امریکی ٹیرف میں اضافہ اور پاکستان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کے بیشتر ممالک سے درآمد ہونے والی اشیاء پر بھاری ٹیرف لگا دیا ہے جس سے عالمی منڈیوں میں بھونچال کی کیفیت پیدا ہوچکی ہے۔ وائٹ ہاؤس میں خطاب کرتے ہوئے کہا ‘ہمارے اتحادی 30سال سے مراعات لے رہے ہیں۔ جوابی ٹیرف کا نفاذ امریکا کے لیے اچھا ہوگا۔ امریکا تمام درآمدات پر 10فیصد اضافی ٹیکس نافذ کرے گا۔’ادھر چین نے کہا ہے کہ امریکی چینی درآمدات پر ٹیرف بڑھانے کے لیے بہانے کرتے ہوئے اگر امریکا جنگ چاہتا ہے، چاہے وہ ٹیرف ہو یا تجارتی جنگ بیجنگ آخر تک لڑنے کے لیے تیار ہے۔ چینی ترجمان نے مزید کہا کہ دھمکیاں ہمیں خوفزدہ نہیں کرتیں۔ دباؤ زبردستی یا دھمکیاں چین کے ساتھ نمٹنے کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔

امریکا نے پاکستان پر بھی 29فیصد ٹیکس عائد کر دیا۔ امریکا کا کہنا ہے کہ پاکستان نے امریکی مصنوعات پر 58فیصد ٹیکس عائد کیا ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کا نصف ناپ تول کر پاکستان پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ اس کے پاکستان کی وہ برآمدات جوکہ امریکا کے لیے کی جاتی ہیں ان پر بُرا اثر پڑے گا۔ امریکیوں کے لیے پاکستانی مصنوعات مہنگی ہوکر رہ جائیں گی۔ ادھر پاکستان کو فوری طور پر حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہوگی۔ امریکی صدر نے بھارت پر 26فیصد ٹیکس عائد کیا ہے۔ بنگلادیش پر 37فیصد برطانیہ پر 10فیصد۔ یہاں پر ہمیں اس بات کو بھی مدنظر رکھ کر چلنا پڑے گا کہ اول تمام تر درآمدات پر 10فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ان میں سے کئی ممالک ایسے ہیں جن پر 20فیصد کے اندر مختلف ریٹس لگاکر ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔ اب 20فیصد تک ٹیکس جن ممالک پر لگایا گیا ہے ،ان کے لیے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکا کچھ نرم گوشہ رکھتا ہے۔ کیونکہ ہم دیگر ملکوں کے بارے میں دیکھتے ہیں جیسا کہ چین پر 34فیصد۔ جاپان پر 24فیصد۔ ویتنام پر 46فیصد۔ ویتنام وہ ملک ہے جس سے 1970کی دہائی میں جنگ کرکے اس ملک نے امریکا کو تگنی کا ناچ نچا دیا تھا اور امریکا نے بھی اسے تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ لیکن اس قوم نے جلد ہی دنیا بھر میں اپنی برآمدات کا لوہا منوا لیا۔ ایک وقت تھا جب ویتنام کی برآمدات پاکستانی برآمدات سے کہیں کم مالیت کی تھیں۔ آج پاکستان 30ارب ڈالر برآمدات کے ساتھ ویتنام کی گردکو بھی نہیں پہنچ رہا کیونکہ ویتنامی برآمدات 600ارب ڈالرز تک پہنچ گئی ہیں۔1960ء کی دہائی تھی جب جنوبی کوریا اور دنیا کے کئی ممالک پاکستان کے معاشی ماڈل کی کاپی کرنے کی تگ ودو میں تھے۔ بھارت کا تو یہ حال تھا کہ اسے پاکستان کی صنعتی ترقی برآمدات میں اضافہ اور معاشی خوشحالی کسی طور پر بھی ہضم نہ ہونے کے باعث دیگر وجوہات کے علاوہ یہ معاشی ترقی بھی ایک اہم وجہ تھی کہ اس نے پاکستان پر حملہ کردیا۔

