ٹرمپ کا ٹیرف بم۔ انجام گلستاں کیا ہوگا؟

امریکی صدر ٹرمپ اقتدار سنبھالتے ہی انتہائی برق رفتاری سے اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ کیپیٹل ہِل حملے میں ملوث افراد کو معافی دے چکے۔ بیرونی امداد محدود اور امیگریشن پر کریک ڈاون کر چکے ہیں۔ ٹرمپ ناقابلِ پیش گوئی تو ہمیشہ سے ہیں، اس بار انہوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ وہ عواقب ونتائج کی پروا بھی نہیں کرتے۔ ان کی جانب سے 100 کے قریب ممالک کی درآمدات پر اضافی ٹیرف کا فیصلہ معاشی ایٹم بم قرار دیا جا رہا ہے۔ اعلان کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی۔ چین، جاپان، برطانیہ، جرمنی اور بھارت سمیت تمام بڑی معاشی طاقتوں کو منفی اثرات کا سامنا ہے۔
برباد گلستاں کرنے کو بس ایک ہی الو کافی تھا
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستاں کیا ہوگا

ٹرمپ نے اسے اقتصادی آزادی کا دن قرار دیا۔ ٹرمپ کی یہ پالیسی ”امریکا فرسٹ” یعنی سب سے پہلے امریکا کے اصول پر مبنی ہے۔ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ٹیرف پر امریکیوں کو صبر کی ضرورت ہے، حتمی نتیجہ تاریخی ہوگا، یہ اقتصادی انقلاب ہے۔ ہم گونگے اور بے بس رہے مگر اب نہیں رہیں گے۔ ہم نوکریاں اور کاروبار واپس لا رہے ہیں، حالانکہ عملاً یہ ہے کہ انہوں نے محکمہ تعلیم کو ختم کر کے سوا چار ہزار ملازمین فارغ کر دیے ہیں۔ نئے ٹیرف کے بعد 2روز میں سرمایہ کاروں کے 60کھرب ڈالر سے زائد ڈوبے۔ اسٹاک مارکیٹس 5سال کی بدترین مندی کا شکار ہوگئیں۔ فلڈنگ دازون کی اصطلاح کا استعمال امریکی فٹبال میں ہوتا ہے جس کا مطلب دوسری ٹیم کو تھکا کر کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ ٹرمپ کے تیز ترین اعلانات فلڈنگ دازون کے زمرے میں آتے ہیں۔ مقصد اپنے مخالفین کو تھکانا اور ان کے ردعمل کو کمزور کرنا ہے۔ ٹرمپ کی حکمت عملی یہ ہے کہ جارحانہ رویہ اختیار کرو، اپنے بیانیے کو آگے بڑھاؤ اور کسی تنقید کو خاطر میں نہ لاؤ۔

ٹرمپ کی ذہنی ساخت سوچ اور اپروچ جمہوری نہیں ہے آمرانہ ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دانش اور عقلِ سلیم پر انہی کا اجارہ ہے۔ وہ اپنے نیٹو اتحادیوں کی بھی پروا نہیں کرتے بلکہ ان کی خواہش ہے کہ وہ آنکھیں بند کر کے ان کے ہر فیصلے پر مہرِ تصدیق ثبت کریں۔ اسی لیے نیٹو اتحادی ٹرمپ کے اقدامات سے نالاں ہیں۔ امریکا کی موجودہ کاروباری جنگ بنیادی طور پر چین کے خلاف ہے، چین نے جوابی حملے میں امریکی مصنوعات پر 34فیصد ٹیکس عائد کیا ہے۔ نئے تجارتی محصولات کا اعلان ہوتے ہی دنیا کے 500امیر ترین افراد کو 208 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ یہ ایسی جنگ ہے جس میں گولیاں نہیں چلتیں، لیکن عالمی تجارتی نظام کو بے انتہا نقصان ہوگا۔ ویت نام پر کل ٹیکس 56 فیصد، کمبوڈیا پر 59، سری لنکا پر 54، چین پر 44فیصد کر دیا گیا ہے۔

ٹیرف میں اضافے کا مقصد درآمدات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے لیکن اگر ملک میں ان اشیاء کی صنعتیں موجود نہ ہوں تو بہ امر مجبوری لوگوں کو وہ اشیاء خریدنا پڑتی ہیں۔ ٹرمپ سمیت سارے امریکی صدور کی خواہش رہی کہ اشیائے صرف کی صنعتوں کو امریکا واپس لایا جائے لیکن امریکی لیبر قوانین اور فی گھنٹہ کم ازکم اجرت کے قوانین اس کی راہ میں رکاوٹ اور اس کے نتیجے میں امریکا میں پیداواری لاگت عالمی مسابقت کے قابل نہیں رہتی۔ صرف وہ امریکی مصنوعات عالمی منڈی میں جگہ پاتی ہیں جن پر امریکا کی اجارہ داری ہے جیسے جدید ترین جنگی ساز وسامان، جنگی اور شہری ہوا بازی کے طیارے، آئی ٹی اور ہائی ٹیک کے شعبے وغیرہ۔ اب چین ان شعبوں میں بھی عالمی مسابقت کیلئے کوشاں ہے، مثلاً امریکا کی چیٹ جی بی ٹی کے مقابلے میں چائنا کی ڈیپ سیک نے امریکیوں کو حیران کر دیا ہے۔ ٹرمپ کے ٹیرف فیصلے سے پہلے ہوم ورک نہیں کیا گیا کیونکہ ایسے خطوں پر بھی ٹیکس لگایا گیا ہے، جہاں پچھلے10 سال سے کوئی انسان نہیں گیا، وہاں صرف پینگوئن اور سیلز آباد ہیں۔ یہ انٹارکٹک کے دو چھوٹے اور ویران جزیرے ہرڈ اور میکڈونلڈ، ہیں، جہاں جانے کے لیے کشتی پر پرتھ (آسٹریلوی شہر) سے 7 روز سفر طے کرنا پڑتا ہے۔ آسٹریلیا کے وزیر برائے تجارت ڈان فیرل کے بقول بے چارے پینگوئنز نے ٹرمپ کے ساتھ ایسا کیا سلوک کیا کہ ان پر بھی ٹیرف عائد کر دیا گیا۔

