انسان یا دیوتا

پی ٹی آئی کے اہم رہنما اعظم سواتی نے قرآن پر حلف کے ساتھ تہلکہ خیز انکشافات کیے ہیں۔ اعظم سواتی کا کہنا ہے کہ دسمبر 2022میں موجودہ آرمی چیف کی تقرری کے بعد عمران خان نے مجھے بلا کر کہا کہ میں آرمی چیف سے بات کرناچاہتا ہوں۔ اعظم سواتی نے دعویٰ کیا کہ بانی پی ٹی آئی نے خود مجھے کہا کہ آپ پر مجھے اعتماد ہے، آپ جائیں اور فوجی قیادت سے بات کریں۔ جس کے بعد میں نے جنرل عاصم منیر کے استاد کے ذریعے کوشش کی، عاصم منیر کے قریبی دوست سمیت عارف علوی کے ذریعے بھی آرمی چیف سے بات کی کوشش کی لیکن بند دروازے نہ کھلے۔ اعظم سواتی کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے عمران خان پر واضح کر دیا تھا کہ ان کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔

اعظم سواتی کے حلفیہ ویڈیو بیان نے تہلکہ مچا دیا ہے۔ ان کے اس بیان نے ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان کے بیانیے کے غبارے میں سوئی چبھو دی ہے۔ گزشتہ ہفتے علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر سیف کے ساتھ عمران خان کی اڈیالہ میں ملاقاتوں کے بعد یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کرنے کا انہیں اختیار دے دیا ہے۔ اس پر پی ٹی آئی کے ورکرز اور باہر بیٹھے یوٹیوبرز نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ انہوں نے ان اطلاعات کو بے بنیاد اور من گھڑت قرار دیا تھا۔ ان میں سے کسی کی رسائی جیل میں بیٹھے قیدی تک نہیں۔ عمران خان کے بارے میں جتنے دعوے بھی باہر بیٹھے یوٹیوبرز کرتے ہیں وہ سب ان کے ذہنوں کی اختراع اور ذاتی خواہشات پر مبنی ہوتے ہیں۔ حقیقت سے ان کا دور کا تعلق بھی نہیں ہوتا۔ انہیں عمران خان کو جرات و بہادری کے سمبل کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے کہ ان کی کمائی کا ذریعہ اور دارومدار اس جھوٹ کا منجن بیچنے پر ہے۔ جس دن انہوں نے سچ بولنا شروع کر دیا اسی دن ان کے ویوز کم اور کمائی میں تنزلی کا آغاز ہو جائے گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہیں پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی شدید تنقید اور ٹرولنگ کا سامنا بھی کرنا پڑے گا کہ سچ برداشت کرنا ان کے بس میں بھی نہیں ہے۔

عمران خان کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ نرگسیت کا شکار ہو چکے ہیں۔ خود کو عقلِ کل سمجھنے اور اس کا دعویٰ کرنے والے عمران خان خود کو ماسٹر آف آل ٹریڈز کہنے کے خبط میں مبتلا ہیں۔ وہ امریکنوں سے زیادہ امریکا کو اور انگریزوں سے زیادہ برطانیہ کو جاننے کے دعوے کرتے رہے ہیں۔ خود کو ہرفن مولا سمجھنے والے نے اپنا ایسا بُت تراشا کہ وہ اپنے ورکرز اور پیروکاروں کی نظروں میں انسان کی بجائے دیوتا بن گئے۔ وہ انہیں اس سنگھاسن سے نیچے اتارنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔ شنید ہے کہ عمران خان سانحہ 9مئی پر معذرت کرنے کو تیار ہو گئے ہیں، البتہ وہ معافی مانگنے پر تیار نہیں۔ ان کے سامنے مسئلہ وہی انا کے بت والا ہے۔ انہیں بھی اس بات کا پتا ہے کہ جس دن انہوں نے معافی مانگ لی وہ ہیرو سے زیرو ہو جائیں گے۔ دوسری طرف ان کی معذرت کو قبول کرنے کو کوئی بھی فی الحال تیار نہیں ہے۔ جواب یہ دیا گیا ہے کہ جو بات بھی کرنی ہے حکومت سے کریں۔

کچھ عرصہ قبل عمران خان نے فوج کے سربراہ کے نام خطوط لکھنے کی ایک سیریز شروع کی تھی جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ انہیں این آر او دینے کے ساتھ ساتھ راج گدی پر بھی بٹھایا جائے۔ ان کی یہ کوشش رائیگاں گئی تھی۔ آرمی چیف نے تب بھی یہی موقف اختیار کیا تھا کہ یہ خط انہیں نہیں ملے۔ اگر انہیں ایسا کوئی خط ملا بھی تو وہ اسے وزیرِ اعظم کو بھیج دیں گے، جبکہ عمران خان جو فوج کی سیاست میں مداخلت کے بظاہر مخالف ہیں اسی فوج کے ساتھ سیاسی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنا پسند نہیں کرتے۔ وہ اس حکومت کو ہر حال میں گرانے کے خواہشمند ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ خود اور ان کی پارٹی بار بار اسلام آباد پر چڑھائی بھی کر چکی ہے۔ وہ کسی کی سنتے بھی نہیں ہیں ورنہ کوئی ان کو مشورہ دے دیتا کہ اگر ان کے کسی حملے کے نتیجے میں حکومت گر بھی گئی تو اقتدار عمران خان کو نہیں ملے گا۔ یہ سیاسی حکومت ہی ہے جس کی وجہ سے عمران خان کسی بڑی سزا سے بچے ہوئے ہیں۔ غیرسیاسی حکومت ہو گی تو سزا کی نوعیت بدل بھی سکتی ہے۔ فی الحال تو اسٹیبلشمنٹ نے پکا ارادہ کیا ہوا ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو اس نے دوسرا بھٹو نہیں دینا۔

بات اعظم سواتی کے حلفیہ بیان سے چلی تھی۔ انہوں نے پی ٹی آئی ورکرز، سپورٹرز اور یوٹیوبرز کو اپنی طرف سے یہ بتانے اور سمجھانے کی پوری کوشش کی ہے کہ ان کا لیڈر دیوتا نہیں ایک عام انسان ہے۔ اس سے اپنی اور لوگوں کی توقعات اس قدر نہ بڑھائیں جو ان کے لیڈر کی فیصلہ سازی میں مزاحم ہوں۔ انہیں یہ حقیقت بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ عمران خان کسی رعایت کے بدلے تو رہا ہو سکتے ہیں، میرٹ پر ان کی رہائی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