جنگیں نہیں، مذاکرات اور تجارت کریں

یہ 1984ء کی بات ہے فرانس کے صدر ”فرانکوس متراں” اور جرمن کے چانسلر ”ہلمٹ کوہل” دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک میدان کی جانب رواں دواں تھے۔ دونوں صدر انتہائی خوشگوار موڈ میں تھے۔ وہ جس میدان کی طرف گامزن تھے اس کا نام ”وردن” میدان تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں پہلی جنگ عظیم کے دوران جرمن اور فرانسیسی افواج کے مابین تاریخ کی خوفناک خونیں جنگ ہوئی تھی۔ اس میں 10لاکھ سے زائد فرانسیسی اور جرمن مارے گئے۔ تقریباً اتنے ہی زخمی اور معذور ہوئے تھے۔ میدانِ وردن ہی میں ایک جگہ ہے جہاں پر ڈیڑھ لاکھ کے قریب فرانسیسی اور جرمن فوجیوں کی باقیات اور ہڈیاں ایک گڑھے میں دفن ہیں۔ دونوں ملکوں کے رہنما وہاں پہنچے۔ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ ایک بار پھر بڑی گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔ اگرچہ ان کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے لیکن تری صاف طورپر محسوس کی جاسکتی تھی۔ دونوں صدور نے سفارتی انداز میں علیک سلیک کے بعد حلف اُٹھایا کہ آیندہ فرانس اور جرمنی کبھی جنگ نہیں کریں گے۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وہ اپنے وعدے کے پکے اور سچے نکلے۔ وہ دن ہے اور آج ان دونوں ملکوں میں کبھی خون ریز جنگ نہیں ہوئی۔ ایک دوسرے کے لہو کے دشمن، خون کا رشتہ نہ ہونے کے باوجود نہ صرف بھائی بھائی بن گئے بلکہ باہمی تعاون واشتراک کا سلسلہ آج بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سرحدوں پر فوجی چوکیاں تک نظر نہیں آتیں۔ اس معاہدے کے بعد دونوں ملک اپنے اپنے کے عوام کی حالت بہتر بنانے، نقصانات کا ازالہ کرنے اور ملکی معیشت کی ترقی اور قوم کی تعمیر کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لارہے ہیں۔ ماضی کے ساتھ چمٹے رہنا، اسے یاد کرنا اور انتقام انتقام کے نعرے لگانے سے کبھی ملک وقوم ترقی نہیں کرتے۔ اس کی مثالیں قدیم تاریخ سے بھی ملتی ہیں۔یہ تو آج کی مثال ہے۔

آغازِ اسلام میں کفار مکہ اور مشرکین نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو بے پناہ تکلیفیں دیں۔ انہیں ملک بدر کیا۔ شعب ابی طالب میں محصور کردیا۔ غزوۂ بدر سے احد تک اور معرکہ خیبر سے خندق تک بیسیوں جنگیں لڑی گئیں۔ 13 سال بعد جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو غلبہ ملا تو ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل نہیں ہوئے، بلکہ ان کے سر سے تشکر سے جھکے ہوئے تھے۔ انہوں نے بدلہ نہیں لیا، بلکہ معاف کردیا۔ کہا گیا جو شخص ہتھیار پھینک دے، ابوسفیان کے گھر پناہ لے یا پھر اپنے ہی گھر میں پُرامن رہے، ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ ہندہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبایا تھا اور وحشی جس نے انہیں قتل کیا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ نے درگزر فرمایا۔ طائف میں جن لوگوں نے پتھر مارمار کر لہولہان کردیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی درگزر کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کچھ ہی عرصے کے بعد سب بھائی بھائی بن گئے۔ دشمنی دوستی میں بدل گئی۔ سچائی کا پیغام جزیرة العرب سے نکل کر اس وقت کی سپر طاقتوں فارس اور روم تک پہنچنے لگا۔

