جیسے ہی سال 2025ء کا آغاز ہوا تھا۔ نئے امریکی صدر ٹرمپ کے دور کے آغاز کے ساتھ ہی چین اور امریکا کے درمیان تجارتی جنگ چھڑ گئی۔ دنیا کے تقریباً تمام ملکوں سوائے اسرائیل وبرطانیہ وغیرہ ٹیرف میں غیرمعمولی اضافہ کردیا گیا، اس کے ساتھ ہی عالمی تجارت میں سستی روی کی ابتداء کے باعث چونکہ صنعتی سرگرمیاں کم ہو رہی تھیں لہٰذا عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں کمی ہونا شروع ہوگئی۔ اپریل کے آغاز میں خام تیل 75ڈالر سے گر کر مئی شروع ہونے پر 60ڈالر فی بیرل تک گر چکا تھا۔ عالمی بینک نے ایک رپورٹ میں بتایا کہ 2025ء میں توانائی کی قیمتیں 12فیصد اور 2026ء میں 5فیصد مزید کمی کے امکانات پائے جا رہے ہیں۔ اگرچہ جون 2025ء میں عالمی قیمت میں مزید کمی ہوسکتی ہے لہٰذا مئی میں صرف 2روپے کمی کرکے یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عالمی مارکیٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے تیل کی قیمت میں مزید کمی کے امکانات ہیں۔
اپریل سے مئی تک 20فیصد کمی ہوئی تھی اور بہت سے جائزے بتا رہے ہیں کہ قیمت میں معمولی کمی یعنی دو سے تین ڈالر جون میں کچھ کم یا زیادہ ہوسکتی ہے، لہٰذا حکومت کے پاس معمول جواز رہے گا اور وہ بھی پیٹرول کی قیمت میں پھر سے مزید دو روپے کمی کا اعلان کر دیں گے۔ البتہ دیگر ایسے حالات رونما ہوسکتے ہیں جس سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ اول پاک بھارت جنگ کے خدشات ہیں، پھر امریکا کی حوثیوں پر حملوں میں شدت پایا جانا۔ اس کے ساتھ ساتھ سعود عرب جس نے تیل کی پیداوار میں اضافہ کیا ہے، اس میں کمی بھی کرسکتا ہے۔ کچھ ایسے امریکی اقدامات جس کے جواب میں امریکا اور چین ٹیرف کی جنگ مزید گرم ہوسکتی ہے اور تیل کی قیمت میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس میں ڈالر کی قدر کا بھی ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ سب باتیں عالمی معیشت کے لیے تو ہیں لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ 15ڈالر فی بیرل یا تیل کی عالمی قیمت میں 20فیصد کمی کے باوجود پاکستانی عوام نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
آئیے اعداد وشمار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگاتے ہیں۔ پچھلے ماہ 75ڈالر اور اب 60ڈالر فی بیرل اس طرح عالمی ریٹ میں 20فیصد کمی ہوئی۔ اپریل میں پیٹرول فی لیٹر تقریباً 255روپے فی لٹر تھی۔ اب اگر اس قیمت میں سے 20فیصد کمی کا حساب کتاب کرتے ہیں تو سمجھیں کہ تقریباً 50روپے فی لیٹر کی کمی ہونی چاہیے تھی۔ نئی قیمت جو 252روپے مقرر کی گئی، اس میں کمی کرکے حکومت 20روپے نہیں تو 224روپے ہی کر دیتی۔ گویا عالمی منڈی میں 20فیصد ریلیف ملا اور حکومت نے ایک فیصد سے بھی کم ریلیف عوام کو پہنچایا۔ اوگرا نے قیمتوں کا جائزہ لیا۔ حکومت نے بھی عالمی قیمت کو دیکھتے ہوئے کہنا شروع کردیا تھا کہ عوام کو بڑا ریلیف ملے گا، لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ شاید پس پردہ بات کچھ اور بھی تھی۔ حکومت تو عوام کو بڑا ریلیف دینا چاہ رہی تھی لیکن آئی ایم ایف بھی حکومت کا خیرخواہ نکلا۔ ہوسکتا ہے کہ اسی کو دیکھتے ہوئے حکومت پیچھے ہٹ گئی اور صرف 2روپے کا ریلیف فراہم کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی تنقید طنز ومزاح سے بھرپور بیانیے اور تبصرے کیے جا رہے ہیں لیکن کچھ دنوں میں عوام ان باتوں کو بھول جائیں گے۔
ان دنوں ضرورت اس بات کی تھی کہ پاکستان میں تیل کی قیمت کو کم ازکم 12سے 15فیصد کم کردیا جاتا کیونکہ ان دنوں ایک طرف اسٹاک ایکسچینج میں مندی کا رجحان ہے۔ سونے کی قیمت میں اضافے کا رجحان ہے۔ عالمی معیشت وسیاست میں انڈیا کے رویوں کی وجہ سے پاکستان پر اس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ عالمی کساد بازاری اپنے مضر اثرات سے پاکستانی معیشت کو بھی گھائل کر رہی ہے۔ امریکا ایران معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں عالمی معیشت وسیاست میں اچھا خاصا بھونچال آئے گا۔ اسرائیل کی سفاکیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں مویشی منڈیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ اگرچہ یہ امر زیادہ اثرانداز تو نہیں ہوگا لیکن بقر عید کے موقع پر میں نے دیکھا کہ کئی افراد یعنی 7افراد تک مل کر جانور خرید لیتے ہیں تو سب سے اہم مسئلہ مہنگے ٹرانسپورٹ کا ہوتا ہے اور ہزاروں روپے کرایہ وصول کیا جاتا ہے۔ اگر پیٹرول، ڈیزل کی قیمت میں اچھی خاصی کمی ہو جاتی جس کی گنجائش بھی موجود ہے تو ایسی صورت میں کرایوں میں کمی ہوتی، بقر عید کے موقع پر گھر جانے والے مسافروں پر زیادہ بوجھ نہیں پڑتا۔
ان دنوں ملک میں جو صورت حال رونما ہے۔ اس کے لیے ہم سب کو دعا کرنے کی ضرورت ہے، اپنے ملک کیلئے دعا کریں۔غزہ کے مسلمانوں کی امداد کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کی امدادی سرگرمیوں کے علاوہ پاک ایڈ ویلفیئر ٹرسٹ نے غزہ کے لیے فوری اور ترجیحی منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔ ہمیں ان دونوں تنظیموں کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بقر عید سے قبل پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں زیادہ کمی کرکے عوام کو ریلیف مہیا کرے، تاکہ ملک میں کرایوں میں کمی کے ساتھ مہنگائی میں کمی بھی ممکن ہو۔