بھارتی مسلمانوں پر نئی قیامت ٹوٹ پڑی

دنیا بھر کے مسلمان ایک ایسی آزمائش میں ہیں جس کے خاتمے کا بظاہر کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا۔ ہر جگہ سے منفی، مایوس کن، تکلیف دہ خبریں ہی مل رہی ہیں۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے، مشرق وسطی میں ظلم کی انتہا ہو چکی۔

اب خبریں آ رہی ہیں کہ بھارتی مسلمان بھی ایک نئی آزمائش سے دوچار ہو چکے ہیں، ان پر ایک ایسی قیامت ٹوٹ پڑی ہے جس نے مسلمانوں کو شدید تکلیف، کرب اور فرسٹریشن میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ بھارتی پارلیمنٹ سے منظور ہونے والا ترمیمی وقف بل ہے جس نے کھربوں روپے کی مالیت کی ہزارہا مسلم وقف جائیدادوں کے مستقبل کے حوالے سے سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ یہ بل حکمران جماعت بی جے پی کے وزیر کرن رجیجو نے پیش کیا اور اپنی تقریر میں اسے مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لئے بنایا گیا قانون کا نام دیا۔ بل پر طویل بحث ہوئی، حکمران جماعت اور اس کے اتحادی ڈٹے رہے اور حیران کن بات ہے کہ رات کے تین بجے یہ بل لوک سبھا (قومی اسمبلی) سے منظور کیا گیا۔ اس پر پچھلے چند دنوں میں بہت سے مظاہرے ہو چکے ہیں، بڑا شور مچا ہے۔ مسلم تنظیمیں، اردو اخبارات اور اپوزیشن جماعتیں سخت احتجاج کر رہی ہیں۔

اس قانون کے تحت دانستہ طور پر مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈز کے سٹرکچر میں ایسی خوفناک تبدیلیاں کی گئی ہیں جس سے مسلمانوں کی نمائندگی اور ان کی حمایت کمزور ہو اور ان کے اپنے وقف بورڈز کا کنٹرول غیر مسلم اراکین اور بی جے پی حکومت کی جانب سے نامزد کردہ کٹھ پتلی افراد کے ہاتھوں میں چلا جائے۔ پچھلے وقف قانون کے مطابق ان دونوں اداروں (مرکزی وقف کونسل، ریاستی وقف بورڈ) کے تمام اراکین کا مسلمان ہونا ضروری تھا۔ اب باقاعدہ طور پر غیر مسلم اراکین کی تعداد مقرر کر دی گئی ہے جو کہ لازمی ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مرکز اور ریاست (صوبہ) دونوں جگہ پچاس فیصد سے زیادہ غیر مسلم اراکین رکھے گئے ہیں، مرکزی وقف کونسل کے بائیس میں سے بارہ غیر مسلم جبکہ ریاستی وقف بورڈ کے گیارہ میں سے سات اراکین لازمی طور پر غیر مسلم ہوں گے۔ ریاستی وقف بورڈ کے جو چار مسلمان اراکین ہیں، ان میں سے دو خواتین ہونا ضروری ہیں۔ شاید اس لیے کہ خواتین پر ریاستی اور انتظامی دبائو زیادہ کارگر ثابت ہو سکے گا۔ ان اراکین اور چیئرمینوں کو اب حکومت نامزد کرے گی۔ ریاستی وقف بورڈ کا چیف ایگزیکٹو افیسر کا بھی اب مسلمان ہونا ضروری نہیں۔ اس کا مطلب یہی لیا جائے کہ وہ لازمی طور پر غیر مسلم ہی ہوگا۔

پچھلے قانون کے تحت وقف جائیداد کے تنازعات نمٹانے کے لئے وقف ٹریبونل میں ایک مسلم ماہر قانون کی موجودگی لازمی قرار دی گئی تھی۔ اب اسے کے بجائے ٹربیونل میں ایک حاضر یا سابق جج اور ریاستی افسر ہی ہوگا۔ دوسرے الفاظ میں وقف ٹربیونل میں جو تنازعات جائیں گے، وہاں بھی مسلمانوں کو کسی بھلائی کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔

سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ مسلم وقف بورڈ کو اب کوئی غیر مسلم جائیداد کا عطیہ نہیں دے سکے گا۔ عطیہ دینے والے کو پہلے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ پانچ سال سے ایک باعمل مسلمان ہے۔ یہ بڑی ہی عجیب بات ہے یعنی کوئی مسلمان کیسے اور کسے یہ ثابت کرے گا کہ وہ باعمل مسلمان ہے؟ کیا وہ مسجد کمیٹی یا علماء کرام سے سرٹیفکیٹ لے کر پیش کرے گا؟ پھر اس سرٹیفکیٹ پر بھی غیر مسلم ارکان وقف بورڈ اعتراض کر سکتے ہیں کہ یہ ملی بھگت سے بنایا گیا۔ ویسے یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ غیر مسلم وقف بورڈز کا حصہ بن سکتے ہیں، چیئرمین بن سکیں گے، مگر اسے اپنی رضامندی اور خوشی سے عطیہ نہیں دے سکتے۔ اسی طرح اگر کوئی متولی وقف جائیداد بیچتا ہے تو پہلے دو سال کی سزا تھی، اس کو اب کم کر کے صرف چھ ماہ کر دیا گیا ہے۔ پہلے یہ جرم ناقابل ضمانت (نان بیل ایبل) تھا، اس کو قابل ضمانت (بیل ایبل) بنا دیا گیا ہے، یعنی نرم کر دیا گیا۔ اگر کسی جائیداد پر حکومت اور وقف بورڈ کا تنازعہ ہے، تو اب وہ وقف نہیں مانی جائے گی۔ کلکٹر ایسے معاملات میں اپنی رپورٹ ریاستی حکومت کو دے گا اور مالکانہ ریکارڈ میں تبدیلی کرے گا۔ ظاہر ہے کلکٹر سرکاری ملازم ہے تو ایسی ہر رپورٹ اب حکومت کے زیر اثر ہی ہوگی۔

ممتاز کشمیری صحافی افتخار گیلانی نے اس سانحہ پر بڑے کرب سے لکھا: ”ایک بار انٹرویو کے دوران مسلم لیڈر اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے رکن مرحوم جاوید حبیب نے کہا تھا کہ بابری مسجدکی شہادت کا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے پانچ بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ پہلا 1857کی جنگ آزادی، دوسرا 1920میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ، تیسرا 1947میں تقسیم ہند اور آزادی، چوتھا 1971میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنااور پانچواں 1984میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور 1992میں بابری مسجد کا انہدام جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ریاست جموں و کشمیر کی 2019میں خصوصی حیثیت کے خاتمہ اور اب 2025میں صدیوں سے مسلمانوں کی طرف سے وقف کی گئی زمینوں، جائیدادوں، جن سے مساجد، مدرسے اور متعدد تعلیمی اور رفاعی ادارے چلتے ہیں، کے مالکانہ حق پر شب خون مارنے، کو بھی اس فہرست میں شامل کر دیتے۔”

یاد رہے کہ ہندوستان میں وقف کی 8لاکھ 72ہزار جائیدادیں ہیں، جن میں زرعی اور غیر زرعی زمینیں، ایک لاکھ سے زائد مساجد، مکانات اور تیس ہزار کے قریب درگاہیں شامل ہیں۔ جن میں سے 7فیصد پر قبضہ ہے، 2فیصد مقدمات میں ہیں اور 50فیصد کی حالت نامعلوم ہے۔ 2013میں منموہن سنگھ کی قیادت میں کانگریسی حکومت نے وقف پراپرٹی پر قبضوں کے خلاف جو سخت قانون بنایا تھا، اس کی وجہ سے21 لاکھ ایکڑ کی زمین واگزار کرائی گئی تھی۔ اس طرح وقف کی ملکیتی زمینیں 18لاکھ ایکڑ سے 39لاکھ ایکڑ تک بڑھ گئی تھیں۔

یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ تب یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ مسلمانوں نے زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور وقف کی جائیداد ہندوستان میں دفاع اور ریلوے کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ یہ اس لحاظ سے بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ صرف چار ریاستوں تامل ناڈو، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور اڑیسہ میں ہندو مٹھوں و مندروں کے پاس 10لاکھ ایکڑ اراضی ہے، جبکہ دیگر ریاستیں خاص کر نارتھ انڈیا کی سب سے بڑی ریاست یوپی اور بہار کو شامل کر لیا جائے تو ہندو مندروں وغیرہ کے پاس موجود جائیداد مسلم وقف جائیدادوں سے کئی گنا زیادہ ہو جاتی ہیں۔ ایک اور مسئلہ یہ بھی پیدا کیا گیا کہ اب کسی بھی زمین کو وقف تسلیم کرنے کے لیے اس کی باضابطہ رجسٹریشن اور متعلقہ دستاویزات درکار ہوں گی۔ اب اگر سلاطین، تغلق یا مغل دور میں کوئی زمین وقف ہوئی ہو، اس کے دستاویزات کہاں سے لائیں جائیں گے۔ جموں و کشمیر وقف بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق، اس کے زیرِ انتظام 3300جائیدادیں تقریباً 32000کنال (تقریباً 4000ایکڑ) زمین ہے۔ تاہم ایک بڑا حصہ خصوصاً خانقاہیں، امام بارگاہیں، لنگر گاہیں اور قبرستان ابھی تک غیر دستاویزی یا جزوی طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ ان سب کا کیا بنے گا؟

وقف ترمیمی قانون کی منظوری نے اتر پردیش میں تقریباً 98فیصد وقف جائیدادوں کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ وقف کی پوری جائیدادوں کا 27فیصد حصہ اسی صوبہ میں ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد اب تک ریونیو ریکارڈز میں درج نہیں ہے۔ نئے قانون کے تحت وقف جائیدادوں کے فیصلے کا اختیار وقف بورڈ سے منتقل ہو کر ضلع مجسٹریٹ کے پاس اب ہوگا۔ افتخار گیلانی کے بقول، ”دہلی میں 271وقف جائیدادیں محکمہ آثار قدیمہ کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ جائیدادیں اب عملی طور پر مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئی ہیں، کیونکہ ان کے پاس ان کے مالکانہ حقوق کے دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہیں۔ اس میں شمالی ہندوستان کی سب سے پہلی قطب الدین ایبک کی تعمیر کردہ تاریخی مسجد قوت الاسلام بھی ہے، جو قطب مینار کے بغل میں واقع ہے۔ چونکہ تنازع کی صورت میں حکومت کے ہی افسر کو فیصلہ کرنا ہے، اسی لیے ایسی صورتوں میں جہاں تنازع حکومت کے کسی محکمہ کے ساتھ ہے، تو اس پراپرٹی کا خدا ہی حافظ ہے۔”

اس حوالے سے بھارتی مسلمانوں کو بڑا دھچکا بی جے پی کے اتحادیوں کے رویے سے لگا، وہ بہار کے وزیراعلی نتیش کمار اور آندھرا پردیش کے سی ایم نائیڈو جی کو معتدل مزاج سیکولر سمجھتے تھے۔ ان رہنمائوں نے بی جے پی سے بھی بڑھ چڑھ کر اس مسلم دشمن وقف ترمیمی بل کی حمایت کر کے انڈین مسلمانوں کو شدید مایوس کیا۔

سردست تو یہ معاملہ عدالتی جنگ کی طرف جا رہا ہے، سپریم کورٹ اس کیس کو سنے گی، وہاں سے کیا فیصلہ آئے گا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ کیونکہ بی جے پی کے پچھلے تین ادوار میں بھارتی عدلیہ میں بھی بہت تبدیلیاں آ چکی ہیں اور اب وہاں ہندو نواز ججوں کی اکثریت ہو چکی، اسی وجہ سے رام مندر کے حق میں فیصلے سمیت کئی اہم فیصلے مسلمانوں کے خلاف ہوئے ہیں۔ اس قانون سے بھارتی مسلمانوں میں شدید عدم تحفظ، پریشانی اور بے سکونی پیدا ہوئی ہے۔ اللہ ان پر رحم کرے اور آسانی عطا فرمائے، آمین۔