دوسری قسط:
قرآن پاک کی ہی مثال لے لیجیے۔ کتنے ہی حفاظ آج موجود ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قرآن پاک براہ راست حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے سنا، زبانی یاد کیا اور پھر اسے سینہ بہ سینہ منتقل کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ آج بھی جاری ہے اور ان شاء اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔ الحمدللہ آج بھی ایسے حضرات موجود ہیں جنہوں نے اپنے استاد سے مختلف قراتوں میں قرآن پاک سیکھا اور سنایا، پھر انہوں نے اپنے استاد سے اور پھر یہ سلسلہ تبع تابعین، تابعین، صحابہ کرام سے لے کر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچتا ہے۔
قرآن پاک کی مختلف قرأت کی سند اور سینہ بہ سینہ منتقلی کے بارے میں حضرت مولانا قاری رحیم بخش صاحب پانی پتی نوراللہ مرقدہ کی کتب پڑھنے کے لائق ہیں جن میں حضرت میں مختلف قرآت کے بارے میں تفصیلی اسناد و احکام بیان فرمائے ہیں۔ اسی طریقے سے حضرت قاری اظہار احمد تھانوی رحمةاللہ علیہ نے ”شجرة الاساتذہ فی اسانید القرات العشر المتواترہ” میں تمام اسانید کا تذکرہ فرمایا ہے۔
اسی طریقے سے احادیث نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں بھی سند حدیث اور سینہ بہ سینہ احادیث کی منتقلی کو بہت اہمیت حاصل ہے اور اس کی ایک نظیر ”حدیثِ مسلسل بالاوّلیّة” بھی ہے۔ تاریخ دارالعلوم دیوبند کا مصنف علمائے دیوبند کا سلسلہ سند و استناد کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ”ہمارے آج کل کے اکابرین کا سلسلہ سند حدیث میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ سے ملتا ہے اور پھر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمت اللہ علیہ سے اوپر کا سلسلہ تمام مشہور و متداول کتب حدیث کے مصنفین کرام تک پہنچتا ہے اور پھر وہاں سے سندمتصل کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک جا ملتا ہے۔” (حوالہ: دارالعلوم دیوبند ویب سائٹ، علمائے دیوبند کا سلسلہ سند و استناد) حضرت مفتی کوثر علی سبحانی صاحب نے اپنی حالیہ کتاب ”الجوہر المفید فی تحقیق الاسانید یعنی تذکرہ محدثین اور ان کی سندیں” میں بڑی تفصیل کے ساتھ حدیث میں سند کے اہتمام کے تاریخ و دیگر تفصیلات کو قلمبند فرمایا ہے۔
دین میں اسناد کی اہمیت کے بارے میں حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم ارشاد فرماتے ہیں:
”حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اسناد تو دین کا حصہ ہے، اگر اسناد نہ ہوں تو جس کے جی میں جو آتا وہ کہہ گزرتا اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرلیتا۔ تو اللہ نے اس امت کے قلب پر یہ بات القا فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف ہر بات کو کسی سند سے مستند کریں اور بغیر اسناد کے کوئی بات معتبر نہیں، ورنہ اس سے پہلے جو امتیں گزری ہیں (یہود ونصاریٰ) وہ اپنے پیغمبر کی حدیث تو کجا وہ اللہ کے کلام کی سند بھی محفوظ نہ رکھ سکے، نہ تورات، نہ انجیل اور نہ زبور کی کوئی سند۔ چہ جائیکہ ان کے انبیائے کرام کے ارشادات اور تعلیمات کی سند کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یہ صرف امت محمدیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والی ہر بات سند کے ساتھ بیان ہوئی اور شروع میں یہ کہہ دیا گیا کہ ہم اس وقت تک نہیں مانیں گے جب تک سند نہیں بتاؤ گے”۔ (حوالہ: انعام الباری، دروس بخاری شریف، جلد اول)
دینی علوم میں سند کے ذریعے نورانیت کی منتقلی اور سند کی اہمیت کے پیشِ نظر حضرت مفتی رضاء الحق صاحب دامت برکاتہم (سابق استاذِ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن وحال شیخ الحدیث ورئیسِ دار الافتاء دار العلوم زکریا جنوبی افریقہ) کی تقریر سے ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے۔
