی مثال لی جائے تو ٹرانسلیشن اسٹڈیز میں ماسٹرز کرنے سے طلبہ کو انگریزی سے عربی اور عربی سے انگریزی ترجمہ میں پروفیشنل عبور حاصل ہوجاتا ہے۔ نیز ان طلبہ کو کمپیوٹر کے مختلف سافٹ وئیر سے تعامل بھی کروایا جاتا ہے جو پروفیشنل ٹرانسلیٹرز کیلئے ضروری ہیں۔ الغرض ٹرانسلیشن اسٹڈیز میں ماسٹرز کرنے والے ان طلبہ کو پورے سال میں ترجمہ سے متعلق مختلف کورسز کروائے جاتے ہیں۔ چونکہ ترجمہ کی مختلف اصناف ہوتی ہیں جن میں قانونی ترجمہ، مذہبی ترجمہ، ادبی ترجمہ، شعری ترجمہ وغیرہ شامل ہیں اور اسی طریقے سے ترجمہ نگاری کے بھی مختلف اسلوب ہیں لہٰذا ان طلبہ کو ترجمے کی ان مختلف اصناف اور اسلوب سے بھی متعارف کروایا جاتا ہے۔ نیز ان ماسٹرز کے طلبہ کی مارکیٹ میں کھپت بھی ہے جن میں مختلف حکومتی محکموں سے لے کر یورپی یونین، اقوامِ متحدہ، سائنسی و تدریسی پبلشرز اور دیگر اداروں میں بطور ٹرانسلیٹر کام کرنا شامل ہے۔ نیز بعض طلبہ بطور فری لانسر کے طور پر بھی تراجم کرتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت اور ترجمہ کا بنیادی کام
مصنوعی ذہانت میں ایک شعبہ نیچرل لینگویج پروسیسنگ ہے اور اس شعبے میں ایک اور شعبہ ہے جسے مشین ٹرانسلیشن کہتے ہیں جس میں کمپیوٹر پر مبنی خودکار ترجمہ کے نظام کو تخلیق کیا جاتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کیا گیا ترجمہ دوسری زبان کے معنی کو بہترین طریقے سے محفوظ رکھے اور اس میں ممکن حد تک لسانی طور پر روانی ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مصنوعی ذہانت کو استعمال کرکے ترجمہ نگاری میں بہت پیشرفت اور ترقی ہوئی ہے مگر ہمیں یہ بات ملحوظِ خاطر رکھنی چاہیے کہ ترجمہ نگاری انتہائی مشکل کام ہے۔ ترجمہ نگار کو نہ صرف یہ کہ دونوں زبانوں پر مکمل عبور ہونا چاہیے بلکہ متعلقہ علم اور فن کا ماہر بھی ہونا چاہیے، مثلاً انگریزی زبان کی طب کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کرنا ہے تو ترجمہ نگار کودونوں زبانوں کے ساتھ ساتھ فنِ طب پر مکمل گرفت ہوگی اور فنِ طب کی اصلاحات کا دونوں زبانوں یعنی انگریزی اور عربی میں عبور حاصل ہوگا، جب ہی وہ ترجمہ کرنے کا حق ادا کرسکے گا۔ یہی اصول مختلف علوم و فن پر لاگو ہوگا، یعنی سائنس کے ہر شعبے کے لیے اس شعبے کے ماہرین فن کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی تب کہیں جاکر ایک اچھا ترجمہ ہو سکے گا۔ نیز بات صرف اس فن کے ماہر ہونے تک محدود نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان دونوں زبانوں سے متعلقہ جغرافیائی علاقوں کی ثقافت و معاشرت، لہجہ، روزمرہ کے محاور ے اور سیاق و سباق کو بھی ترجمہ کرتے وقت سامنے رکھنا ہوگا۔ الغرض ترجمہ کرتے وقت بے تحاشہ پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ہوگا، تب کہیں جاکر ایک عمدہ اور سلیس ترجمہ تیار ہوسکے گا، مثلاً ترجمہ کرتے وقت ایک پہلو ہے کہ مصنف کو پہچاننا اور اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ مصنف کے اسلوبِ تحریر سے واقفیت کی وجہ سے ترجمہ میں کئی طریقے سے آسانی پیداہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں کئی سائنسی تحقیقات ہوئی ہیں، جن کا خلاصہ سائنسی مقالہ جات میں موجود ہے۔ نیز بامحاورہ ترجمہ کرتے وقت صاحبِ تحریر کی رائے اور موقف کو سمجھ کر بیان کرنا بھی مشین کے لئے کافی پیچیدہ عمل ہے اور اس سلسلے میں بھی سائنسی تحقیقات میں پیشرفت ہوئی ہے۔
مصنوعی ذہانت سے ہونے والے ترجمے کی خرابیاں
