مصنوعی ذہانت اور علمِ الفرائض

علم الفرائض کی اہمیت
علم الفرائض یعنی علم میراث سے متعلق قرآن مجید اور احادیثِ مبارکہ میں واضح احکامات موجود ہیں۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ ”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہ! علم الفرائض سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ کیونکہ یہ نصف علم ہے اور اس کے مسائل لوگ جلدی بھول جاتے ہیں، یہ پہلی چیز ہوگی جسے میری امت سے اٹھایا جائے گا۔” آسان الفاظ میں مرنے والے کے چھوڑے ہوئے مال کو ترکہ کہتے ہیں اور علم الفرائض میں وارثین کے درمیان ترکہ کی تقسیم کے احکامات اور طریقہ کار بیان کیا جاتا ہے۔ نیز ورثاء کی اقسام، ورثاء کے حصوں کا تعین، مختلف صورتوں مثلاً لا پتا شخص کی میراث، مرتد کی میراث، قیدی کی میراث، ایک ساتھ مرنے والوں کی میراث، حمل کی میراث اور دیگر مسائل کا احاطہ کیا جاتا ہے۔

علم الفرائض کی اہمیت کی پیشِ نظر مدارسِ دینیہ میں اس موضوع کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ درسِ نظامی یعنی عالم کے کورس کے اندر طلبہ کرام ابتدائی درجات میں جب علم تفسیر، علم حدیث اور علم فقہ پڑھتے ہیں تو جزوی طور پر میراث کے مسائل بھی ان کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ پھر درس نظامی کے درجہ عالیہ میں ”سراجی” کتاب کو پڑھتے ہیں جو علمِ الفرائض کے موضوع پر ہے۔ درسِ نظامی سے فراغت کے بعد جب علمائے کرام تخصص فی الفقہ یعنی مفتی کا کورس کرتے ہیں تو میراث کے مسائل کی بطور خاص انہیں مشق کرائی جاتی ہے اور اس میں مناسخہ یعنی ”کسی مورث کے ترکے کی تقسیم سے قبل ایک یا کئی وارث فوت ہو جائیں اور ان فوت شدہ وارثوں کا حصہ ان کے وارثوں میں تقسیم کرنے کا عمل” جیسے پیچیدہ مسائل بھی شامل ہوتے ہیں۔ نیز علم فرائض کے مسائل کے حل کے لیے چونکہ ریاضی بھی کسی حد تک استعمال ہوتی ہے لہٰذا علمائے کرام اس پر بھی عبور رکھتے ہیں۔

علمِ الفرائض کی اہمیت کے پیشِ نظر صدیوں سے علمائے کرام اس فن کی خدمت کرتے آئے ہیں اور بلامبالغہ بیسیوں کتابیں ہمیں اس موضوع پر مل جاتی ہیں۔ نیز علمائے کرام نے اپنی زندگیاں کھپا کر اس فن کو سہل بنانے کی کوشش فرمائی ہے۔ فقہائے کرام کو خاص طور پر اللہ پاک جزائے خیر عطا فرمائے کہ جنہوں نے شریعت کی روشنی میں وراثت کے پیچیدہ مسائل بیان کیے اور آج ہمارے سامنے مختلف فتاوی و کتب کی شکل میں وہ عظیم الشان ذخیرہ موجود ہے جس میں ہرطرح کے وراثت کے مسائل کے جواب موجود ہیں۔

موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں اور موت چونکہ ہرشخص کو آنی ہے لہٰذا میراث کے مسائل سے ہر ایک عام و خاص کا واسطہ رہتا ہے۔ میراث کے مسائل کے سیکھنے کی ترغیب چونکہ احادیث میں وارد ہوئی ہے لہٰذا نوجوانوں کو بالخصوس اس علم الفرائض کو مستند علمائے کرام سے سیکھنا چاہیے۔ اسی بات کے پیشِ نظر عصری جامعات میں پڑھنے والوں سمیت انجینئر، وکلائ، ڈاکٹر اور تاجر حضرات کی استعداد کو سامنے رکھتے ہوئے حضرت مفتی محمد نعیم میمن صاحب دامت برکاتہم نے ایک مختصر مگر جامع کتاب بعنوان ”آسان احکامِ میراث” لکھی ہے جس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ یہ میراث کی کتاب سوال جواب کی صورت میں لکھی گئی ہے جو دینی مدارس کے طلبائے کرام اور عصری جامعات میں پڑھنے والوں دونوں کے لیے یکساں مفید ہے اور انٹرنیٹ پر بآسانی مفت مل جاتی ہے۔

