1۔ مغربی شہروں میں فلسطین کے حق میں اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے اور ان کے ممکنہ اثرات
صیہونیوں کا مکروہ چہرہ اور انسان دشمنی دیکھ کر مغرب کے ہر بڑے شہر میں اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف مسلسل بڑے بڑے مارچ ہو رہے ہیں جو رکنے میں نہیں آرہے۔ یہی طلبہ و مظاہرین فارغ ہوکر جب اپنے اپنے ملکوں میں نئی ذمے داریاں سنبھالیں گے، کوئی سینیٹ کا رکن بنے گا، کوئی سیاست کی وجہ سے حکومت میں جائے گا، کسی کے ذمے اعلیٰ پولیس افسری آئے گی، کوئی فوج میں اہم ذمے داری سنبھالے گا، کوئی یونیورسٹی میں پروفیسر بنے گا، کوئی کسی چینل پر بیٹھ کے تجزیے کرے گا، کوئی اخبار کا مالک بنے گا، کوئی کسی بڑے سرکاری ادارے کا سربراہ بنے گا اور کوئی خاتون، ناسا کی قابل قدر پوسٹ سنبھالے گی، تو آج کی بدترین نسل کشی دیکھتے ہوئے، اس کا لب و لہجہ وہ نہیں رہے گا جس میں ماضی کے کل کی مانند یہود دوستی شامل ہو۔ تب بہت کچھ بدل چکا ہوگا۔ پانچ چھ سال مزید گزرنے دیں، دنیا وہ نہیں رہے گی جو کل تک اسرائیل کو نصیب ہوتی رہی ہے۔ کل ایک نئی تاریخ لکھی جائے گی۔ یہودی سفاکیت کے خلاف، ان کی انسانیت سوزی کے خلاف، 50000سے زاید معصوم فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف، اور ہنستے بستے غزہ کو کھنڈر بنا دینے کے خلاف!
اور فلسطینیوں کی کوہ گراں استقامت کے حق میں، نازک عورتوں کی جرأت و شہادت کے حق میں، اسلام کی نظریاتی طاقت کے حق میں، اور اسلام کے شاندار سبق جہاد کے حق میں۔ لوگ اب قدرتی طور پر اسلام کو بھی از سر نو سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ بدترین حالات میں بھی مسلمان ناقابل یقین لحاظ سے بھی ثابت قدم کیسے رہ جاتے ہیں؟ کیا فلسفہ ہے جو انہیں مستقل مضبوط رکھتا ہے؟ کل ان شاء اللہ ہمیں مغرب میں ایک نئی دنیا دیکھنے کو ملے گی۔ ایک چال انسان کی ہوتی ہے اور ایک چال اللہ کی ہوتی ہے۔ وہ چال جو خاموش ہوتی ہے اور جو کسی کو سجھائی نہیں دیتی۔ مگر بالآخر چال یہی کامیاب ہوتی ہے۔ اسلام کی پیش قدمی، ابتدا سے اس انداز میں بھی ہوتی رہی ہے۔ اسلام زمانے میں دبنے کو نہیں آیا۔
حیرت انگیز طور پر دیکھنے کے قابل یہ حقیقت بھی ہے کہ فلسطینیوں کے حق میں ہر شہر میں ہونے والے مظاہروں کے جواب میں، کسی ایک شہر میں بھی یہودیوں کی جانب سے جوابی مظاہرے نہیں کئے جا رہے۔ لگتا ہے صیہونیوں کے خلاف ہر جگہ خوف کی ایک خاموش فضاچھائی ہوئی ہے۔ اگر ہم بیرونی تجزئیے پڑھیں تو نیویارک اور واشنگٹن کے یہودی اقرار کرتے نظر آرہے ہیں کہ اس کشیدہ ماحول میں وہ خاموش رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں اور اپنی یہودی شناختی علامت کو وہ اب برسر عام نہیں پہنتے۔
2۔ اسرائیل سے یہودیوں کا فرار: اسرائیل کے بگڑتے ہوئے حالات کی وجہ سے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد اسرائیل چھوڑ کر دوسرے ممالک فرار ہو رہی ہے۔ لندن کے ایک چینل ”مڈل ایسٹ آئی” کے مطابق حماس اسرائیل کی جاری جنگ کے باعث 2024میں 82000یہودی ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے ہیں۔ اعداد و شمار کی تصدیق خود اسرائیل کے ”بیورو آف اسٹیٹسٹکس” نے بھی کی ہے۔ ملک سے جانے والے شہریوں میں اعلی تعلیم یافتہ لوگ اور ماہرین سب ہی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ایک مصنف ایوی اسٹینبرگ نے زور دے کر کہا ہے کہ اسرائیلی شہریت رکھنے کا مقصد سوائے معصوم لوگوں کی نسل کشی کے کچھ اور نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ نسل کشی کی خاطر اسرائیل دنیا سے مسلسل جھوٹ بولتا ہے۔ جرمنی کی وزارت داخلہ نے اعداد و شمار دیتے ہوئے بتایا کہ 2024میں ساڑھے اٹھارہ ہزار اسرائیلیوں نے جرمن شہریت اختیار کی ہے۔ دنیا میں اس بڑے انخلا کو ”برین ڈرین” کہا جا رہا ہے۔
