چند دن قبل تائیوان میں بڑی اہم سیاسی پیشرفت ہوئی اور ایک طرح سے وہاں پرو امریکا سیاسی لابی کو شکست فاش ہوئی، شدید دھچکا لگا جبکہ پرو چائنا سیاسی قوتیں مضبوط اور فتح یاب ٹھہریں۔ یہ چین کے لیے ایک اور بڑی کامیابی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی ٹیرف کمپین کے ذریعے چین کو دھمکانے اور پسپا کرنے کی جو کوشش کی تھی وہ بھی ناکام رہی اور چین نے اپنی مرضی کے ٹیرف ڈیل کی۔ دوسری طرف پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی عسکری فتح سے بھی چین کو تقویت ملی، چینی طیاروں اور دیگر جدید ہتھیاروں کی اہمیت بڑھی اور دنیا بھر میں ان کے نئے خریدار پیدا ہوئے۔ تاہم تائیوان میں پرو چائنا سیاسی قوتوں کی کامیابی پچھلی کامیابیوں سے زیادہ اہم ہے کیونکہ تائیوان چین سے بظاہر الگ ہونے کے باوجود چین کا حصہ ہی ہے اور پاکستان بھی یہی سمجھتا ہے کہ تائیوان دراصل چین ہی ہے۔ تائیوان کی سیاسی صورتحال یہ ہے کہ وہاں پر حکمران جماعت اینٹی چائنا سمجھی جاتی ہے، وہ امریکا نواز ہے اور تائیوان کے الگ ملک ہونے اور الگ شناخت پر بہت زیادہ زور دیتی ہے۔ تائیوان(جو خود کو رپبلک آف چائنا کہتا ہے)کے صدر آج کل لائی چنگ تے (Lai Ching-te) ہیں۔ تائیوان میں صدر براہ راست عوامی ووٹوں سے منتخب ہوتا ہے۔ صدر لائی چنگ تے نے پچھلے سال 20مئی 2024ء کو تائیوان کے آٹھویں صدر کے طور پر حلف اٹھایا تھا۔ ان کا تعلق پرو امریکا اور اینٹی چین پارٹی ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی (DPP)سے ہے۔
واضح رہے کہ تائیوان میں صدر اور وزیرِاعظم دونوں اہم آئینی عہدے ہیں مگر صدرتائیوان کا آئینی سربراہِ مملکت ہے جو براہِ راست عوام کے ذریعے منتخب ہوتا ہے۔ صدر کی ذمہ داریوں میں قومی دفاع، خارجہ پالیسی اور داخلی سلامتی جیسے اہم امور شامل ہیں۔ صدر کی حیثیت ملک کی سیاسی سمت اور بین الاقوامی تعلقات میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ وزیرِاعظم (پریمیئر) دراصل صدر کے ماتحت مگر ایگزیکٹو یوان (Executive Yuan)کا سربراہ ہوتا ہے۔ آج کل وزیراعظم چو ژونگ تائی ہیں۔ آئینی طور پر وزیرِاعظم حکومت کی روزمرہ اُمور کی نگرانی کرتا ہے بشمول قانون سازی کے نفاذ، بجٹ کی تیاری اور داخلی پالیسیوں کی تشکیل وغیرہ۔ صدر اور وزیراعظم دونوں کا تعلق حکمران جماعت ڈی پی پی سے ہے۔ پچھلے سال ہونے والے انتخابات میں لائی چنگ تے نے ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی کی طرف سے صدر کی حیثیت سے انتخاب لڑا اور چالیس فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ بڑی اپوزیشن جماعت کومنتانگ یعنی کے ایم ٹی کے امیدوار نے پینتیس فیصد ووٹ حاصل کئے۔ یاد رہے کہ کومنتانگ پرو چائنا پارٹی سمجھی جاتی ہے۔ یہ چین کے ساتھ خوشگوار تعلقات بنانے، تجارتی اقتصادی تعاون اور امریکا کے بجائے چین کو قریب رکھنے کی بات کرتی ہے۔ امریکی اسی وجہ سے اس پارٹی کومنتانگ کے خلاف ہیں۔ صدارتی انتخابات میں تیسرے امیدوار نے تائیوان پیپلز پارٹی کی طرف سے چھبیس فیصد ووٹ حاصل کئے اور تیسرے نمبر پر رہے۔ پچھلے سال الیکشن میں ایک اہم ڈویلپمنٹ یہ ہوئی کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعت کومنتانگ (KMT)نے 52نشستیں حاصل کر کے سب سے بڑی جماعت بننے کا اعزاز حاصل کیا جبکہ حکمران جماعت ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی (DPP)نے 51نشستیں حاصل کیں۔ تیسرے نمبر پر تائیوان پیپلز پارٹی (TPP)نے 8نشستیں حاصل کیں۔ اب ہوا یہ کہ کومنتانگ اور تائیوان پیپلز پارٹی نے اتحاد بنا لیا، یوں ان کی اسمبلی میں اکثریت ہوگئی، دونوں کی نشستیں مل کر ساٹھ ہوگئیں جبکہ صدر لائی چنگ تے کی جماعت پروگریسو پارٹی کی صرف اکاون نشستیں ہی رہیں۔ صدر کے پاس خاصے اختیارات ہیں مگر بہرحال اسمبلی سے بجٹ پاس کرانا پڑتا ہے جبکہ دیگر قانون سازی بھی وہیں سے ہی ہوسکتی ہے۔ اسمبلی میں چین کی حامی جماعتوں کی اب اکثریت ہوچکی ہے تو وہ امریکا کے قریب موجودہ تائیوانی صدر لائی چنگ تے کی بیشتر پالیسیوں کو ناکام بنا دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر امریکا تائیوان کو جدید اسلحہ دے رہا ہے تاکہ وہ عسکری اعتبار سے اس قدر طاقتور ہوسکے کہ چین کے مقابلے میں آ جائے اور اگر مستقبل میں کبھی روس کے یوکرائن حملے کی طرح چین تائیوان پر حملہ کرے تو تائیوان اس کا جواب دے سکے۔ یاد رہے کہ یہ امریکا منصوبہ سازوں کا مفروضہ اور خدشہ ہے تاہم چینی حکومت ہمیشہ اس کی تردید کرتی رہی ہے۔
اب ہو یہ رہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے تائیوانی حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنا دفاعی بجٹ بڑھائے اور اسے جی ڈی پی کے دس فیصد تک لے جائے۔ موجودہ دفاعی بجٹ ڈھائی فیصد کے قریب ہے۔ تائیوانی صدر نے اس میں اضافہ کا عندیہ دیا اور بتدریج اسے بڑھانے کی ٹھانی مگر اپوزیشن اتحاد نے دفاعی بجٹ میں اس اضافے کو منظور نہیں کیا اور کٹ لگا دیا۔ اپوزیشن کا خیال ہے کہ تائیوانی حکومت کو اسلحے پر اربوں ڈالر خرچے کرنے کے بجائے تائیوانی عوام کی مشکلات دور کرنی چاہئیں، مہنگائی کم کی جائے، مزید ملازمتیں پیدا ہوں اور عوام خوشحال ہوں۔ یوں سیاسی تنازع بڑھنے لگا اور تائیوانی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اپوزیشن کے چوبیس ارکان اسمبلی کے خلاف ‘ریکال’کی جائے۔ تائیوانی آئین میں ووٹرز کو یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ اگر چاہیں تو اپنے حلقے کے رکن اسمبلی کے خلاف ایک خاص تعداد میں دستخط کر دیں تو اس رکن اسمبلی کی سیٹ ختم ہوجائے گی اور وہاں پھر سے الیکشن ہوگا۔ تائیوانی حکومت کی کوشش تھی کہ اس طریقے سے اپوزیشن کی سیٹیں کم کی جائیں تاکہ حکومت کی اکثریت ہو جائے اور پھر امریکا کے کہنے پر جو بھی ترامیم یا بجٹ میں اضافے کرنے ہیں وہ کر لئے جائیں۔ اس حوالے سے ایک بڑی کمپین چلائی گئی جسے گریٹ ریکال کمپین کہا گیا۔ امریکی میڈیا اور امریکی این جی اوز وغیرہ نے کھل کر تائیوانی حکومت کی حمایت کی۔ بہت پروپیگنڈا کیا گیا۔ یہ پوری مہم اور کروڑوں ڈالر کے اشتہارات اور پروپیگنڈا وغیرہ بری طرح ناکام رہا۔ چوبیس کے چوبیس ارکان اسمبلی کے خلاف ریکال مہم ناکام ہوئی۔ کسی ایک کو بھی ہٹایا نہیں جا سکا بلکہ اپوزیشن ارکان اسمبلی کی عوامی سپورٹ میں اضافہ ہوا۔ تائیوانی حکومت کو شدید سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ عالمی سطح پر تاثر یہ گیا کہ تائیوان کے عوام میں چین کے لئے سپورٹ اور حمایت موجود ہے اور وہاں کے عوام کی اکثریت چین کے خلاف جانے اور امریکا پالیسیوں کی حمایت کرنے کو تیار نہیں۔
