پاکستان زندہ باد!

1985 میں امریکی سینیٹر لاری پریسلر نے امریکی سینٹ میں ایک ترمیم پیش کی جس میں کہا گیا کہ امریکی صدر ہر سال کانگریس کو یہ تحریری تصدیق دینے کا پابند ہوگا کہ ”پاکستان کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہیں اور وہ ان کی تیاری کی کوشش بھی نہیں کر رہا۔” 1990میں امریکی صدر بش سنیئر نے تصدیق کرنے سے انکار کر دیا اور یوں پاکستان پر امریکی پابندیوں کا اعلان کر دیا گیا۔ پاکستان کی تمام امداد معطل کر دی گئی اور پاکستان کو ایف سولہ کی قیمت ادا کرنے کے باوجود انکار کر دیا گیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب پاکستان نے خود انحصاری، عزتِ نفس اور نئی جہتوں کی تلاش کا عزم کیا۔ اس نے مشرق کی جانب دیکھا، چین کے ساتھ نئے دفاعی معاہدے کیے اور ایک ایسی فضائی و میزائل قوت کی بنیاد رکھی جس نے کل جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بدل کر رکھ دیا۔

بھارت کی جانب سے جارحیت کے جواب میں پاکستان نے جس تدبر، دانشمندی اور پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا اس نے نہ صرف بھارت کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملا دیا بلکہ عالمی برادری کو یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ریاست ہے جو امن کی خواہش رکھتی ہے لیکن جارحیت کی صورت میں اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ پاکستان کا یہ میچور ریسپانس محض دفاع ثابت نہیں ہوا بلکہ جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ پاکستان عالمی سطح پر ایک مہذب ریاست بن کر ابھرا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان کسی جذباتی ردعمل کے بجائے حکمت عملی اور وقار کے ساتھ آگے بڑھا۔ پاکستان کی یہ کامیابی محض ایک لمحاتی ردعمل نہیں تھی بلکہ کئی سالوں پر محیط ایک مدبرانہ دفاعی پالیسی کا نتیجہ تھی۔ پرسیلر ترمیم کے بعد جب پاکستان کے دفاعی سازوسامان کی فراہمی میں رکاوٹیں آئیں تو پاکستان نے نہ صرف ان مغربی طاقتوں سے ہاتھ کھینچا بلکہ اپنی فضائی دفاعی حکمت عملی میں ایک بڑی تبدیلی لاتے ہوئے چین کی طرف پیش قدمی کی۔ آج وہی فیصلہ پاکستان کی قوت کا مظہر بن کر سامنے آیا۔ فضائی ہتھیاروں میں خود انحصاری، چینی تعاون اور مقامی صلاحیتوں سے پاکستان نے جو دفاعی نظام تیار کیا اس نے دشمن کے عزائم کو خاک میں ملادیا۔

حالیہ مڈھ بھیڑ نے ثابت کر دیا کہ پاکستان اب فضائی دفاع کے حوالے سے امریکا، فرانس اور برطانیہ جیسے روایتی اتحادیوں کے رحم و کرم سے باہر نکل چکا ہے۔ ایک ایسا ملک جو کبھی مغربی طاقتوں پر دفاعی انحصار کرتا تھا آج ایک خودمختار عسکری قوت بن کر سامنے آیا ہے۔ پاکستان ایئر فورس جو پہلے ہی دنیا میں پروفیشنل ازم کے حوالے سے معروف تھی حالیہ مہم کے بعد مزید بلندیوں پر پہنچ چکی ہے۔ پاکستانی پائلٹس نے نہایت نپی تلی اور جرات مندانہ کارروائیوں کے ذریعے دنیا کو دکھا دیا ہے کہ پیشہ ورانہ مہارت، جدید تربیت اور اخلاقی نظم و ضبط کا امتزاج کیا ہوتا ہے۔ اس کامیابی نے نہ صرف بھارت کو چونکا دیا ہے بلکہ اس کے ساتھ کھڑے امریکا و اسرائیل کے گٹھ جوڑ کو بھی شدید جھٹکا لگا ہے۔ دوسری جانب چینی دفاعی مصنوعات جنہیں کبھی سستے متبادل کے طور پر دیکھا جاتا تھا اب عالمی ملٹری انڈسٹری میں نمایاں مقام حاصل کر چکی ہیں۔ دنیا یہ جان چکی ہے کہ چین اب صرف ایک تجارتی طاقت نہیں بلکہ ایک قابل اعتماد عسکری شراکت دار بھی ہے۔ اس کے برعکس بھارت کے ذریعے متعارف کروایا گیا روسی دفاعی نظام Sـ400جسے ناقابل شکست قرار دیا جا رہا تھا اپنی کارکردگی سے مایوس کن ثابت ہوا ہے۔

