ایک بے خوف پاکستان!

سیز فائر تو 10 مئی شام ساڑھے چار بجے سے ہو چکا جو میزائل داغے گئے تھے اپنے ہدف پر پہنچ کر یا پہنچے بغیر تباہ ہو چکے لیکن پاکستانی میزائلوں کے بھوت بھارت نریندر مودی اور بھارتی فضائیہ کا تعاقب کئی سال تک کرتے رہیں گے۔ ان کے دامنوں میں لگی آگ کسی پانی سے بجھنے والی نہیں۔ بہت مدت بعد یہ نوبت آئی کہ انہیں اپنا چہرہ بچانا مشکل ہو رہا ہے۔

2019کے پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان نے ابھینندن کا طیارہ گر ا کر بھارت کیلئے رسوائی کا بہت بڑا سامان پیدا کر دیا تھا لیکن پاکستانی حکومت اور فوج کی جانب سے ابھینندن کو فوری واپس کر دینے کے فیصلے نے مودی کا چہرہ کچھ نہ کچھ بچا لیا تھا۔ بھارتی فضائیہ نے اس وقت یہ دعوی کیا تھا کہ ابھینندن نے اپنا طیارہ تباہ ہونے سے پہلے ایک ایف 16 گرایا تھا لیکن یہ دعوی جھوٹا ثابت ہو ا لبتہ بھارت نے یہ جھوٹ برقرار رکھا اور ابھینندن کو اس ”کارنامے” پر فوجی اعزاز سے بھی نوازا۔ یہ سب اپنی فیس سیونگ کی کوششیں تھیں جو مودی اور بھارتی فضائیہ نے 2019میں کی تھیں لیکن اب مئی 2025کے معرکوں میں انہیں فیس سیونگ بھی کہیں سے نہیں مل رہی۔ وہ اپنی سی کوششیں کر رہے ہیں۔ یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستانی ڈی جی ایم او نے بھارتی ڈی جی ایم او کو سیز فائر کی پیشکش کی جسے بھارت نے قبول کر لیا لیکن اپنی زخمی اور شکست خوردہ انا بچانے کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہو رہی۔ سی این این کو تفصیل بتاتے ہوئے معروف صحافی نِک روبرٹسن نے صاف صاف بتایا کہ 10 مئی کو پاکستان کے کثیر الجہت حملوں نے بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور انہوں نے خود امریکا سے سیز فائر کروانے کی درخواست کی۔ سعودی عرب ترکیہ اور ایران نے بھی کوششیں کیں لیکن اصل جنگ بندی امریکا اور ڈونلڈ ٹرمپ ہی نے کروائی۔

ذرا اس امکان پر غور کیجیے کہ پاکستان 10 مئی کو ایسی بھرپور کارروائیاں نہ کرتا جنہوں نے بھارتی فوج فضائیہ دفاعی نظام اور حکومت کو مفلوج کرکے رکھ دیا تھا تو کیا بھارت گھٹنے ٹیکتا؟ اگر پاکستانی فوج اور حکومت کا موقف اتنا ہی ڈھیلا ہوتا جیسا 2019میں تھا تو کیا پاکستان کو ایسی واضح فتح نصیب ہوتی؟ اگر پاکستان یہ عزم نہ کر لیتا کہ ہر بار کسی نہ کسی بہانے چڑھ دوڑنے کے بھارتی معمول کو اب ہر صورت ختم کر کے رہیں گے اور یہ نیا بیانیہ تہس نہس کریں گے تو کیا پاکستانی قوم اس طرح سڑکوں پر جشن منا رہی ہوتی؟ اگر پاکستان نے ایسی غیر معمولی قوتِ فیصلہ کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو کیا دنیا اس طرح پاکستان کو سراہ رہی ہوتی؟ کیا وزیراعظم ٹی وی پر آکر فتح کا اعلان کر رہے ہوتے؟ یہ سب کچھ ہو ہی نہیں سکتا تھا اگر پاکستان خوف کی حالت میں اپنے دشمن کی طرف دیکھ رہا ہوتا جو تعداد پیسے اثر ورسوخ اور جنگی طاقت کے لحاظ سے اس سے کئی گنا بڑا تھا۔ پاکستان خوف کی حالت سے نکل کر ہی دشمن پر کاری وار کر سکتا تھا سو وہ اس بار نکلا ہے اور ایسی کاری ضرب لگائی ہے جس کی دشمن کیا دنیا بھی توقع نہیں کر رہی تھی۔

ایک بار پھر طے ہو گیا کہ معاملہ ملکوں کے چھوٹے بڑے ہونے کا نہیں جنگی ساز وسامان کی زیادتی کا نہیں عالمی تعلقات کا نہیں معاشی طاقت کا نہیں حوصلے اور ہمت کا ہے۔ خوف کی کیفیت سے نکلنے کا ہے اور اپنے زورِ بازو پر بھروسہ رکھنے کا ہے۔ قرآن کریم نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے فیصلہ کر دیا تھا کہ بارہا ایسا ہوا ہے کہ اللہ کے اذن سے چھوٹا گروہ بڑے گروہ پر غالب آ گیا ہے۔ (البقرہ) کسی نے اس قرآنی بشارت کا مصداق دیکھنا ہو تو مئی 2025کا پاک بھارت معرکہ دیکھ لے۔ برسوں کے بعد پاکستانی قوم کو وہ خوشخبریاں ملی ہیں جن سے وہ پھر جی اٹھی ہے۔ کیا امیر کیا غریب کیا صنعتکار اور کیا کسان ہر پاکستانی میں اس جنگ نے وہ اعتماد بھرا ہے جس کی 1965کے بعد سے کمی تھی۔ پاکستان کو سالہا سال سے اس خبر کا انتظار تھا جو اسے بالآخر 10 مئی 2025نے دے دی۔ 28 مئی 1998کو ایٹمی دھماکوں کے اعلان کے ساتھ ایسی ہی خبر ملی تھی لیکن وہ خبر صرف اپنی حاصل کردہ ایٹمی صلاحیت کی تھی کسی جنگ کی نہیں۔ اس بار یہ خوشخبری ان اطلاعات کے ساتھ آئی ہے کہ پاکستان نے اپنے ازلی دشمن کو اس کے گھر میں گھس کر ایسا منہ توڑ جواب دیا جو اس کے لیے ناقابلِ فراموش رہے گی۔

