رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
تیسری اور آخری قسط:
(2) تفتیشی مراکز
فلسطینی اسیران کو عدالت میں منتقل کرنے سے پہلے ان سے پوچھ گچھ کے لیے کئی حراستی مرکز قائم کیے گئے ہیں۔ ان میں کیشون سینٹر، المسکوبیہ سینٹر اور بتاح تکفا سینٹر شامل ہیں۔
(3) مرکزی جیلیں اور حراستی مراکز
مرکزی جیلوں اور حراستی مراکز میں 20جیلیں شامل ہیں، جہاں سالانہ ہزاروں فلسطینی قیدیوں کو حراست میں رکھاجاتا ہے۔ ان جیلوں میں سب سے نمایاں گلبوا جیل ہے جو 2004ء میں شمالی اسرائیل میں بیت شیان کے علاقے میں کھولی گئی تھی۔
عسقلان سینٹرل جیل برطانوی فوج کا ہیڈ کوارٹر رہ چکی ہے، برطانوی استبداد کے دور میں یہاں حکام اور وفود کے درمیان ملاقاتیں بھی کرائی جاتی تھیں۔ برطانیہ نے فلسطینی انقلابیوں کو حراست میں لینے اور ان سے پوچھ گچھ کے لیے اس کے ساتھ ایک خصوصی سیکشن بھی منسلک کیا۔ فلسطین پر قبضے کے بعد اسرائیل نے اس کا کنٹرول سنبھال لیا اور فلسطینی مزاحمت میں اضافے اور حفاظتی قیدیوں کی تعداد میں اضافے کے بعد 1970ء میں اسے ایک جیل قرار دیا گیا۔ جب عسقلان جیل کھولی گئی تو اسے ”تشریفہ” کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس بدنام زمانہ عقوبت خانے کو فلسطینی قیدیوں پر تشدد اور اذیتوں کے لیے بدترین کیمپ قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں قیدی جیل کے دروازے سے اپنے سیلوں میں منتقل کیے جاتے ہیں۔ قیدی کے اطراف میں اسرائیلی جلاد ہوتے ہیں جو انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ 1970ء کی دہائی میں قیدیوں نے جیل انتظامیہ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے متعدد ہڑتالیں کیں، خاص طور پر اس جبری مشقت کے حوالے سے جو انہیں ٹینک کیموفلاج نیٹنگ ورکشاپس میں انجام دینے پر مجبور کیا گیا تھا۔ 1985 ء میں جیل انتظامیہ کے جابرانہ اقدامات کے بعد جیل میں پرتشدد جھڑپیں شروع ہوئیں۔ ان جھڑپوں کے بعد صہیونی فوج کے لڑاکا یونٹوں اور جلادوں کو قیدیوں پر تشدد کے لیے مسلط کیا گیا۔ اس کے باوجود قیدیوں نے گدوں اور کمبلوں کو آگ لگا کر جواب دیا ، انتظامیہ کی طرف سے چلائی گئی آنسو گیس سے درجنوں افراد دم گھٹنے اور زخمی ہوئے۔
تشدد کے مکروہ حربے
ضمیر پرزنر سپورٹ اینڈ ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطین پر قبضے کے بعد سے ہی مقامی قیدیوں پر تشدد شروع کیا۔ اسیروں کو نفسیاتی اور جسمانی طور پر اذیت دینے کے لیے کئی طریقے استعمال کیے جاتے۔ ان میں ہولناک جسمانی تشدد، انہیں سروں کے بل لٹکانا، ان کو چھوٹی چھوٹی اور تنگ کرسیوں پر تکلیف دہ حالت میں بیٹھنے پر مجبور کرنا، کانوں کے پردے پھاڑنے والی اونچی آوازمیں بے ہودہ موسیقی۔
قابض تفتیش کاروں کی طرف سے قیدیوں سے اعترافی بیانات حاصل کرنے کے لیے انہیں الماریوں میں بند کرنا، ان کے جسم میں کیلیں ٹھوکنا اور دیگر ہولناک طریقے استعمال کیے گئے، جس کے نتیجے میں 300سے زائد قیدی شہید ہوچکے ہیں۔
فاؤنڈیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی پولیس اور سرحدی محافظ تفتیشی مرکز میں پہنچنے کے پہلے ہی لمحوں سے حراست میں لیے گئے افراد کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہیں اور ان کی مار پیٹ کرتے ہیں۔
مار پیٹ کے ساتھ گالی گلوچ اور توہین آمیز بدتمیزی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، جس کا مقصد شروع سے ہی دہشت کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ جلاد تفتیشی مدت کے دوران زیر حراست افراد پر نفسیاتی دباؤ پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ قیدیوں کو وکلا کی خدمات کے حصول سے روک دیا جاتا ہے۔ قیدی 60دن تک تشدد کے سائے میں زیر تفتیش رہتے ہیں۔ قیدیوں کو اپنے خاندانوں سے رابطے کی اجازت نہیں دی جاتی اور انہیں دوسرے حراستی کیمپوں میں منتقل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس دوران قیدں کو ایسے تنگ اور تاریک سیلوں میں رکھا جاتا ہے جو مرغیوں کے دڑبوں سے بھی بدتر ہوتے ہیں۔
قیدیوں کو جان سے مارنے، ان کے خاندانوں کو ایذا پہنچانے، خواتین کے ریپ اور بچوں کے قتل کی سنگین دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ تفتیشی سیشن کے دوران طویل مدت کے لئے قیدیوں کو تکلیف دہ کرسیوں پر باندھا جاتا ہے، جہاں ان کے ہاتھ پشت کے پیچھے کرسی سے باندھے جاتے ہیں، جبکہ ٹانگیں فرش پر لگی ہوتی ہیں۔ بہت سے زیر حراست افراد کے خلاف استعمال کیے جانے والے شدید جسمانی اذیتوں اور مختلف تنا ؤکی پوزیشنوں کے علاوہ، قیدیوں کو نفسیاتی دبا ؤکے تحت، عبرانی زبان میں بیانات پر دستخط کرنے کے لیے بھی مجبور کیا جاتا ہے، جسے وہ سمجھ نہیں پاتے۔
انہیں نہیں بتایا جاتا کہ اس بیان میں کیا لکھا گیا ہے۔ انٹیلی جنس سروسز زخمیوں کو بھی تفتیش کے دوران زیر حراست افراد پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ وہ زیر حراست افراد کو علاج یا مدد کے بدلے اعتراف جرم کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں۔ انٹیلی جنس خدمات کے ساتھ تعاون کی پیشکش مالی رقوم یا اس شخص کو فراہم کی جانے والی سہولیات کے بدلے میں کی جا سکتی ہے جس سے انٹیلی جنس سروسز کو فائدہ پہنچانے والی معلومات فراہم کی جائیں۔ پوچھ گچھ کے دوران حراست میں لیے گئے شخص کو نفسیاتی دباؤ کے تحت، خاندان کے کسی فرد، بیوی یا بچے کی گرفتاری یا اس کے گھر یا جائیداد پر بمباری کرنے یا اس کے بچوں اور خاندان سے محروم کرنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ اسرائیلی انٹیلی جنس کی کوشش ہوتی ہے کہ زیر حراست افراد کو تفتیش کے مکمل ہونے کے بعد بھی زیادہ سے زیادہ سزا اور تشدد کے طور پر تفتیشی مراکز میں رکھا جائے۔ (ختم شد)