پھر 10سال کے اندر اندر پوری دنیا میں اسلام کا ڈنکا بجنے لگا۔ مدینہ کی ریاست وجود میں آئی۔ معیشت وتجارت ترقی کرنے لگی۔ غریبوں اور محروموں کے غم دکھ دور ہونے لگے۔ عدل وانصاف کا بول بالا ہوا۔ محمود وایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہونے لگے۔ شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پینے لگے۔ جنہوں نے اس سچے دعوت کو قبول نہیں کیا، ان کے ساتھ بھی رواداری کا سلوک کیا جانے لگا۔ یہودی جنہیں کبھی دنیا میں سکون سے نہیں رہنے دیا گیا تھا، مسلمانوں کی خلافت میں پُرسکون زندگی بسر کرنے لگے۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ممکن ہوا کہ معافی، صلح صفائی، ماضی کو بھول کر افہام وتفہیم کی پالیسی پر عمل کیا گیا ہے۔ انتقام اور سابقہ دشمنی کو برقرار رکھنے کے جذبات ختم کردیے گئے تھے۔ اس سے قبل چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی جھگڑے شروع ہوتے تھے جو کئی کئی سو سال اور پانچ پانچ، دس دس نسلوں تک جاری رہتے تھے۔ مرنے والا وصیت کرجاتا تھا میرا خون معاف نہ کرنا اور بدلہ بہرصورت لینا اور پھر یہ سلسلہ دونوں طرف سے صدیوں تک چلتا رہتا۔ ایک قبیلہ اور خاندان دوسرے قبیلے اور خاندان سے اس وقت تک لڑائی جاری رکھتا جب تک انتقام نہ لے لیا جاتا، مرجاتا یا ماردیتا۔ جس ملک وقوم نے ماضی کو بھول کر آگے کی طرف دیکھا وہ ترقی کرگیا اور جو ماضی سے چمٹا رہا وہ پیچھے ہی چلا گیا۔

ماضی میں ایسے خونیں کئی واقعات ہوئے۔ منگولوں کے خوںریز حملوں سے یا یورپی نوآبادیاتی طاقتوں کی خونیں یلغار تک، پہلی جنگ عظیم سے دوسری جنگ عظیم تک میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس میں محتاط اندازے کے مطابق پانچ سے چھ کروڑ افراد مارے گئے لیکن حاصل کچھ نہ ہوا۔ یورپی ممالک نے آپس میں بے پناہ جنگیں لڑیں۔ جب تباہی و بربادی عروج پر پہنچی تو پھر انہیں ہوش آیا۔ مذاکرات کی میز پر بیٹھے اور اپنے تما م چھوٹے بڑے تنازعات کا حل نکال لیا۔ آپس میں تجارت کو فروغ دینا شروع کیا اور جلد ہی دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بن گئے۔

کیا پاکستان اور بھارت ایسا نہیں کرسکتے؟؟ بھارت اور پاکستان میں پون دو ارب انسان بستے ہیں۔ ان کی اکثریت خطِ غربت سے نیچے بے بسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ خوراک اور صحت کے گھمبیر مسائل کا شکار ہیں۔ شاید انہی حالات کا ادراک کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے فرمایا کہ پاکستان اور بھارت نے تین بڑی جنگیں لاحاصل لڑیں۔ ہمیں اپنے تمام مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے ہوں گے۔ جنگ چھوڑ کر معاشی میدان میں آگے بڑھنا ہوگا۔ تقریباً یہی بات امریکا کے صدر ٹرمپ نے بھی کہی کہ پاکستان اور بھارت ایٹمی میزائلوں کی جنگ چھوڑ کر آپس میں تجارت کریں۔ اسے دونوں ممالک کے عوام خوشحال ہوں گے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ فرانس کے صدر ”فرانکوس متراں” اور جرمن کے چانسلر ”ہلمٹ کوہل” کی طرح بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف دونوں واہگہ باڈر پر آئیں۔ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوں۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گرمجوشی سے مصافحہ کریں۔ ایک دوسرے کو معاف کریں۔ حلف اُٹھائیں کہ آیندہ بھارت اور پاکستان کبھی جنگ نہیں کریں گے۔ مسئلہ کشمیر سمیت تمام دوطرفہ مسائل جامع مذاکرات کے ذریعے مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے گے، دونوں ملک اپنے اپنے عوام کی حالت بہتر بنانے، نقصانات کا ازالہ کرنے اور ملکی معیشت کی ترقی اور قوم کی تعمیر کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔ اے کاش ایسا ہوجائے!