امریکی ٹیرف تائیوان پر 32فیصد، ملائیشیا پر 24فیصد، اسرائیل اور فلپائن پر 17فیصد، چلی اور آسٹریلیا پر 10فیصد ہے۔ اسرائیل پر لگائے گئے 17فیصد میں ہوسکتا ہے کہ جلد ہی کمی کا اعلان کردیا جائے۔ امریکی صدر ان اعلانات کو اقتصادی آزادی کے دن سے جوڑ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب امریکا کی خوشحالی کی باری ہے۔ یہ بات بھی درست ہے کہ امریکا میں کچھ لوگ بدحالی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ فٹ پاتھ پر اکثر غریب افراد فروکش نظر آتے ہیں۔ محصولات لگاکر اگر کچھ آمدن حاصل ہو جاتی ہے تو ان افراد کی فلاح وبہبود ان کو اپنے مکان دلوانے کے لیے امداد دینا اور دیگر فلاحی کاموں پر خرچ کرنا چاہیے۔امریکا کے اس اقدام کی دنیا کے تمام ممالک تقریباً مخالفت کر رہے ہیں۔ امریکا کا اتحادی ملک آسٹریلیا نے اسے غیرضروری قرار دیا ہے۔ اٹلی نے انہیں غلط قرار دیا ہے اور دیگر ملکوں کے جوابی کارروائی کے لیے امریکا کو خبردار کر چکا ہے۔ آئرلینڈ نے تو یہ کہا ہے کہ یورپی یونین کو امریکی ٹیرف کا مناسب جواب دینا چاہیے۔ برطانیہ یورپی یونین سے نکل چکا ہے اور وہ سا مناسب جوابی کارروائی کے عمل میں یورپی یونین کا ساتھ نہیں دے گا۔اگرچہ برطانیہ نے کہا ہے کہ امریکی ٹیرف کے باوجود امریکا کے ساتھ اقتصادی معاہدے کے لیے پرعزم ہیں۔برازیل نے بہت جلد ہی مقابلے کی خاطر برازیلین پارلیمنٹ نے ٹرمپ ٹیرف سے نمٹنے کے لیے قانون کی منظوری دے دی ہے۔ حالانکہ برازیل پر محض 10فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ سنگاپور، آسٹریلیا، ترکیا پر 10فیصد جوابی ٹیرف لگایا گیا ہے۔

پاکستانی حکام اس بات پر غور کریں کہ دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جن پر 29فیصد سے کہیں زیادہ ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ ویتنام پر نظر ڈالیں ادھر 49فیصد اور پاکستان پر 29فیصد۔ ویتنام کی طرف سے بہت سی ٹیکسٹائل مصنوعات اور لیدر مصنوعات اور دیگر ایسی اشیاء جوکہ پاکستانی ویتنام کی نسبت امریکا کو برآمد کرتا ہے اور اس کی قیمت اگر کم رہتی ہے تو ایسی صورت میں پاکستان اپنی کم ہوتی برآمدات کے پیش نظر امریکا کے لیے اپنی برآمدات میں اضافہ کرسکتا ہے۔بھارت بھی 26فیصد کے ٹیرف کے نفاذ سے شدید متاثر ہوگا۔ ان میں ٹیکسٹائل، زیورات، الیکٹرانک اور دیگر شعبے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ نے ہندوستان کو ٹیرف کا غلط استعمال کرنے والا ملک قرار دیا ہے تاہم ہندوستان کی کوشش ہوگی کہ وہ امریکا کے ساتھ تجارتی تنازعے کو حل کرے۔ پاکستانی حکام اس سلسلے میں زبانی کلامی باتیں کرنے کی بجائے کون سے عملی اقدامات کر سکتے ہیں اس پر غور کریں۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ فوری طور پر ٹیرف کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے پاکستان موثر لائحہ عمل کا اعلان کرے اور اس پر عملدرآمد کرے۔