علمِ الفرائض کی سند اور سینہ بہ سینہ منتقلی کے ذریعے حفاظت
علمائے کرام اور طلبائے دین نے اپنی زندگیاں وقف فرما کر علمِ الفرائض کو ”سینہ بہ سینہ منتقل” کر کے محفوظ فرمایا اور علمِ الفرائض کی حفاظت کے لیے ”سند” کا بھی اہتمام فرمایا۔ اسلام میں ”سند” اور ”سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی” کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ حضرت مولانا محمد اکمل جمال ژوبی صاحب سند کی تعریف اور اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”عام اصطلاح میں قول کی نسبت اپنے کہنے والے کی طرف کرنے کا نام اسناد ہے۔ حدیث کی اصطلاح میں سند سے مراد ہے راویوں کا وہ سلسلہ جو حدیث کے ابتدائی راوی سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تک پہنچتا ہے۔ مسلمانوں کے ہاں نہ صرف علمِ حدیث، بلکہ تمام علوم وفنون میں سند کی روایت رواج پذیر ہوگئی، چنانچہ تمام تفسیری روایات، سیرت ومغازی کا ہر ہر واقعہ، قرات کا ایک ایک طریق اور فقہ کا ایک ایک جزئیہ سند کے ساتھ محفوظ ہے اور یہ طرزِ عمل علومِ دینیہ کے ساتھ ہی خاص نہ رہا، بلکہ ادب، شعر، بلاغت، صرف، نحو اور لغت سب کی سندیں محفوظ ہیں۔ سند کی مذکورہ روایت صرف مسلمانوں کی خصوصیت ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو نوازا ہے، کسی اور قوم کے ہاں اس کا تصور بھی نہیں۔” (حوالہ: مولانا محمد اکمل جمال ژوبی، علمِ اسناد کا تعارف اور اس کی حقیقت! ماہنامہ بینات، دسمبر 2020)

علمائے کرام کے یہاں دیگر دینی علوم کے اندر بھی سند کو حاصل کرنے، محفوظ رکھنے اور آگے منتقل کرنے کا بہت اہتمام رہتا ہے اور علم الفرائض بھی اس سے مستَثنٰی نہیں۔ قارئین کے اطلاع کے لیے اسی سند اور اس کی نورانیت حاصل کرنے کے لیے ہمارے حضرت مفتی محمد نعیم میمن صاحب دامت برکاتہم نے یہ علمِ میراث مدینہ منوّرہ میں مسجد نبوی کے اندر مواجہہ شریف کے سامنے پہلی صف میں بیٹھ کر اپنے استاد محترم مولانا عبد القادر صاحب نوّر اللہ مرقدہ خلیفہ مجاز حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی سے سیکھا اور ابتدائی مسائلِ میراث کی کاپی انہوں نے ہی حضرت مفتی نعیم میمن صاحب دامت برکاتہم کو تحریر کروائی۔ یعنی آسان الفاظ میں حضرت مفتی محمد نعیم میمن صاحب دامت برکاتہم نے اپنے استاد محترم مولانا عبد القادر صاحب نوّر اللہ مرقدہ سے علم الفرائض کی سند حاصل کی جس کا سلسلہ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے۔ راقم قارئین اور بالخصوص نوجوانوں سے خصوصی گزارش کرے گا کہ اپنی دنیاوی تعلیم کے دوران ضرور علمائے کرام سے رابطے میں رہیں اور ان سے استفادہ کرتے رہیں اور اگر ممکن ہو تو دینی علوم کی سند حاصل کریں جس سے اصل نورانیت ملتی ہے۔

کیا مصنوعی ذہانت کی حامل مشینیں ”سند” اور ”سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی” کے متبادل ہو سکتی ہیں؟
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا مصنوعی ذہانت کے حامل کمپیوٹر (مشین) کی سند تسلیم کی جائے گی؟ کیا یہ مصنوعی ذہانت کے حامل کمپیوٹر (مشین) اور سافٹ وئیر سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی کے متبادل قرار دیے جاسکتے ہیں؟ جب بعض صاحبانِ علم مصنوعی ذہانت کے ذریعے دینی علوم اور بالخصوص علم الفرائض کی ترویج و اشاعت اور علم الفرائض کے مسائل کو مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر سے معلوم کرنے اور اسے استعمال کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تو یہاں پر ایک بنیادی خامی پیدا ہورہی ہے اور وہ یہ ہے کہ کمپیوٹر، مصنوعی ذہانت کے پروگرامز، روبوٹس اور دیگر الیکٹرانک آلات اپنی اصل اور حقیقت میں صرف ”مشین” ہیں اور مشین اشرف المخلوقات انسان کا متبادل ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتیں، لہٰذا اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت نے اتنی ترقی کرلی کہ وہ دینی علوم اور علم الفرائض سے متعلق صحیح رہنما ئی فراہم بھی کرنے لگے (جو کہ سائنسی و تکنیکی طور پر ممکن بھی نہیں) تو بھی مشین تو مشین ہی رہے گی اور ان مشینوں میں ”سند”، ”سینہ بہ سینہ” علوم کو منتقل کرنے کا عنصر، ”نورانیت”، ”تقویٰ”، اور ”للہیت” ہمیشہ عنقا ہی رہے گا جو کہ دینی علوم کی بنیاد اور خاصہ ہے، لہٰذا مصنوعی ذہانت کو دینی علوم اور بالخصوص علم الفرائض میں استعمال کرنے کی بنیاد ہی غلط ہے اور اس غلط بنیاد پر تعمیر کی گئی عمارت کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ (جاری ہے)