دینی مدار س میں بچوں پر تشدد کے واقعات وقفے وقفے سے سراٹھاتے ہیں اور ہر بار ہی دین اور دینی تعلیم پر ایک بدنام داغ کا اضافہ کرجاتے ہیں۔ ملک بھر میں پھیلے 50 ہزار کے قریب مدارس میں سے کسی ایک پر اٹھنے والی انگلی پورے نظام کی شفافیت پر سوالیہ نشان بنا دی جاتی ہے اور پھر جتنے منہ اتنی باتیں، جتنی باتیں اتنے طعنے۔ ایسی صورت حال میں ہمارے لیے اس مسئلے کا ٹھنڈے دل و دماغ سے جائزہ لینا اور پھر اس کا دیرپا حل تلاش کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ بات بہت واضح ہونی چاہیے کہ جب مدارس میں ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس ایک واقعے کی آڑ میں ملک بھر میں پھیلے 50 ہزار مدارس پر طعنہ، تشنیع اور الزام و دشنام کرنا ہرگز مناسب نہیں۔ اسی طرح اس واقعے کے پیش آتے ہی یہ مطالبہ بھی بالکل فضول محسوس ہوتا ہے کہ پہلے اسکولز و کالجز میں بچوں پر تشدد کے واقعات ختم کرلیے جائیں اِس کے بعد مدارس پر بات کی جائے؟ ہمارے خیال میں تو دنیا کے کسی ادارے میں بچوں پر تشدد ختم نہ بھی ہو، تب بھی اس کی کوئی گنجائش نہیں بنتی کہ دینی مدارس میں بچوں کو بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جائے۔ یہ حرام اور ناجائز ہے۔ شریعت، اخلاق، نفسیات اور معاشرت ہر اعتبار سے اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے اسکولز کے واقعات کو جواز بناکر بھی دینی مدارس میں بچوں پر تشدد روا رکھنے کی کسی صورت اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اب آتے ہیں ایسے واقعات کی وجوہات اور اسباب کی جانب:
عمومی طورپر دینی مدارس میں تنخواہیں بہت کم ہوتی ہیں، جتنے چھوٹے اور شہر سے دُور مدارس ہیں اُتنا ہی اساتذہ و مدرسین کی تنخواہیں کم ہوتی ہیں۔ اتنی کم تنخواہ پر اچھی تعلیم و تربیت یافتہ استاذ پڑھانے پر رضامند ہی نہیں ہوتا۔ دوسری وجہ یہ کہ جب تنخواہ سے گھر کی ضروریات نہیں پوری ہوں گی تو خود بخود ڈپریشن، غصہ اور اینگزائٹی جیسے مسائل پیدا ہوں گے اور نفسیاتی طور پر ڈسٹرب اُستاد اپنا تمام تر غصہ اور احساس محرومی معصوم بچوں پر نکالتا ہے۔ اسی سے جڑی بات یہ بھی کہ کم وسائل والے مدارس میں اساتذہ کے تقرر کے وقت سختی نہیں کی جاسکتی، اِسی طرح اساتذہ کی مکمل نگرانی بھی نہیں ہوتی، نہ ہی وہاں اساتذہ کی تربیت کا کوئی نظم پایا جاتا ہے۔ ان تمام چیزوں کا خمیازہ معصوم بچوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
ایک بڑی وجہ حفظ کے اساتذہ کی تعلیم اور تربیت میں کمی کا بھی ہے۔ عمومی طور پر حفظ کے اساتذہ نہ عصری تعلیم یافتہ ہوتے ہیں، نہ ہی دورہ حدیث تک دینی تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔ وہ حافظ بنتے ہیں اور براہ راست تدریس شروع کر دیتے ہیں۔ قرآن کا قاری ہونا پیشے کے لحاظ سے سب سے کم لوگوں کا انتخاب ہوتا ہے۔ پھر قاری صاحبان کی ڈیوٹی بھی بہت ٹف ہوتی ہے، انہیں صبح سویرے تہجد کے وقت سے پڑھانا شروع کرنا پڑتا ہے اور رات گیارہ بجے تک دماغ سوزی کرنا پڑتی ہے۔ اتنا طویل تدریس کا وقت غیرفطری بھی ہے اور اس کے نتیجے میں لامحالہ اُستاد بہت سے نفسیاتی عوارض کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایک بڑی وجہ ہمارا ماحول بھی ہے، قاری صاحب نے جب قرآن پڑھا اور یاد کیا ہوتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ حفظ قرآن کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مارپیٹ کے ذریعے بچے کو کنٹرول کیا جائے۔ قاری صاحبان رفتہ رفتہ اس پر یقین کرلیتے ہیں کہ مارپیٹ کے بغیر قرآن پڑھانا ممکن ہی نہیں۔ اسی طرح جیسے ہم نے قرآن حفظ کیا ہے ہم بھی اگلی نسل کو ایسے ہی پڑھائیں گے۔
