اسلام کا تصورِ جہاد

تیسری قسط:
٭ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں کفار مکہ کے خلاف پہلے بڑے معرکے کی قیادت بدر کے میدان میں کی اور قریش کو شکست دے کر شاندار کام یابی حاصل کی۔ یہ جنگ قریش مکہ کے ان عزائم پر ضرب لگانے کے لیے بپا ہوئی تھی جو وہ اسلام کو ختم کرنے اور جناب نبی اکرمۖ اور ان کی جماعت کو ناکام بنانے کے لیے اختیار کیے ہوئے تھے۔ اس کے بعد اْحد اور اَحزاب کی جنگیں بھی اسی پس منظر میں تھیں اور اس کشمکش کا خاتمہ اس وقت ہوا جب آپۖ نے ٨ھ میں خود پیش قدمی کر کے مکہ مکرمہ پر قبضہ کر لیا۔

٭ یہود مدینہ کے ساتھ آنحضرتۖ نے امن و امان کے ماحول میں وقت بسر کرنے کی کوشش کی لیکن یہودیوں کی سازشوں اور عہد شکنیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہ رہا تو آپۖ نے یہودیوں کے سب سے بڑے مرکز خیبر پر حملہ آور ہو کر اسے فتح کر لیا اور یہود کا زور توڑ دیا۔
٭ قیصر روم کے باج گزاروں نے مسلمانوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اور یہ خبر ملی کہ خود قیصر روم مدینہ منورہ پر حملہ کی تیاری کر رہا ہے تو جناب نبی اکرمۖ نے مدینہ منورہ میں اس کا انتظار کرنے کے بجائے شام کی سرحد کی طرف پیش قدمی کی اور تبوک میں ایک ماہ قیام کر کے رومی فوجوں کا انتظار کرنے کے بعد وہاں سے واپس تشریف لائے۔
یہ تو چند کھلی جنگیں ہیں جو علانیہ لڑی گئیں لیکن ان سے ہٹ کر ایسی متعدد کارروائیاں بھی سیرة النبیۖ کے ریکارڈ میں ملتی ہیں جنہیں چھاپہ مار کارروائیوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

٭ مدینہ منورہ کے ایک سازشی یہودی سردار کعب بن اشرف کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایما پر حضرت محمد بن مسلمہ اور ان کے رفقاء نے شب خون مار کر قتل کیا۔
٭ خیبر کے نواح کے ایک اور سازشی یہودی سردار ابو رافع کو جناب نبی اکرمۖ کے حکم پر حضرت عبد اللہ بن عتیک نے اسی قسم کی چھاپہ مار کارروائی کے ذریعے سے قتل کیا۔
٭ جناب نبی اکرمۖ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں یمن کے اسلامی صوبہ پر ایک مدعی نبوت اسود عنسی نے قبضہ کر کے آنحضرتۖ کے مقرر کردہ گورنر کو شہید کر دیا اور اسلامی ریاست کے عمال کو یمن چھوڑنے پر مجبور کر دیا تو آپۖ کے ایما پر حضرت فیروز دیلمی اور ان کے رفقاء نے چھاپہ مار کارروائی کر کے اسود عنسی کو رات کی تاریکی میں قتل کیا اور یمن پر اسلامی اقتدار کا پرچم دوبارہ لہرا دیا۔
٭ صلح حدیبیہ میں قریش مکہ کی بعض ناجائز اور یک طرفہ شرائط کے خلاف دباؤ ڈالنے کے لیے حضرت ابوبصیر اور حضرت ابوجندل نے سمندر کے کنارے ایک باقاعدہ چھاپہ مار کیمپ قائم کیا اور قریش کا شام کی طرف تجارت کا راستہ غیر محفوظ بنا دیا جس سے مجبور ہو کر قریش کو صلح حدیبیہ کے معاہدے میں شامل اپنی یک طرفہ شرائط واپس لینا پڑیں اور ابوبصیر کی چھاپہ مار کارروائیوں سے تنگ آکر قریش کو حضورۖ سے دوبارہ گفتگو کرنا پڑی۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان جنگ میں دشمن کے مقابلے کے ساتھ ساتھ میڈیا کے محاذ پر بھی کفار کے خلاف صف آرائی کی چنانچہ غزوہ احزاب کے بعد حضورۖ نے مدینہ منورہ کے ایک اجتماع میں باقاعدہ طور پر اس کا اعلان کیا کہ اب قریش مکہ کو مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونے کی جرات نہیں ہوگی لیکن اب وہ زبان کی جنگ لڑیں گے اور مسلمانوں کے خلاف پورے عرب میں پراپیگنڈے اور منافرت انگیزی کا بازار گرم کریں گے۔ آپۖ نے اس موقع پر شعر و خطابت سے تعلق رکھنے والے صحابہ کرام کو میدان میں آنے کی ترغیب دی چنانچہ حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبد اللہ بن رواحہ اور حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہم نے کھلے بندوں اعلان کر کے یہ محاذ سنبھالا اور شعر و شاعری کے محاذ پر کفار کے حملوں کا پوری جرأت کے ساتھ مقابلہ کیا۔

زیادہ تفصیلات کا موقع نہیں ہے لیکن ان گزارشات سے اتنی بات ضرور سامنے آ گئی ہوگی کہ جناب رسول اللہ نے اسلام کی سربلندی اور امت مسلمہ کے تحفظ و استحکام کے لیے موقع و محل کی مناسبت سے جنگ کی ہر ممکنہ صورت اختیار کی اور محاذ آرائی کے جس اسلوب نے بھی آنحضرتۖکے سامنے اپنا چیلنج رکھا، اسے جواب میں مایوسی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

آج کے حالات میں جہاد کے حوالے سے دو سوال عام طور پر کیے جاتے ہیں:
(١) ایک یہ کہ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمان مجاہدین کی چھاپہ مار کارروائیوں کی شرعی حیثیت کیا ہے اور کیا کسی علاقے میں جہاد کے لیے ایک اسلامی حکومت کا وجود اور اس کی اجازت ضروری نہیں ہے؟ اس کے جواب میں عرض کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں حضرت ابوبصیر کا کیمپ اور حضرت فیروز دیلمی کی چھاپہ مار کارروائی میں ہمارے سامنے واضح مثال کے طور پر موجود ہے۔ حضرت ابوبصیر نے اپنا کیمپ حضورۖ کی اجازت سے قائم نہیں کیا تھا لیکن جب یہ کیمپ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوا تو آپۖ نے نہ صرف اس کے نتائج کو قبول کیا بلکہ قریش کی طرف سے یک طرفہ شرائط سے دستبرداری کے بعد اس کیمپ کے مجاہدین کو باعزت طور پر واپس بلا لیا۔ اسی طرح یمن پر اسود عنسی کا غیر اسلامی اقتدار قائم ہونے کے بعد جناب نبی اکرمۖ نے مدینہ منورہ سے فوج بھیج کر لشکر کشی نہیں کی بلکہ یمن کے اندر مسلمانوں کو بغاوت کرنے کا حکم دیا اور اسی بغاوت کی عملی شکل وہ چھاپہ مار کارروائی تھی جس کے نتیجے میں اسود عنسی قتل ہوا۔ (جاری ہے)