آسٹریلیا کے خطے برڈ، نارکفوک پر 29 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔ ہرڈ جزیرہ برف سے ڈھکا ہوا اور بنجر ہے2016 میں آخری بار انسان یہاں گئے تھے۔
اضافی ٹیرفس کا سب سے زیادہ نقصان امریکا کو ہونے کے امکانات ہیں۔ پاکستانی اسٹاک ایکسچینج میں ابتدا میں بہتری آئی لیکن پھر مندی نے اسے بھی آگھیرا ہے۔ ٹرمپ کے اقدام پر برطانیہ، جرمنی، پرتگال، فرانس، کینیڈا اور میکسیکو میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں، مظاہرین نے نئے ٹیرف کی مذمت کی اور اسے فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ ریلیوں میں انسانی حقوق کی تنظیموں، مزدور یونین اور دیگر اداروں کے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ مظاہرین نے کہا ٹرمپ کی پالیسیاں دنیا کیلئے خطرہ ہیں، ایلون مسک کو ملک بدر کیا جائے۔ ٹرمپ مخالف مظاہرین واشنگٹن اور دیگر امریکی شہروں میں بڑی تعداد میں جمع ہوئے۔ تمام 50 امریکی ریاستوں کے علاوہ دیگر ممالک میں تقریباً 1200سے زائد مظاہرے کیے گئے۔
ٹیرف حکومتوں پر نہیں بلکہ درآمد کنندگان اور صارفین پر لاگو ہوتا ہے۔ امریکی کمپنیوں کو خام مال مہنگے داموں خریدنا پڑے گا، جس کا بوجھ آخرکار صارفین پر آئے گا، مثلاً آئی فون کی قیمت میں44 فیصد کا اضافہ ہو جائے گا کیونکہ آئی فون کی فیکٹری چین میں ہے۔ صدر ٹرمپ کو یقین ہے کہ اس ٹیرف کے بعد بہت سی امریکی صنعتیں چین اور دوسرے ممالک سے، امریکا آجائیں گی اور امریکا اپنی صنعتی عظمت دوبارہ حاصل کر لے گا۔

مستقبل کی تجارتی دنیا کو ان پالیسیوں اور عالمی ردعمل سے ایک نئی اقتصادی دنیا بنتی نظر آ رہی ہے۔ کمپنیاں اب دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سپلائی نیٹ ورکس پر انحصار کم کر دیں گی۔ مضبوط تجارتی بلاکس بنیں گے۔ اب ممالک علاقائی تجارتی معاہدوں کو ترجیح دیں گے جیسے ایشیائی ممالک، بحرالکاہل کے ممالک، امریکا کینیڈا اور میکسیکو کے باہمی معاہدے۔ چین کی تجارتی قیادت میں اضافہ ہوگا۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو، ڈیجیٹل یوآن کے ذریعے دنیا کی سب سے بڑی تجارتی شراکت داری بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ اب پائیدار تجارت کے رجحان میں اضافہ ہوگا۔ ٹرمپ کی تجارتی جنگ نے عالمی تجارت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ اس کے اثرات پوری دنیا کے معاشی نقشے پر نظر آ رہے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق امریکی صدر کا یہ اقدام 45 سے 60فیصد تک کساد بازاری کا ذریعہ بنے گا۔ دنیا کی واحد سپر طاقت ہونے کے باعث امریکی قیادت کا مقصد دنیا میں طاقت، اور اپنی اجارہ داری کا قیام ہے لہٰذا انسانی حقوق، جمہوریت اور انصاف کے نعروں کے ساتھ جو سلوک امریکی قیادت نے غزہ میں کیا ہے وہی برتاؤ معیشت اور تجارت کے میدان میں اپنے وضع کردہ اصولوں کے ساتھ کر رہی ہے۔
عالمی بالادستی کے زعم کا شکار ٹرمپ، نظریات اور اقدار کی بجائے طاقت کو اصل ہتھیار سمجھتے ہیں، تاہم قدرت اقوامِ عالم کو دکھا رہی ہے کہ انصاف، حقوق اور انسانی آزادی کے نعرے لگانے والا ملک کس طرح خود ہی اپنے نظریات سے منحرف ہو رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی تجارتی نظام، جس کے تحت پوری دنیا ایک فری ٹریڈ ایریا میں تبدیل ہونے کی جانب رواں دواں تھی، ٹرمپ کے اس ایک اقدام سے زمین بوس ہوتا نظر آ رہا ہے اور دبے لفظوں میں ٹرمپ کو گورباچوف قرار دیا جا رہا ہے: آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!