3۔ اسرائیل خانہ جنگی کی راہ پر: اسرائیلی میڈیا سمیت عالمی اخبارات اور چینلز تجزیہ کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ اسرائیل خانہ جنگی کے بالکل قریب پہنچا ہوا ہے۔ ذرائع نے اس کی کئی وجوہات بتائی ہیں۔ اول تو عوام اور اسرائیلی حزب اختلاف۔ دونوں حماس کے 7اکتوبر کے اچانک حملے اور نتیجے میں کئی اسرائیلی جانوں کے نقصان کا ذمے دار صرف نتن یاہو کو قرار دیتے ہیں۔ سوال کرتے ہیں کہ حماس کی ان تیاریوں کا اسے اندازہ کیوں نہ ہو سکا تھا؟ دوم یہ مسئلہ بھی اب ابھر کر سامنے آ رہا ہے کہ گورے صیہونی ہی اسرائیل کو بالکل ابتدا سے اپنے قبضے میں کیوں لئے ہوئے ہیں؟ یاد رہے کہ اسرائیل میں اب تک تمام حکومتی ذمے داران گورے صیہونی ہی ہیں کیونکہ انہی نے اسرائیل قائم کیا تھا۔ خود صیہونیت کی اصطلاح بھی گورے یہودیوں کی ایجاد ہے۔ اگر قارئین کو یاد ہو تو گورے یہودیوں کا یہ معاملہ فیس بک اور اخبارات میں سب سے پہلے راقم ہی نے اٹھایا تھا اور بتایا تھا کہ فلسطینیوں پر وحشیانہ سفاکیت واسرائیل کے گورے یہودی ہی کر رہے ہیں۔ عرب، افریقہ اور ہندوستان و پاکستان وغیرہ سے عام یہودی تو قیام اسرائیل کے بعد وارد ہوئے تھے۔ لہٰذا موجودہ جنگ کے بعد مشرق و افریقہ سے آنے والے یہودی بھی حکومت میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔ یہ لوگ بھی اپنے جلوس نکال رہے ہیں۔ ایسے یہودیوں کو سفاردی یہودی کہا جاتا ہے جبکہ گورے صیہونیوں کو اشکنازی یہودی کیا جاتا ہے۔
خانہ جنگی کی تیسری وجہ اسرائیلی سیکیوریٹی فورس Bet Shen کے سربراہ کی نتن یاہو کی جانب سے جبری برطرفی ہے۔ وہاں کی سپریم کورٹ نے اس برطرفی کو بلاجواز قرار دیا ہے۔ لیکن نتن یاہو نے اقتدار کے زعم میں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بھی بے وقعت کیا ہے۔ سب سے اہم وجہ حماس کی قید سے اسرائیلی قیدیوں کی عدم واپسی ہے جس پر سب سے پہلے ان کے رشتے دار غصے میں تھے۔ لیکن اب یہ مسئلہ عوامی بن گیا ہے۔ اسرائیلی شہری، نتن یاہو کی جنگ بندی معاہدے کی بار بار خلاف ورزی سے سخت غصے میں ہیں جس کے باعث حماس ان قیدیوں کو رہا کرنے سے رک جاتی ہے۔ اپنے وزیر اعظم کو وہ قاتل قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس نے یہ جنگ بلاوجہ ہی طویل کر دی ہے۔ ورنہ تو اسے اب تک ختم ہو جانا چاہئے۔ گزشتہ سینیچر ہی کو تل ابیب میں اپنے پیاروں کی رہائی اور جنگ بندی کی خاطر بیس ہزار شہریوں نے حصہ لیا تھا۔ ایسے مظاہرے اب وہاں بہت عام ہیں اور لوگ بہت غم و غصے میں ہیں۔
ایک اور بڑی وجہ نتن یاہو پر دوران اقتدار رشوت اور ضابطوں کی خلاف ورزی کا بھی الزام ہے جس کی بنیاد پر اس پر مقدمے چل رہے ہیں۔ اپوزیشن نے کہا ہے کہ آئینی اداروں سے نتن یاہو کی لڑائی، اسرائیل کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ سابق فوجی تجزیہ نگار ”ناہوم بارنی” نے اسرائیلی اخبار Yahdith Ahrinath میں لکھا ہے کہ نتن یاہو اور شین بیت کے درمیان جنگ سے خانہ جنگی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ یاد رہے کہ کچھ دن قبل سابق اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے بھی پہلے ہی اس صورت حال کی تنبیہ کردی تھی۔ دوسری طرف سابق وزیر اعظم ایہود آلمرٹ نے بھی بیان دیا ہے کہ اپنے اقتدار کی خاطر نتن یاہو، ہر چیز قربان کر سکتا ہے۔
دعا کرنی چاہئے کہ اسرائیل کا یہ فساد مزید شدت پکڑے اور نتیجے میں فلسطینیوں کو راحت نصیب ہو۔