اس جنگ میں بھارت، امریکا اور اسرائیل کے دفاعی اتحاد کو شدید جھٹکا لگا ہے۔ اسرائیلی ٹیکنالوجی، امریکی آشیر آباد اور بھارتی اعتماد سب کے سب پاکستانی جواب کے سامنے ماند پڑ گئے ہیں۔ اسرائیل جو بھارت کے ساتھ دفاعی تعاون میں مصروف تھا اس ساری صورتحال میں ذلیل و رسوا ہوا ہے۔ دوسری طرف مشرقِ وسطیٰ کے عوامی حلقوں میں خوشی اور فخر کا ایک جذبہ پیدا ہوا جس سے واضح ہوا کہ یہ محض ایک عسکری کامیابی نہیں تھی بلکہ امت مسلمہ کے لیے ایک نفسیاتی تقویت بھی تھی۔ انڈیا اور اس کے اتحادیوں کی شکست کے نتیجے میں خطے کی علاقائی سیاست میں بھی بڑی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں گی۔ چین جو پہلے صرف اقتصادی طور پر جانا جاتا تھا اب ایک اسٹریٹجک اور عسکری طاقت کے طور پر بھی سامنے آئے گا۔ نیپال اور بنگلہ دیش جیسے ممالک جو پہلے بھارت کے زیرِ اثر تصور کیے جاتے تھے اب چین کی طرف مائل ہوں گے۔ چینی اثر ورسوخ کا یہ پھیلاؤ بھارت کے ”اکھنڈ بھارت” جیسے مذہبی اور جغرافیائی غلبے کے تصور کو نیست و نابود کرد ے گا۔ اس سارے تناظر میں پاکستان اور چین کے تعلقات مزید مضبوط ہو ں گے۔ خلیجی ریاستیں بھی نئی سوچ پر مجبور ہوں گی اور وہ پاکستان کو اب صرف ایک دفاعی اتحادی یا لیبر فراہم کرنے والے ملک کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک فیصلہ کن اسٹریٹجک قوت کے طور پر دیکھیں گی جو علاقائی استحکام میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ عسکری تصادم نے نہ صرف جنوبی ایشیا کی عسکری حرکیات کو تبدیل کر دیا ہے بلکہ طاقت، حکمت اور نظریاتی استقامت کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ پاکستان نے جس تدبر، حکمت عملی اور پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ دشمن کی جارحیت کا جواب دیا ہے وہ دنیا بھر کے عسکری و سیاسی ماہرین کے لیے حیران کن ہے۔ بھارت جو عددی برتری اور عالمی اتحادیوں کے زعم میں مبتلا تھا عملی میدان میں بری طرح ناکام ہوا ہے۔ اس کے جنگی ساز و سامان کی چمک دمک پاکستان کی غیر متزلزل قوتِ ارادی کے سامنے ماند پڑ گئی ہے۔ بھارتی طیاروں کی تباہی، پائلٹ کی گرفتاری اور بھارتی فضائیہ کی سبکی صرف ایک فوجی ناکامی نہیں بلکہ ایک نظریاتی پسپائی ہے۔ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن اب صرف اعداد و شمار یا اسلحے کی دوڑ کا نام نہیں رہا بلکہ حکمت، ذمہ داری اور قیادت کے انداز نے فیصلہ کن اہمیت اختیار کر لی ہے۔ پاکستان کا کردار ایک بالغ، خوددار اور نظریاتی ریاست کی علامت کے طور پر سامنے آیا ہے اور دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ امن کا خواہاں کون ہے اور خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے والا کون۔ پاکستان نے ثابت کر دیا کہ وہ نہ صرف دفاعی لحاظ سے مکمل طور پر خودمختار ہے بلکہ وہ جنوبی ایشیا میں طاقت کا ایک فیصلہ کن مرکز بھی ہے۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستانی صرف ایک ایٹمی قوت ہی نہیں بلکہ ایک زندہ، باوقار اور پرعزم قوم ہیں۔