عرب حکمرانوں کی پستی کا سفر اور عالمی منظرنامہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ عرب ممالک سے جہاں امریکا نے تقریباً دو ہزار ارب ڈالر وصول کرلیے، وہیں عرب ممالک کے حکمرانوں نے مسلمانوں کے سر شرم سے جھکا دیے۔ عرب حکمرانوں کی پستی کی انتہا ہوگئی، جس طرح ٹرمپ کو خوش کرنے کے لیے اسلامی اور عرب اقدار کا جنازہ نکالا گیا، اس نے ثابت کر دیا کہ عرب حکمران اب اپنی اسلامی پہچان کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا، کہ یہ امن نہیں، یہ قبر کی تختی ہے، جس پر کندہ ہے: یہاں امتِ مسلمہ دفن ہے… وجہِ موت: معاہدہ ابراہیمی!۔

سعودی عرب سے لیکر قطر تک سب نے امریکی صدر کو اربوں ڈالر دے دیے لیکن غزہ کے لیے بات کرنے سے قاصر رہے، البتہ آنے والے دنوں میں امریکی فارمولے کے مطابق فلسطینی مسلمانوں کو دوسرے مقام پر لے جانے کے لیے شاید وہ فعال نظر آئیں۔ اطلاعات کے مطابق امریکا نے 10لاکھ فلسطینیوں کی لیبیا منتقلی کا منصوبہ بنایا ہے، امریکی میڈیا نے سابق امریکی عہدیدار کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ امریکا نے فلسطینیوں کی آباد کاری پر لیبیا کی قیادت سے تبادلہ خیال کیا ہے۔ بدلے میں ایک دہائی قبل منجمد کیے گئے لیبیا کے اربوں ڈالر بحال ہوں گے۔ ایک جانب عرب ممالک میں امریکی صدر کو خوش کرنے کے لیے عرب حکمران ہر حد سے گزر چکے ہیں، دوسری جانب فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں روزانہ سو سے ڈیڑھ سو فلسطینی شہید ہو رہے ہیں۔ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 3ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور 8ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، اسرائیلی اخبار کا کہنا ہے کہ غزہ پر اوسطاً ہر چار منٹ میں ایک فضائی حملہ ہو رہا ہے، اسرائیلی طیاروں نے یمن میں حدیدہ کی بندرگاہ اور حوثیوں کے زیر انتطام الصلیف کی بندرگاہ پر بمباری کی ہے۔

عالمی منظرنامے میں کئی اہم خبریں ہیں، روس یوکرین کے مذاکرات استنبول ترکی میں بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو چکے ہیں، جنگ کے بادل پاکستان و ہندوستان کے مابین بھی برقرار ہیں، امریکی طیاروں کی ہندوستان میں اسلحے کی لاجسٹک فراہم کرنے کی پروازیں جاری ہیں، تیسری جانب ہندوستان نے آنے والے سیزن میں فصلوں کے لئے پانی روکنے کے منصوبوں پر کام تیز کر دیا ہے، بھارت نے دریائے چناب کو بیاس اور راوی دریاؤں سے ملانے کے منصوبے پر کام تیز کر دیا ہے، تاکہ پاکستان کو پانی سے محروم کرنے کا اپنا مذموم منصوبہ مکمل کر سکے، بھارت دریائے چناب کو بیاس سے جوڑنے کے لیے جسپہ ڈیم کے ذریعے کام کر رہا ہے۔ اس منصوبے کے لیے بھارت کے 2011–2012 کے بجٹ میں فنڈز مختص کیے گئے تھے، جس کے تحت چناب کو سولنگ نالہ (جو راوی میں گرتا ہے) سے ملانے کے لیے 23کلو میٹر لمبی کنکریٹ سرنگ تعمیر کی جا رہی ہے جس سے پانی رنجیت ساگر ڈیم کی جانب موڑا جا سکے گا۔ چناب، جسے اکثر ”چاند کا دریا” بھی کہا جاتا ہے، ہماچل پردیش میں محض 130کلو میٹر کے رقبے پر بہتا ہے، جو کہ اس کے کل 61,000مربع کلو میٹر کے دریائی حوض کا صرف 7,500مربع کلو میٹر بنتا ہے۔ اس کے باوجود، ہماچل پردیش میں 49پن بجلی منصوبے تعمیر کیے جا رہے ہیں، جنہوں نے جنوبی ایشیا کے آخری نسبتاً آزاد دریا کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ بھارت پہلے ہی 9.7کلو میٹر طویل باگرو ناولے سرنگ مکمل کر چکا ہے، جو ملک کی سب سے بڑی آبی سرنگ ہے، اور 12,000فٹ بلند پہاڑوں میں 14.2کلو میٹر طویل زوجی لا سرنگ بھی آخری مراحل میں ہے ہندوستانی حملوں کا امکان مزید بڑھ گیا ہے، جنگ نئے مراحلے میں داخل ہونے جا رہی ہے۔

اسی طرح روس میں کازان فورم کا اختتام ہو چکا ہے جس میں متبادل راستوں کو فعال کرنے کی لیے معاہدے کئے گئے ہیں، روس کو ادراک ہے کہ آنے والے دنوں مہینوں میں جنگ سے کئی راستے بند ہوجائیں گے، جب کہ دنیا کو مغرب اور مشرق کے درمیان بڑھتے ہوئے تصادم کا سامنا ہے اور پرانے لاجسٹک روٹ کی روک تھام اور سیاسی لاجسٹک وزن کے تحت بحران، وسطی ایشیائی ممالک، چین، ایران اور ترکی ایک نئی زمینی شریان کی صف میں کھڑے ہیں جو یوریشیائی تجارت کا نقشہ بدلنے کے قابل ہے۔ یوکرین میں جنگ، روس پر دباؤ، بحیرہ احمر میں عدم استحکام یہ سب ممالک کو چین اور یورپ کے درمیان رابطے کے متبادل، مستحکم ذرائع تلاش کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ان راستوں میں سے ایک ٹرانس ایشین ریلوے کوریڈور ہے، جو قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان، ایران اور ترکی سے گزرتا ہے۔ اسی تناظر میں چند روز قبل 2025کو تہران نے ان چھ ممالک کے نمائندوں کے ایک اہم اجلاس کی میزبانی کی جن کے ریلوے نیٹ ورک اس راستے کو تشکیل دیتے ہیں۔ ہر ملک کو اندازہ ہے کہ جنگوں کا دائرہ وسیع ہونے جارہا ہے، کیا ہمارے حکمرانوں کو بھی اس کا اندازہ ہے اور کیا ہم بھی نئے عالمی منظرنامے کے لیے تیار ہیں؟