مصنوعی ذہانت ، اسناد اور سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی

مصنوعی ذہانت کے شعبے نے پچھلی کچھ دہائیوں میں بہت پیشرفت کی ہے اور اس شعبے کے انسانی معاشرے پر پڑنے والے اثرات کی وجہ سے تقریباً ہر شعبہ زندگی میں اس کا استعمال عام ہوتا جارہا ہے۔ گو مصنوعی ذہانت کمپیوٹر سائنس کا شعبہ ہے مگر چونکہ یہ اتنا وسیع ہوچکا ہے کہ ہر جگہ اس کا استعمال ہورہا ہے لہٰذا اس کی شاخیں اور استعمال تقریباً تمام سائنسی شعبوں جیسے الیکٹرونکس، الیکٹریکل انجینئرنگ، ڈیٹا سائنس، مکینیکل انجینئرنگ، روبوٹکس، طبیعات، بائیولوجی، فلکیات، حساب اور کیمسٹری وغیرہ میں ہورہا ہے۔

سیٹلائٹ کے ذریعے گندم کی فی ایکڑ پیداوار کا تخمینہ لگانا ہو یا بغیر ڈرائیور کے چلنے والی گاڑیاں SelfـDriving Car ، کینسر کی تشخیص ہو یا پھر گھریلو کام کاج میں معاونت، غرض مصنوعی ذہانت کے ان گنت استعمال ہورہے ہیں۔مصنوعی ذہانت اور خاص طور پر ایل ایل ایم (چیٹ جی پی ٹی وغیرہ) کے حوالے سے یہ بات پیش کی جارہی ہے کہ ایل ایل ایم کے ذریعے پوری دنیا کے ڈیٹا (مواد) تک رسائی ہوگئی ہے اور اس سے وہ چیزیں وجود میں آرہی ہیں کہ انسانی عقل دنگ ہے۔

کمپیوٹر سائنس کے ماہرین کو مصنوعی ذہانت کی خامیوں اور حدود و قیود کا بخوبی علم ہے۔ مصنوعی ذہانت کے عالمی ماہرین ، سائنسدان و محققین جانتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت میں حقیقی طور پر کتنی ”ذہانت” موجود ہے، لہٰذا سنجیدہ عالمی مستند سائنسدان مصنوعی ذہانت سے متعلق بہت ہی واضح موقف رکھتے ہیں۔ مسئلہ جب سے شروع ہوا ہے کہ جب عالمی سرمایہ کاروں نے اپنی ٹیکنالوجیکل کمپنیوں کے ذریعے اپنے سرمائے کا بڑھانے کے لیے مصنوعی ذہانت کے غبارے میں بے تحاشہ ہوا بھری ہے اور عالمی ریگولیٹری اداروں اور حکومتوں پر اثر انداز ہوکر اس کو وسیع پیمانے پر رائج کرنے کی کوششیں شروع کرچکے ہیں۔ عالمی سرمایہ کاروں، حکومتوں اور ٹیکنالوجیکل کمپنیوں کی اتنی وسیع سرمایہ کاری کی وجہ سے ہر طرف مصنوعی ذہانت کے چرچے ہیں اور عوام الناس کے سامنے سے مخلص ومستند عالمی سائنسدانوں و محققین کی سائنسی تحقیقات اور مصنوعی ذہانت کی خامیاں اور حدود و قیود اوجھل ہوتے جارہے ہیں۔خلاصہ کلام یہ کہ مصنوعی ذہانت کی رسی اب عالمی معیشت پر کنٹرول کرنے والوں کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس وسیع و عریض پروپیگنڈے کے پیچھے کارفرما ہیں۔

بطور کمپیوٹر سائنسدان ، راقم پچھلے ربع صدی سے کسی حد تک مصنوعی ذہانت کو خود سیکھنے، اس کی تدریس اور سائنسی تحقیق سے وابستہ رہا ہے۔راقم کی مصنوعی ذہانت پر گراں قدر سائنسی تحقیقات موجود ہیں جو عالمی معیار کے سائنسی جرائد میں شائع ہوچکی ہیں۔اب سے دس بارہ سال پہلے راقم کی زیرِ نگرانی طلبہ نے مصنوعی ذہانت کے موضوع پر سائنسی تحقیقات شروع کیں اور مصنوعی ذہانت کو کینسر کے علاج سے لے کر مختلف بیماریوں اورزندگی کے مختلف شعبوں میں استعمال کیا تاکہ اس سے انسانیت کو فائدہ پہنچے۔

ابھی حال ہی میں بندہ کی زیرِ نگرانی ایک پاکستانی طالب علم کو آئرلینڈ کے لیرو سینٹر کی جانب سے ”لیرو ڈائرکٹر پرائز 2024 پی ایچ ڈی/پوسٹ ڈاکٹریٹ” تفویض کیا گیا ہے اور اس کے پی ایچ ڈی کے سائنسی تحقیقی کام کو سراہا گیا ہے۔ لیرو ریسرچ سینٹر آئرلینڈ میں موجود ایک عالمی معیار کا ریسرچ سینٹر ہے اور اس کا شمار کمپیوٹر سافٹ وئیر کے شعبے میں دنیا کے بہترین ریسرچ سینٹرز میں ہوتا ہے۔ اس طالب علم کی پی ایچ ڈی کی تحقیق ”مصنوعی ذہانت” کے موضوع پر ہے، بالخصوص کس طریقے سے ”جنریٹیو مصنوعی ذہانت” کو ”میڈیکل سائنس” کے شعبے میں مختلف بیماریوں مثلا کووڈ اور دیگر بیماریوں کی تشخیص میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔اسی طریقے سے راقم کمیونی کیشن نیٹ ورکس میں مصنوعی ذہانت سے جڑی سائنسی تحقیق میں بھی پچھلے کئی سالوں سے مصروف رہا ہے۔