جب ہم مصنوعی ذہانت میں ہونے والی ترقی کی بات کرتے ہیں تو ہمیں ہر طرف بہت چرچا نظر آتا ہے اور بعض لوگ مصنوعی ذہانت کے گیت گاتے نہیں تھکتے اور بالخصوس مصنوعی ذہانت کی کمپنیوں نے جس طریقے اور جس بڑے پیمانے پر مصنوعی ذہانت کی تشہیر کی ہے، کافی لوگ مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں سے متاثر نظر آتے ہیں، جبکہ حقیقت حال یہ ہے کہ ترجمہ جیسے بنیادی کام کے اندر بھی مصنوعی ذہانت ابھی مکمل طور پر اس قابل نہیں ہوئی ہے کہ ماہرینِ فن اسے ترجمہ کرنے کے قابل سمجھیں بلکہ ماہرینِ فن کے نزدیک تو ترجمہ کے اندر مصنوعی ذہانت کے استعمال کرنے سے کام دگنا ہوجاتا ہے۔ نیز مصنوعی ذہانت سے کیا گیا ترجمہ کسی کے سامنے پیش کرنے کے قابل نہیں اور ترجمہ کے اندر نقائص کی وجہ سے یہ اندیشہ رہتا ہے کہ ترجمہ کی گئی تحریر کا مطلب و مفہوم تبدیل نہ ہو جائے، لہٰذا قانون سازی اور دیگر اہم موضوعات پر مصنوعی ذہانت کو استعمال کرکے ترجمہ کرتے وقت ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ اگر کوئی شخص انگریزی کا ماہر ہے اور وہ اپنی انگریزی تحریر کو عربی میں ترجمہ کررہا ہے اور عربی زبان میں اسے مہارت حاصل نہیں ہے تو وہ مصنوعی ذہانت کی ترجمہ کی باریکیوں کو نہیں سمجھے گا اور مصنوعی ذہانت سے کیے گئے ترجمے سے متاثر ہو جائے گا جبکہ اس کے برعکس اگر کوئی ان دونوں زبانوں میں ماہر ہوگا تو وہ بآسانی مصنوعی ذہانت کے ترجمے کی خامیوں کو جان لے گا۔
اپنی بات کی مزید وضاحت کیلئے ہم حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کے حالیہ دورہ ترکیہ سے متعلق ماہنامہ البلاغ میں چھپنے والے مضمون سے ایک اقتباس نقل کرتے ہیں جو مولانا ڈاکٹر مصطفی صاحب کے اسلامی دستور و قوانین کی تدوین اور پھر اس انگریزی متن کو عربی میں ترجمہ کرنے سے متعلق ہے۔ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ: ”میں نے سب سے پہلے ان سے کہا کہ آپ دستور پر کام کریں، انہوں نے ساری دنیا کے ملکوں (مثلاً امریکا، برطانیہ وغیرہ) کے دساتیر کا مطالعہ کیا اور اس کے بعد انگریزی میں ایک دستور تیار کیا۔ اس دستور میں کوئی بند اور شق ایسا نہیں ہے جس کے شرعی دلائل حاشیہ میں موجود نہ ہوں، یعنی اس کا ماخذ اور شرعی بنیادیں کتاب اللہ سے، سنت سے یا خلفائے راشدین وصحابہ کے تعامل وغیرہ سے، مثلاً دنیا کے ہر دستور میں سب سے پہلے ملکی پالیسی کو بتایا جاتا ہے کہ ہم اپنا ملک کس بنیاد پر بنائیں گے، جیسے ہمارے یہاں پاکستان میں قرارداد مقاصد ہیں۔
اس کے بعد ”بنیادی حقوق” ہر دستور کا بنیادی حصہ ہوتا ہے، وہ کیا ہوں گے اور کن حدود میں ہوں گے کیونکہ آج کل بنیادی حقوق بہت عام ہوگئے ہیں۔ تو اسلام میں بنیادی حقوق کیا ہیں اور کس حق کو کس حد تک استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اور اس کے بعد گورننس ڈھانچہ ہوتا ہے۔ انہوں نے ان سب کو پہلے انگریزی میں تیار کیا اور مجھے دکھایا۔ ایسا کام پہلے کبھی دنیا میں نہیں ہوا۔ میں نے اس پر نظرثانی کی اور جو تبدیلیاں اور ترمیمات کرنی تھیں وہ کیں۔ اس کے بعد میں نے سوچا کہ ہمارا اصل دستور تو عربی میں ہونا چاہیے، اور متن (text) ہو تو اصل عربی والا ہونا چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے قانونی عبارات کو عربی میں منتقل کرنے کیلئے سب سے پہلے جدید ٹیکنالوجی کی مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی مدد سے ترجمہ کیا لیکن اسے دیکھ کر محسوس ہوا کہ ترجمہ درست نہیں ہے۔ ہم نے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ جس میں مولانا شاکر جکھورا صاحب اور مولانا معاذ اشرف عثمانی وغیرہ شامل ہیں۔ اور ان حضرات کی وقتاً فوقتاً آئن لائن میٹنگز ہوتی رہیں اور آپس کے مشورے اور بحث و مباحثہ سے اس اے آئی والے ترجمہ کو درست کرنے کی کوشش کرتے رہے اور مجھے دکھاتے رہے۔ لیکن اس میں ڈبل محنت ہورہی تھی۔ میں نے ان سے کہا کہ اس کو چھوڑ دو، آخر میں ہمیں ایسے شخص کو دکھانا ہے جو فن کا ماہر ہو، لیکن اے آئی والا ترجمہ پیش کرنے کے قابل نہیں تھا، لہٰذا میں نے 15دن مسلسل روزانہ صبح اور شام اس کے اوپر لگائے اور عربی میں اس کو منتقل کیا۔ اس کے بعد ہم ایسے آدمی کو دکھانا چاہتے تھے جس کو دستوری قانون پر عربی میں مہارت ہو۔” (حوالہ: مولانا محمد بن آدم، ”حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم کا مختصر دورہ استنبول اگست 2024”، ماہنامہ البلاغ، اپریل 2025) (جاری ہے)