غزہ کی تازہ ترین صورتحال پر طلبہ اور عوام سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں؟ کیا کھلی آنکھوں یہ ظلم ہوتا دیکھتے رہیں اور 20لاکھ عظیم مسلمانوں کی شہادت مکمل ہونے کا انتظار کریں؟ بائیکاٹ، دعا، مالی تعاون، مسئلہ فلسطین کو زندہ رکھنا وغیرہ کا جواب گزشتہ ڈیڑھ سال سے دیتے آرہے ہیں لیکن اب محض اس جواب پر دوسروں کو مطمئن کرنا تو درکنار، خود مطمئن ہونا بھی مشکل ہورہا ہے۔ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ اسرا ئیل کے خلاف محاذ آرائی کرنا تو چلیں دور کی بات ہے۔ جنگ بندی اور امدادی سامان کی ترسیل کا پرزور موقف اختیار کرنے کی بھی کوئی خاطر خواہ صورت نظر نہیں آتی۔ یہاں تک کہ سوائے چند ایک دینی و سیاسی رہنما کے کوئی اس مسئلہ پر اتنی آواز اٹھاتا بھی نظر نہیں آتا
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
ہمارا خیال ہے عوام صرف دو کام کرسکتے ہیں۔ نمبر ایک احتجاج کریں۔ ابتہال ابو سعد بہادری کی علامت بن چکی ہیں۔ ان کو ہمارا سلام پہنچے۔ یہ مراکشی خاتون پوری دنیا میں جرات کا استعارہ بن چکی ہیں۔ ہر جگہ بھرپور طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروارہی ہیں۔ یہ خاتون مائکرو سافٹ میں بطور آئی ٹی ایکسپرٹ انجینئر کام کرتی تھیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی سے اعلی ڈگری حاصل کی۔ ان سے سبق حاصل کرلیں۔ ہم سب کو کم از کم اپنے حصے کا احتجاج کرنا چاہیے۔ بولنا اور لکھنا چاہیے۔ چیخنا چلانا چاہیے۔ غیرت زندہ ہو اور سلیقہ آتا ہو تو اللہ کام کا موقع بھی عطا کرہی دیتے ہیں۔ اللہ سے اپنے حصہ کا کام کرنے کی توفیق مانگتے رہیں۔
اس وقت شدید قتل عام جاری ہے۔ فلسطینی وزارت صحت نے بتایا ہے کہ غزہ میں قابض اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل عام کا سلسلہ جاری ہے۔ وزارت صحت نے ایک بیان میں بتایا کہ 20مارچ سے اب تک شہادتوں کی تعداد بڑھ کر 1,309 ہوگئی ہے جبکہ 3,184زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ 7اکتوبر 2023 سے اب تک اسرائیلی جارحیت سے شہید ہونے والوں کی تعداد 50,669 اور زخمیوں کی تعداد 115,225 زخمی ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اب بھی بہت سے متاثرین ملبے کے نیچے اور سڑکوں پر ہیں اور ایمبولینس اور شہری دفاع کا عملہ ان تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہ رپورٹ پڑھ کر بے ساختہ زبان پر یہ الفاظ جاری ہو جاتے ہیں کہ یا الٰہی رحم فرما، سر زمین انبیا کے باسیوں کی آزمائش کافی طویل ہوگئی ہے، غم کی رات صبح ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، ایک یہی سر زمین ہی تو تھی جو تیرے حقیقی بندوں سے آباد تھی۔ یہ نہ رہے تو اسلام کی حفاظت کون کرے گا؟ یا الٰہی ہم ایکسپوز ہو چکے ہیں، ہمیں واپس دینی غیرت وحمیت کی طرف لوٹا دے۔ یا ارحم الراحمین تیرے خزانوں میں کیا کمی ہے؟ کیا نا ممکن ہے؟ کن فرما دے میرے اللہ۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے، جب کبھی تاریخ لکھی جائے گی تو معلوم ہوگا کہ مصر کے پاس دریائے نیل تھا اور غزہ پیاس سے مر گیا۔ تاریخ لکھی جائے گی کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے پاس تیل کے سمندر تھے، جبکہ غزہ کے اسپتالوں اور ایمبولینس کے لیے ایندھن نہیں تھا۔ تاریخ لکھی جائے گی کہ مسلمانوں کے پاس 50لاکھ سے زائد فوجی تھے، مصر، ایران، ترکی اور پاکستان کے پاس جنگی جہاز میزائل بھی تھے مگر وہ نہ کوئی سپاہی غزہ بھیج سکے اور نہ غزہ میں قتل عام اور نسل کشی کو روک سکے۔ تاریخ لکھی جائے گی کہ سعودی عرب نے اربوں ڈالر ناچ گانے کی پارٹیوں پر لٹا دئیے لیکن غزہ میں روٹی پانی نہیں تھا اور تاریخ لکھی جائے گی کہ 1947میں پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لیکن اس نے غزہ میں اپنے اسلامی بہن اور بھائیوں کی مدد کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ تاریخ لکھی جائے گی کہ ایران اور ترکی نے اسلام کا نام تو بہت استعمال کیا لیکن غزہ کے قتل عام کو روکنے کے لیے ایک قدم بھی نہ اٹھایا جبکہ مسلمانوں کے قتل عام میں حصہ بہت ڈالا۔ جب تاریخ لکھی جائے گی کہ مغرب میں لوگ اسرائیلی تباہ کاریوں کے خلاف سڑکوں پر نکلتی رہی لیکن مسلمان ممالک میں لوگ گھروں میں بیٹھے رہے۔ اپنے روٹین کے کاموں میں مشغول رہے۔ جب تاریخ لکھی جائے گی کہ مسلمان قوم اپنے حکمرانوں کو تو مورد الزام ٹھہراتی رہی لیکن پیپسی، کوک، سپرائٹ اور اسٹنگ پینا چھوڑ سکی، نہ میکڈونلڈ اور کے ایف سی کے برگر کھانا چھوڑ سکی، نہ ہی دیگر یہود و نصاری کی مصنوعات کی خرید و فروخت چھوڑ سکی۔
ہم سب جو کام کر سکتے ہیں وہ ہے صیہونی نواز برینڈز اور ان کی پراڈکٹس کا مکمل بائیکاٹ۔ پاکستان میں موجود صہیونی نواز برینڈز کی ہر پراڈکٹ کی تصویر اور اس کے متبادل کے چارٹ سوشل میڈیا پر موجود ہیں جن سے ہر کوئی معلوم کرسکتا ہے کہ اگر کسی چیز کا بائیکاٹ کرنا ہے تو پاکستان میں اس پراڈکٹ کا نعم البدل کون سے برینڈ کی وہی چیز ہے جو مارکیٹ سے خرید سکتے ہیں۔ ہم غزہ کے حالات پر دکھی ضرور ہیں، مگر نا امید نہیں ہیں، اگر ہم اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرتے رہیں تو یقینا اسی صورتحال میں اللہ پاک کی ایسی نصرت آئے گی کہ آنکھیں حیران بھی ہوں گی اور ٹھنڈی بھی۔ بس آپ نے یہ دو کام لازمی کرنے ہیں۔ ایک ہر سطح پر سلیقے کے ساتھ منظم اور مسلسل احتجاج اور دوسرا اسرائیلی اور امریکی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ۔ تو کریں گے آپ یہ دو کام؟