یہ کچھ تفصیلات قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ راقم خود مصنوعی ذہانت پر عالمی معیار کی مستند سائنسی تحقیق کرتا آرہا ہے اور اس کو انسانیت کی فلاح و بہود کے لیے استعمال کیا ہے، البتہ راقم کو تشویش تب سے شروع ہوئی ہے جب سے یہ کوششیں ہورہی ہیں کہ مدارسِ دینیہ کے اندر کمپیوٹر اور مصنوعی ذہانت کو اس حد تک رواج دیا جائے کہ خود مفتیانِ کرام ہی دین کے مسائل کا حل کمپیوٹر سے پوچھیں۔ نیز اس موضوع پر سوشل میڈیا پر بعض صاحبانِ علم کی جانب سے کئی پوڈ کاسٹ بھی کی گئی ہیں اور کہا گیا ہے کہ آنے والا زمانہ ٹیکنالوجی کا ہے اور ”لوگوں کا سب سے بڑا عالم چیٹ جی پی ٹی ہوگا۔” یعنی بعض صاحبانِ علم کی جانب سے یہ ترغیب دی جارہی ہے کہ مدارس ِ دینیہ میں پڑھنے والے طالب علم حضرات علمِ الفقہ سے متعلق سوالات مصنوعی ذہانت کے پروگرامز مثلاً چیٹ جی پی ٹی وغیرہ سے پوچھیں۔مدارسِ دینیہ کے طلبائے کرام کو یہ ترغیب دی جارہی ہے کہ وارثت کے مسائل کی تخریج ہو یا قرآن پاک کی کسی آیت کی تفسیر، حدیث کا متن تلاش کرنا ہو یا کسی فقہی عبارت کا خلاصہ بیان کرنا، غرض یہ تمام کام مصنوعی ذہانت کے سافٹ وئیر مثلاً چیٹ جی پی ٹی سے کرلیا جائے۔حتیٰ کہ اگر جمعہ کا خطبہ تیار کرنا ہے تو اس کے لیے موضوع کا انتخاب اور اس پر دینی مواد کا حصول چیٹ جی پی ٹی کے ذریعے کرلیا جائے۔یعنی مصنوعی ذہانت کے پروگرام چیٹ جی پی ٹی سے کہا جائے کہ ہمیں دو صفحات کا ایک خطبہ مہیا کرے جس میں دو قرآنی آیات، تین احادیث اور دو صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے اقوال کی روشنی میں عورتوں میں وراثت کی تقسیم کی اہمیت پر بات کی گئی ہو۔ اب تو قرآن پاک کی تفسیر و ترجمہ بھی مصنوعی ذہانت کے مدد سے کیا جارہا ہے، لہٰذا بحیثیت کمپیوٹر سائنسدان راقم یہ اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے کہ اس موضوع پر تکنیکی تفصیلات آسان الفاظ میں اہلِ علم حضرات کی خدمت میں پیش کرے تاکہ مصنوعی ذہانت کے مدارسِ دینیہ اور دینی علوم میں استعمال سے پیدا ہونے والے فتنوں کا بروقت تدارک ہوسکے۔

اس ضمن میں ابتدائی طور پر اس مضمون کے ذریعے کچھ بنیادی سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی جائے گی۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا مصنوعی ذہانت کے پروگرامز کو علومِ وحی کے سمجھنے، سیکھنے سکھانے اور ترویج و اشاعت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے یا جو ”خیر القرون” میں طریقہ کار اختیار کیے گئے ہیں، یعنی ”سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی” اور ”سند”، انہی پر انحصار اور انہی کے ذریعے دینی علوم کو اگلی نسل تک منتقل کرنا چاہیے؟ کیا مصنوعی ذہانت کے حامل کمپیوٹر (مشین) کی سند تسلیم کی جائے گی؟ کیا مصنوعی ذہانت کے حامل کمپیوٹر (مشین) اور سافٹ وئیر سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی کے متبادل قرار دیے جاسکتے ہیں؟

اسلام میں سند اور سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی کی اہمیت
اسلام میں ”سند” اور ”سینہ بہ سینہ علوم کی منتقلی” کو خاص اہمیت حاصل ہے۔حضرت مولانا محمد اکمل جمال ژوبی صاحب سند کی تعریف اور اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”عام اصطلاح میں قول کی نسبت اپنے کہنے والے کی طرف کرنے کا نام اسناد ہے۔حدیث کی اصطلاح میں سند سے مراد ہے راویوں کا وہ سلسلہ جو حدیث کے ابتدائی راوی سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تک پہنچتا ہے۔مسلمانوں کے ہاں نہ صرف علمِ حدیث، بلکہ تمام علوم وفنون میں سندکی روایت رواج پذیر ہوگئی، چنانچہ تمام تفسیری روایات، سیرت ومغازی کا ہر ہر واقعہ، قرات کا ایک ایک طریق اور فقہ کا ایک ایک جزئیہ سند کے ساتھ محفوظ ہے اور یہ طرزِ عمل علومِ دینیہ کے ساتھ ہی خاص نہ رہا، بلکہ ادب، شعر، بلاغت، صرف، نحو اور لغت سب کی سندیں محفوظ ہیں۔ سند کی مذکورہ روایت صرف مسلمانوں کی خصوصیت ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو نوازا ہے، کسی اور قوم کے ہاں اس کا تصور بھی نہیں”۔(حوالہ: مولانا محمد اکمل جمال ژوبی، علمِ اسناد کا تعارف اور اْس کی حقیقت! ماہنامہ بینات، دسمبر 2020ئ) (جاری ہے)