دوسری قسط:
ایک بات اور شامل کرنا چاہوں گا کہ اِس وقت کشمیر میں بیٹھا ہوا ہوں۔ پاکستان کی جغرافیائی تکمیل کشمیر کے بغیر ممکن نہیں ہے اور آزادیٔ کشمیر کی تحریک کیا تھی، آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ نیلابٹ سے جو جہاد شروع ہوا تھا جس میں سردار عبد القیوم خان تھے، سردار ابراہیم تھے، مولانا غلام حیدر صاحب تھے، سردار سکندر حیات تھے، سردار اسلم تھے اور بڑے بڑے لوگ تھے۔ کیا یہ جہاد صرف آزادی کے لیے تھا یا نفاذِ اسلام بھی اس کا حصہ تھا؟ اس وقت دو باتیں کہی گئی تھیں؛ ایک اسلام کے نفاذ کی بات تھی اور دوسری پاکستان کے ساتھ الحاق کا وعدہ کیا گیا تھا۔
پاکستان کے قیام سے یہ باتیں شروع ہوئیں لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔ اس میں کیا رکاوٹیں پیش آئیں؟ مثلاً: سب سے بڑی رکاوٹ جس کا ابھی ایک بزرگ ذکر فرما رہے تھے کہ مولویوں پر یہ الزام ہے کہ یہ اکٹھے نہیں ہوتے۔ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ یہ ایک بڑا جھوٹ ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں نفاذِ اسلام کی دستوری و قانونی جدوجہد کے حوالے سے کیونکہ تمام مکاتبِ فکر کا اس پر اتفاق ہے۔ میرا سوال ہے کہ کیا قراردادِ مقاصد کسی ایک مکتبِ فکر نے منظور کی تھی؟ اکتیس علماء کرام کے بائیس نکات مرتب کرنے میں تمام مکاتب فکر کے علماء شامل تھے، جن میں حضرت مولانا سلیمان ندوی تھے، حضرت مولانا شمس الحق افغانی تھے، حضرت مولانا داؤد غزنوی تھے، حضرت مولانا عبد الحامد بدایونی تھے، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تھے، حافظ کفایت حسین تھے، مفتی جعفر حسین تھے، پیر صاحب آف مانکی شریف تھے، پیر صاحب آف سرہندی مجددی، پیر ہاشم صاحب تھے رحمہم اللہ تعالیٰ۔ کسی مکتبِ فکر کی قیادت پیچھے نہیں تھی۔
اور وہ بائیس نکات آج بھی قائم ہیں۔ آج تک چاروں’ پانچوں مکاتب فکر میں سے کسی ایک نے بھی اس سے اختلاف نہیں کیا۔ ملی مجلسِ شرعی پاکستان ایک مشترکہ فورم ہے جس میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء ہیں۔ حضرت مولانا مفتی محمد خان قادری اور مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید اس کے بانیان میں سے تھے۔ اس وقت اس کی صدارت میرے ذمے ہے، چند سال پہلے پورے ملک کے تمام مکاتب فکر کی قیادتیں اکٹھی ہوئیں اور انہوں نے اعلان کیا کہ ہم آج بھی ان بائیس نکات پر متفق ہیں۔ اسی طرح تحریکِ ختمِ نبوت کی تین بڑی تحریکیں ہیں؛ 1953ء میں، 1974ء میں 1984ء میں۔ مسلمانوں کا مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا جائے، اس میں بھی تمام مکاتبِ فکر اکٹھے تھے۔ باہمی اختلافات اپنی جگہ ہیں لیکن قومی و ملی معاملات کے ہر موقع اور ضرورت پر ہم اکٹھے ہوتے ہیں اور اتفاق کا اظہار کرتے ہیں، مگر یہ جھوٹ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہا کہ مولوی اکٹھے نہیں ہیں۔ کیا ہم سود کے مسئلے پر اکٹھے نہیں ہیں، کراچی کا کنونشن آپ کو یاد ہو گا۔ کیا فلسطین کے مسئلے پر اسلام آباد میں سب نے اکٹھے ہو کر اتفاقی موقف نہیں دیا۔ الحمدللہ! ہمارے ہاں گوجرانوالہ میں مقامی سطح پر بھی یہ ماحول ہے کہ ہم ہر موقع پر اکٹھے ہوتے ہیں اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
پھر اِسلام کے نفاذ میں کیا رکاوٹ ہے؟ اس پر عرض ہے کہ اس کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تو ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے جو اسلامی نظام کے ماحول میں نہیں جانا چاہتی۔ اس کے بعد میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری صاحب کے ریمارکس کا ذکر کروں گا جو انہوں نے ایک کیس میں دیے تھے کہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے جس کا واحد حل گڈ گورننس ہے اور اس گڈ گورننس کے لیے ہمیں حضرت عمر کے دروازے پر جانا ہو گا۔ میں نے اس پر لکھا تھا کہ جناب آپ کی تینوں باتیں ٹھیک ہیں لیکن میرے دو سوال ہیں: (١) کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ حضرت عمر کی گڈگورننس کے ماحول میں جانے کے لیے تیار ہے؟ (٢) اور حضرت عمر کی گڈ گورننس کی تعلیم ہمیں کہاں سے ملے گی، کیونکہ ہم تو کسی کالج اور یونیورسٹی میں حضرت عمر کی گڈ گورننس پڑھانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔
اِس کے ساتھ ایک اور رکاوٹ کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ یہ جو بین الاقوامی معاہدات ہم نے کر رکھے ہیں، اقوام متحدہ کا منشور ہے، جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن ہے اور یورپی یونین کے مطابق ستائیس معاہدات ہیں جن پر ہمارے لیے پابندی کرنا لازمی ہے اور ہماری اسٹیبلشمنٹ کا حال یہ ہے وہ درمیان میں سینڈوچ بنی ہوئی ہے۔ اوپر سے آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، یورپی یونین، یونائیٹڈ نیشنز کا دباؤ آتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم معاہدات پر عملدرآمد کروائیں گے۔ ادھر سے عوامی دباؤ آتا ہے تو رک جاتے ہیں اور تسلی دیتے ہیں کہ ہم نہیں کر رہے۔ ہم اس مخمصے میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ہم نے قرآن و سنت کی بات ماننی ہے یا بین الاقوامی معاہدات کی بات ماننی ہے۔ مثال کے طور پر ہم سے کہا گیا کہ مرد اور عورت میں مساوات ہے لیکن تمہارے ہاں امتیازی قوانین نافذ ہیں، انہیں ختم کرو۔ برطانیہ میں ایک فورم میں اس پر بحث ہو رہی تھی کہ مرد اور عورت میں مکمل مساوات ہونی چاہیے، میں بھی اس میں شریک تھا تو میں نے کہا کہ یہ بتائیں کہ(١) کیا مرد اور عورت کی ساخت ایک ہے؟ (٢) کیا دونوں کے قدرتی فرائض ایک جیسے ہیں، بچہ عورت نے پیدا کرنا ہے یا دونوں کر سکتے ہیں اور دودھ کس نے پلانا ہے؟ (٣) اور کیا دونوں کی نفسیات ایک جیسی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جب دونوں میں یہ فرق موجود ہیں تو پھر قانون میں فرق کیوں نہیں ہوگا، یہ فرق مٹا دو تو قوانین کا فرق بھی ختم ہو جائے گا۔ (جاری ہے)