ایک اہم وجہ والدین کا دینی تعلیم کے دوران اپنی اولاد اور دینی تعلیم سے لاتعلق رہنا بھی ہے۔ بچہ کیا پڑھ رہا ہے؟ کیسا پڑھ رہا ہے؟ اس کے اُستاد کا رویہ کیسا ہے؟ کہیں بچہ بے جا سختی کا شکار تو نہیں ہورہا؟ بچے کی نفسیاتی حالت کیسی ہے؟ بچے کو ہراساں تو نہیں کیا جا رہا؟ والدین کو جاننا چاہیے کہ اُن کا بچہ دنیا کا قیمتی ترین اثاثہ ہے، بچے کی نفسیاتی صحت برباد ہوگئی تو وہ جیتے جی مرجائے گا، بچے کی خوداعتمادی تباہ ہوگئی تو وہ عمر بھر سراٹھاکر جی نہیں پائے گا۔ یہ بھی جاننا ہوگا کہ بچے کو حفظ کروانا فرض نہیں مگر اس کی نفسیاتی اور جسمانی صحت کی حفاظت فرض ہے۔ اس لیے والدین کا بچے سے تعلق سب سے ضروری چیز ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ بچے کے استاذ سے تعلق رکھنے والے اور استاذ کو ہدایا دینے والے والدین کے بچے کسی قسم کے بہیمانہ تشدد سے محفوظ رہتے ہیں۔ اسی طرح والدین کو بچے کے لیے مدرسے کا انتخاب کرنے سے پہلے یہ بھی ضرور دیکھ لینا چاہیے کہ کیا بچوں کی نگرانی کے لیے کیمرے نصب کیے گئے ہیں یا نہیں؟ ایسے مدارس کو ترجیح دیجیے جہاں پر بچوں کی کیمروں سے نگرانی کی جارہی ہو۔
تشدد وغیرہ کی روک تھام میں ہمارے دینی تعلیمی بورڈز کا کردار بھی کلیدی ہے۔ بورڈز کی طرف سے نمایاں طور پر ہدایات ہونی چاہئیں کہ تشدد اور بداخلاقی کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس حوالے سے وقتا فوقتا ٹریننگز ہونی چاہئیں، ورکشاپس ہونی چاہئیں اور قاری صاحبا ن کو تربیت کے عمل سے گزارنا چاہیے۔ آج کل حفظ قرآن کے مسابقوں کی بہتات نے بھی مارپیٹ کے عمل میں اضافہ کردیا ہے۔ ہر مدرسہ پوزیشن حاصل کرکے اپنے تعلیمی معیار کا دھاک سب پر بٹھانا چاہتا ہے اور بدقسمتی سے معیار قائم کرنے کے لیے بچوں پر تشدد کی کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے۔ ‘نمبر ایک’ بننے کی خواہش پر کسی کا جگر گوشہ قربان کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی۔
کسی دور میں اس کی ضرورت ہوتی تھی کہ حفظ کے بچوں کے رہائشی مدارس قائم کیے جائیں، آج الحمدللہ، ہر ہر شہر، گائوں، قصبے اور کالونی میں مدارس موجود ہیں۔ اس لیے آج کے دور میں مدارس کے ذمہ داران کو متفقہ طور پر فیصلہ کرنا ہوگا کہ حفظ کے بچوں کو مدرسے میں رہائش نہیں دی جائے گی۔ غیراقامتی اور غیررہائشی مدارس سے خودبخود والدین میں احساس ذمہ داری بڑھتا ہے اور قاری صاحبان و انتظامیہ مدرسے کی محنت و مشقت اور ذمہ داریوں میں بھی بڑی کمی واقع ہوتی ہے۔ لیکن گزشتہ 12وجوہات اور اسباب کے باوجود اس کی قطعی طور پر کوئی گنجائش نہیں بنتی کہ ایک بچے پر تشدد کرکے اس کی جان لے لی جائے۔ یہ دین کے ساتھ مذاق ہے، دینی مدارس کی عظمت کے ساتھ کھلواڑ ہے، دینی تعلیم پر ظلم عظیم ہے اور اسلامیانِ پاکستان کے جذبات کی بھد اُڑانا ہے۔ اس کریہہ حرکت کے مرتکب افراد کے خلاف قانون اور ریاست کو پوری قوت کے ساتھ ایکشن لینا چاہیے تاکہ ایسے لوگ مقام عبرت بنیں اور دوسروں کے لیے سبق چھوڑ جائیں۔