صرف پاکستان ہی نہیں پوری مسلم دنیا اور پاکستان سے محبت کرنے والے سارے ملک خوشی سے نہال ہیں۔ عربوں کی طرف سے داد وتحسین وصول ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا عرب پوسٹوں اور کمنٹس سے بھرا ہوا ہے جس میں وہ پاکستان پاکستانی فوج اور فضائیہ کی بلائیں لے رہے ہیں۔ آذربائیجان اور ترکیہ انتہائی خوش ہیں اور اس حوالے سے بھرپور خبریں شامل کر رہے ہیں۔ مسلم بھائی چارے کے علاوہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آذربائیجان نے پاکستان سے جے ایف 17 بلاک تھری فائٹر جیٹ خریدے ہیں اور تربیت بھی لی ہے۔ یہ کارکردگی ان کیلئے بہت خوش کن ہے۔ ترکیہ کی خوشی کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس کے ”اسس گارڈ سونگر” (Asisguard Songar) ڈرون پاکستان نے بڑی تعداد میں کامیابی سے استعمال کیے۔ ایک اطلاع کے مطابق 400 ڈرون اس حملے میں استعمال ہوئے۔ چین تو سب سے زیادہ خوش ہے کہ اس کی میزائل ٹیکنالوجی اس کے طیارے اس کی سائبر طاقت پہلی بار کسی جنگ میں ایسے سامنے آئی کہ دنیا ششد رہ گئی۔ موجودہ اور مستقبل کی جنگوں کے یہ نئے پہلو بہت سے ملک تو سوچ بھی نہیں سکتے۔ چینی ٹیکنالوجی نے پاکستان کے ذریعے مغربی دنیا کے جنگی ساز وسامان طیاروں اور دفاعی نظام کو جس طرح پچھاڑا ہے وہ مغربی دنیا کیلئے ناقابل یقین ہے اور یہ فیصلہ ہو گیا کہ جنگی ساز وسامان کیلئے دو بڑی طاقتوں امریکا اور روس کا دور ختم ہوا۔ یورپ کا بنایا جانے والاجنگی سامان جو پہلے بھی محدود چیزوں پر مشتمل تھا پیچھے رہ گیا۔ اب چین کی برتری ہے۔

پاکستانی فضائیہ کو اس کے حق کے مطابق داد دینے کیلئے لفظ نہیں ہیں۔ خود پاکستانی بھی یہی سوچتے تھے اور اپنی فضائیہ پر ان کا اعتماد تھا کہ وہ پوری صلاحیتوں اور ساز وسامان سے لیس ہے لیکن ایسی بڑی کار کردگی اور ایسی ہمہ جہت صلاحیتوں کا بہت سے لوگوں کا ادراک ہرگز نہیں تھا۔ کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ پاک فضائیہ دشمن کو اس طرح جام کر کے مفلوج بنا سکتی ہے۔ بھارت پر سائبر حملہ اور ان کے اداروں کا کنٹرول حاصل کر لینا ایک ایسی جنگی جہت ہے جس کا پاکستانیوں کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ اس سے پہلے ہماری فضائیہ بھارت کے پانچ طیارے گرا کر بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ چکی تھی لیکن 10 مئی کے حملوں میں بھارت کے ایئر ڈیفنس اور جدید ترین میزائل اور طیارہ شکن نظام ایس 400 کو تباہ کر کے تو ایسا کارنامہ انجام دیا ہے کہ یقین نہیں آتا۔ اس کی تباہی کے بعد اس نظام میں ایک بڑا شگاف پیدا ہو چکا جہاں سے اب طیارے اور ڈرون بے خوف دشمن کی سرحد میں داخل ہو سکتے تھے۔

پاکستان نے کام کر دکھایا۔ کتنے سالوں کے بعد وہ مناظر دیکھنے کو ملے کہ عوام پاکستانی فوجیوں کو پھول پیش کر رہے ہیں ہار پہنا رہے ہیں اور ان کیلئے نعرے لگا رہے ہیں۔ ویسے تو تمام مسلح افواج خاص طور پر اگلے مورچوں کے جوانوں اور کاک پٹ میں موجود پائلٹوں کو بے پناہ داد سے نوازا جانا چاہیے لیکن سربراہ پاک فضائیہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل احمد شریف چودھری خاص طور پر دادِ کثیر کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں مثالیں قائم کیں۔ البتہ ایک نام ان سب ناموں میں سب سے سربلند ہے۔ پوری قوم اس کی احسان مند ہے۔ سب سے زیادہ داد کے حقدار ہمارے سپہ سالار جنرل عاصم منیر۔ جنرل صاحب! کمال کیا آپ نے کہ پاکستان کو قدرے ڈر کی کیفیت سے باہر نکال دیا۔ ایک بے خوف پاکستان آپ کو سلام پیش کرتا ہے۔