تحریر: مفتی مجیب الرحمن منصور۔ کراچی
مشاہدے اور تجربے سے یہ بات واضح ہے کہ مصیبتوں کی زد میں آنے والے لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ بسا اوقات مصیبتوں کا نشانہ بننے والے لوگ بہت زیادہ نیکوکار اور اسی طرح بعض حدِ اعتدال سے بڑھ جانے والے، ظلم اور زیادتیاں کرنے والے ہیں۔ نیکوکاروں کو مصیبتوں میں مبتلا دیکھ کر لوگ بالعموم دکھ اور غم کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ سے ان نیکوکاروں کے لیے رحمت کے طلب گار بن جاتے ہیں، جبکہ اس کے برعکس مجرموں اور متکبروں کو برے انجام سے دوچار ہوتا دیکھ کر لوگ عبرت حاصل کرتے ہیں۔مصیبتوں اور تکالیف کے اسباب پر جب قرآن وسنت کی روشنی میں غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ مختلف لوگوں پر آنے والی مصیبتوں کے مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ مصیبتوں کے اسباب پر جب غور کیا جائے تو درج ذیل وجوہات سامنے آتی ہیں:
1۔ آزمائش: اللہ تبارک وتعالیٰ کے نیک اور برگزیدہ بندے جب مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ان کا امتحان اور آزمائش ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 255، 256اور 257میں ارشاد فرماتاہے ’’اور البتہ ہم تمہیں ضرور آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے، اورمالوں، جانوں اور پھلوں میں کمی کرکے اور خوشخبری دے دیں صبر کرنے والوں کو، وہ لوگ کہ جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں اور وہی لوگ ہیں(کہ)ان کے رب کی طرف سے ان پر عنایات ہیں اور رحمت ہے اور وہی لوگ ہی ہدایت یافتہ ہیں۔
تاریخِ انبیاء علیہم السلام کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی بڑی تعداد نے اپنی زندگی میں مختلف طرح کی مشکلات اور تکالیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام کو ساڑھے نو سو برس تک اپنی بستی والوں کی عداوت، شقاوت، مخالفت، طعن و تشنیع، سب و شتم اور سنگ باری کا سامنا کرنا پڑا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بستی والوں کی شقاوت کو سہنا پڑا اور بادشاہِ وقت نے بھی آپ سے عدوات کا اظہار کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو توحید باری تعالیٰ سے پختہ تعلق کی وجہ سے جلتی ہوئی آگ میں ڈال دیا گیا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو محفوظ و مامون فرما لیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی وجہ سے بہت سی مصیبتوں کو سہنا پڑا۔ آپ نے فرعون کی رعونت، ہامان کے منصب، شداد کی جاگیر، قارون کے سرمائے کا مقابلہ کیا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ اپنی کامل وابستگی کا طوالت اور تسلسل سے اظہار کیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی بستی والوں کی مخالفت کو سہنا پڑا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی بہت سی تکلیفیں، مشکلات اور آزمائشیں آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، آپ کو شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کیا گیا، آپ کو سرزمین مکہ کو خیرباد کہنا پڑا، طائف کی وادی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا گیا۔ اس موقع پر جبرئیل امین پہاڑوں کے فرشتے کے ساتھ آئے تو نبی مہربان حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’اے اللہ!انہیں ہدایت دے دے بے شک یہ نہیں جانتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تلامذہ اور آپ کے قریبی رفقاء کو بھی دین سے تعلق کی پاداش میں مختلف طرح کی اذیتوں کا نشانہ بننا پڑا۔ حضرت بلال، حضرت خباب، حضرت زنیرہ اور حضرت سمیہ رضی اللہ عنہم نے تاریخی تکالیف کو برداشت کیا لیکن ایمان اور استقامت کے ساتھ پیش آنے والی مصیبتوں پر کماحقہ صبر کیا۔
2۔ تنبیہ: قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ تکالیف گناہگاروں کے لیے ایک تنبیہ ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر 50میں ارشاد فرماتاہے’’خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے، تاکہ اللہ مزہ چکھائے انہیں بعض (اس کا)جو انہوں نے عمل کیا تاکہ وہ رجوع کریں۔ اسی طرح سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتاہے’’اور جو تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تووہ اسی کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ گناہگاروں کو ان کی سیئات کی مناسبت سے مختلف طرح کی تکالیف میں مبتلا کرتاہے۔ بعض لوگ ان تکالیف کے آجانے کے بعد بھی گناہوں پر اصرار کرتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کے حق دار بن جاتے ہیں۔ اس کے مدمقابل بہت سے لوگ تکالیف کے آ جانے کے بعد اصلاح کرتے اور سیدھے راستے پر گامزن ہو کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کو حاصل کر لیتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل میں ایک بستی کی مثال دی جس کے پاس امن اور اطمینان تھا اور ان کا رزق اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ہر سمت سے بکثرت آرہا تھا۔ انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں بھوک اور خوف کا شکار بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی اس طرح کی تکالیف کے بعد انسان کو توبہ، استغفار کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اگر انسان سچے دل سے توبہ کرے تو خواہ کتنے ہی بڑے گناہوں کا مرتکب کیوں نہ رہ چکا ہوتو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی جملہ خطائوں کو معاف فرما دیتاہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فرقان میں شرک، قتل اور زنا کا ذکر کیا اور ان کے مرتکب کوجہنم کی خبر سنائی لیکن جو لوگ توبہ، ایمان اور عمل صالح کے راستے کو اختیار کرتے ہیں ان کو بشارت دی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف ہی نہیں کرے گا بلکہ ان کے گناہوں کو نیکیوں سے تبدیل فرما دے گا۔گویا کہ توبہ اور استغفار کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بھیجے ہوئے عذابوں کو ٹال دیتے ہیں۔ چنانچہ جب قوم یونس نے اجتماعی توبہ کی اور ایمان کے راستے کو اختیار کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے عذاب کو ان سے دور کر لیا۔
3۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب: قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ کئی حادثات اور اچانک تکالیف مجرموں کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کا عذاب ہوتی ہیں۔ چنانچہ قوم عاد کو جو گھمنڈ تھا کہ ہم سے بڑا طاقتور کوئی نہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر ہوائوں کے عذاب کو مسلط کرکے انہیں زمین پر یوں بکھیرا جیسے کھجور کے کٹے ہوئے تنے ہوں۔ قوم ثمود اور قوم مدین کے لوگوں پر چنگھاڑ کو مسلط کیا گیا اور وہ تباہی اور بربادی کا نشانہ بن گئے۔ قوم ثمود نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی اونٹنی اور اس کے بچے کو قتل کیا۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر عذاب کو مسلط کر دیا۔ قوم مدین کے لوگ کاروباری بے اعتدالیوں پر اصرار کرتے رہے چنانچہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنے۔ اسی طرح قوم سدوم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے آسمان اور زمین کے درمیان اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور پتھروں کے ذریعے ان کے وجودوں کو مسل دیا۔ ان کو ان سزائوں کا سامنا اپنی نافرمانی کی وجہ سے کرنا پڑا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ بقرہ میں ان نافرمانوں کا ذکر کیا جنہوں نے ہفتے والے دن مکاری سے اللہ کی نافرمانی کی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہیں کہا: ہو جا ذلیل بندر تو وہ ذلیل بندروں کی شکل میں تبدیل کر دیے گئے۔ فرعون زمین پر اپنے آپ کو رب کا درجہ دیتا تھا۔ اللہ نے مختلف تنبیہات کے ذریعے اس کو ڈرایا۔ ٹڈیوں، جوئوں، مینڈکوں، خون اور طوفان کو اس پر مسلط کیا گیا۔ وہ ہر عذاب کے ٹل جانے کے بعد دوبارہ سرکشی پر آمادہ و تیار ہو جاتا۔ چنانچہ اللہ نے جب موسیٰ علیہ السلام کو ان کے قبیلے کے ہمراہ فرعونیوں کے علاقے سے نکلنے کا حکم دیا تو فرعون نے اپنی فوجوں کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب کیا۔ اللہ نے سمندر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء کے لیے کھول دیا اور ان کے گزر جانے کے بعد فرعون کو اس کے لشکر سمیت سمندر کی لہروں میں غرق کر دیا۔ ایسے عالم میں اس نے اللہ کی ذات پر ایمان لانے اور اپنے مسلمان ہونے کا اظہار کیا لیکن اللہ نے اس موقع پر اس کے بیان کو مسترد کر دیا اور اس کی لاش کو رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے نشانِ عبرت بنا دیا۔
درحقیقت اس قسم کی تکالیف اور حادثات میں بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے ایک تنبیہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات سے بے نیاز ہونے کی بجائے اس کی تابعداری کے راستے پر کاربند رہیں اور ہمیشہ دعا گو رہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اس قسم کے رویوں اور طرزِ عمل سے محفوظ رکھے۔ آمین