یہ بہت بڑی کامیابی ہے کیونکہ تائیوان چین کے لیے بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ فارن افئیرز جیسے اہم امریکی جریدے نے اس سیاسی پیش رفت کو بہت اہم قرار دیا ہے اور اسے امریکا کی ناکامی کہا۔ امریکی جریدے کے مطابق: ان نتائج کے تائیوان کی سیکیورٹی پر ممکنہ طور پر اہم اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ایک اہم سوال دفاعی اخراجات کے مستقبل کا ہے۔ صدر ٹرمپ نے عوامی طور پر تائیوان سے دفاعی اخراجات کو ڈھائی فیصد سے بڑھا کر جی ڈی پی کادس فیصد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جواب میں صدر لائی نے اس سال دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے تین فیصد تک بڑھانے اور اس میں مسلسل اضافہ کرنے کا وعدہ کیا۔ تاہم مونتانگ دفاعی بجٹ میں اضافے کو روک سکتی ہے۔ ایسی کوئی بھی کارروائی یو ایس تائیوان تعلقات کو سنگین طور پر نقصان پہنچا سکتی ہے کیونکہ یہ تاثر پیدا کرے گا کہ تائیوان اپنے دفاع کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ ایک کمزور اور زیادہ غیر محفوظ تائیوان چینی جارحیت کو بھی حوصلہ دے سکتا ہے۔
دوسری طرف لائی کی جنوری 2024ء میں انتخاب کے بعد متعدد ممتاز چینی اسکالروں نے اس بات سے سکون حاصل کرنے کی کوشش کی کہ لائی کو صرف چالیس فیصد ووٹ ملے تھے، یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ اس کے پاس عوامی حمایت نہیں تھی اور اگر دوسرے دونوں امیدوار ایک ہو جاتے تو وہ ہار جاتے۔ اگر حکمران جماعت نے ریکال کے ذریعے اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لی ہوتی تو بیجنگ ممکنہ طور پر ان مفروضوں پر نظرثانی کرتا اور نتیجہ اخذ کرتا کہ تائیوان کے ووٹرز اس سے مزید دور جارہے ہیں اور اپوزیشن جماعت مونتانگ ایک ایسی پارٹی ہے جو زوال کی طرف جا رہی ہے۔ تاہم اب بیجنگ کی طرف سے تائیوان پر دباؤ اور صدر لائی کو تنہا کرنے کی کوششیں تیز ہوسکتی ہیں۔ ریکال مہم کے نتائج لائی کو یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں کہ ووٹرزتائیوان کے لیے معتدل نقطہ نظر چاہتے ہیں۔ پچھلے ہفتے کے ریکال ووٹس ممکنہ طور پر اپوزیشن جماعت مونتانگ کو صدر لائی کے ایجنڈے کے خلاف مزاحمت کرنے کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ لائی کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی کرنی ہوگی اور تائیوان کے عوام کو یہ دکھانا ہوگا کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ مل کر جزیرے کو درپیش بڑے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں اور اس قابل ہیں۔