”علماء لکھتے ہیں کہ ”حدیثِ مسلسل بالاوّلیّة” کے بہت سے فوائد ہیں، ان میں سے تین فوائد یہ ہیں:
١: ”حدیثِ مسلسل” میں انقطاع ختم ہو جاتا ہے، اس لیے کہ ہر ایک تلمیذ نے اپنے شیخ کی کیفیّت کو بیان کیا ہے۔
٢: ”حدیثِ مسلسل” میں اس امت کے حدیث کے ساتھ اہتمام کا ذکر ہے کہ یہ امت’ حدیث کا کتنا زیادہ اہتمام کرتی تھی کہ متن اور سند کو تو چھوڑیے، متن اور سند کے علاوہ سند کی کیفیّت کو بھی نقل کرتی تھی کہ اس سند کی کیا کیفیت ہے؟ تو اس میں اس امت کے حدیث کے ساتھ اہتمام کا ذکر ہے۔
٣: ”حدیثِ مسلسل” میں جو کیفیّت ہے، اس کیفیّت کی نورانیّت’ ناقل اور تلمیذ میں منتقل ہو جاتی ہے، اس لیے کہ وہ کیفیّت شیخ الشیخ سے شیخ کے پاس آئی، شیخ سے تلمیذ کے پاس آگئی اور تلمیذ سے پھر تلمیذ التلمیذ کے پاس آگئی، جیسے لائٹ میں اگر چہ کسی جگہ پر تار کا سلسلہ کمزور ہو، لیکن کمزور تار سے بھی لائٹ چل جائے گی، اسی طرح ہم تو بہت کمزور ہیں، لیکن ہمارے مشائخ تو بہت اونچے درجے کے لوگ تھے، تو انہی کے واسطے سے جو حدیث کی نورانیّت ہے، وہ بھی منتقل ہو جائے گی”۔ (حوالہ: حضرت مفتی رضاء الحق صاحب، فضائلِ علم، حدیثِ نیّت اور حدیثِ مسلسل بالاوّلیّت سے متعلق ایک پرمغز خطاب، ماہنامہ بینات، فروری 2021)
کیا مصنوعی ذہانت کی حامل مشینیں ”سند” اور ”سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی” کے متبادل ہو سکتی ہیں؟
بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا مصنوعی ذہانت کے حامل کمپیوٹر (مشین) کی سند تسلیم کی جائے گی؟ کیا یہ مصنوعی ذہانت کے حامل کمپیوٹر (مشین) اور سافٹ وئیر سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی کے متبادل قرار دیے جاسکتے ہیں؟ جب بعض صاحبانِ علم مصنوعی ذہانت کے ذریعے مختلف دینی علوم کی ترویج و اشاعت اور دینی مسائل کو مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر سے معلوم کرنے اور اسے استعمال کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تو یہاں پر ایک بنیادی خامی پیدا ہورہی ہے اور وہ یہ ہے کہ کمپیوٹر، مصنوعی ذہانت کے پروگرامز، روبوٹس اور دیگر الیکٹرانک آلات اپنی اصل اور حقیقت میں صرف ”مشین” ہیں اور مشین اشرف المخلوقات انسان کا متبادل ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتیں، لہٰذا اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ مستقبل میں مصنوعی ذہانت نے اتنی ترقی کرلی کہ وہ دینی علوم سے متعلق صحیح رہنما ئی فراہم بھی کرنے لگے (جو سائنسی و تکنیکی طور پر ممکن بھی نہیں) تو بھی مشین تو مشین ہی رہے گی اور ان مشینوں میں ”سند”، ”سینہ بہ سینہ” علوم کو منتقل کرنے کا عنصر، ”نورانیت”، ”تقویٰ”، اور ”للہیت” ہمیشہ عنقا ہی رہے گا جو کہ دینی علوم کی بنیاد اور خاصہ ہے، لہٰذا مصنوعی ذہانت کو دینی علوم میں استعمال کرنے کی بنیاد ہی غلط ہے اور اس غلط بنیاد پر تعمیر کی گئی عمارت کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔
ٹیکنالوجی، جدیدیت، اور مصنوعی ذہانت سے حد درجہ متاثر صاحبانِ علم اور بہی خواہانِ امتِ مسلمہ سے ہم دردِ دل سے گزارش کرتے ہیں کہ خدارا دینی علوم میں مصنوعی ذہانت کو استعمال کرنے کو فروغ دینے سے احتراز فرمائیے، اس سے گمراہی اور ضلالت کے نئے دروازے کھل رہے ہیں اور خدانخواستہ مزید گمراہی کے راستے کھلیں گے۔ آپ صاحبانِ علم تو علوم نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اصل وارثین ہیں، جب آپ ہی ”سند”، ”سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی”، ”نورانیت”، ”تقویٰ”، اور ”للہیت” کی ترغیب و عمل کے بجائے مادیت اور مشینوں کے دینی علوم میں استعمال و انحصار کی ترغیب دیں گے تو عام مسلمان کس طرف دیکھیں؟ (جاری ہے)