”اسرائیلی وزیراعظم جنگی مجرم ہیں۔ ان کے خلاف عالمی عدالتِ انصاف میں مقدمہ چلایا جائے۔” یہ الفاظ قائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کے ہیں، جو انہوں نے گزشتہ کل ایک بڑے جلسے سے خطاب میں کہے۔
بالکل ایسا ہی ہے۔ ہم آپ کے سامنے اسرائیلی جنگی جرائم کی فہرست رکھتے ہیں۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ”ایسے ارکان جو مستقل اس کے منشور کی خلاف ورزی کریں گے، انہیں اقوام متحدہ سے خارج کردیا جائے گا۔” لیکن اسرائیل پون صدی سے اس کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کرتا چلا آرہا ہے، اس کے خلاف تاحال کوئی کارروائی ہوسکی ہے اور نہ ہی ہوسکتی ہے۔ اسرائیل نے کوئی پہلی دفعہ جنگی جرم نہیں کیا ہے بلکہ اپنے ناجائر قیا م سے لے کر آج تک مسلسل کرتا چلا آرہا ہے۔ اسرائیل اب تک اقوام متحدہ کی 70سے زائد قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک چکا ہے۔ اسرائیل نے غزہ میں جنیوا کے قوانین کو پامال کرتے ہوئے اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کو نشانہ بنایا۔ اسکول اور کالجوں پر میزائل داغے۔ کیمیاوی ہتھیار اور فاسفورس بم استعمال کیے۔ گمنام جگہوں پر شہید ہونے والے فلسطینیوں کے اجسام کی بے حرمتی کی۔ فلسطینی بچوں کو اغوا کرکے ان کے اعضا نکالے۔ قبلہ اول مسجد اقصیٰ کا تقدس پامال کیا۔ امدادی کارکنوں پر بمباری کی۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے اہلکار بھی اس ظلم سے نہ بچ سکے۔
مسلّمہ قانون ہے دورانِ جنگ بچوں، بوڑھوں اور خواتین کو امان حاصل ہوگا۔ ہتھیار نہ اْٹھانے والوں پر فائرنگ اور بمباری نہیں کی جائے گی لیکن اسرائیلی درندوں نے بچوں، مریضوں، ضعیفوں حتیٰ کہ ایمبولینسوں اور فلاحی اداروں کے امدادی کارکنوں تک لہو میں نہاگئے۔ بیسیوں بے گناہوں حتیٰ کہ راہگیروں اور امدادی ورکروں کو گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں ڈالا گیا۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق امدادی اور انسانی ہمدردی کے تحت جانے والے کارکنوں پر حملہ نہیں کیا جاسکتا لیکن اسرائیل متعدد بار بار ایسا کرچکا ہے۔ ایک قیدی نے ”رملہ جیل” سے لکھا ہے: ”میرا نام سنتھیا میکنیے ہے۔ میں انسانی حقوق کے ان 21 ارکان میں سے ہوں جو اس وقت قید ہیں۔ جنگ کے دوران ہم زخمیوں کے لیے ادویات پہنچانے غزہ کی طرف جارہے تھے اسرائیلیوں نے ہماری گاڑی پر فائرنگ کردی۔ ہمیں پکڑکر گرفتار کرلیا اور پھر جیل میں ڈال دیا گیا۔ ہم دنیا کے مہذب لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں ہمارے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے؟ ہم غزہ کے زخمیوں تک بنیادی ضروریات کی چیزیں پہنچانا چاہتے تھے لیکن اسرائیلی فوج نے یہ کہتے ہوئے گرفتار کرلیا کہ دہشت گردوں کو طبی امداد کیوں پہنچارہے ہو؟ ان فلسطینیوں کو یونہی تڑپ تڑپ کر مرنا چاہیے۔” میں نے جرات کرتے ہوئے کہا: ”انسانیت کے ناتے ان کے لیے فرسٹ ایڈ ضروری ہے لیکن اسرائیلی فوج نے میری ایک نہ سنی اور فلسطینی زخمی عوام کو طبی امداد پہنچانے کے جرم میں گرفتار کرکے رملہ کے عقوبت خانے میں ڈال دیا گیا حالانکہ میرا مشن انسانی حقوق، معاشرتی انصاف اور بلارنگ ونسل، قوم ومذہب صرف انسانیت کی خدمت ہے۔ میں سوچتی ہوں جب مجھ جیسی عورت کے ساتھ اسرائیلی فوج نے یہ ظلم کیا ہے تو عام فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ وہ کیا کیا انسانیت سوز کام کرتے ہوں گے؟” آخر میں سنتھیا میکینے اقوام متحدہ ، او آئی سی ،عرب لیگ،انسانی حقوق کی تنظیموں،مسلم دنیا کے 58 حکمرانوں اور امریکی صدرسے اپیل کرتی ہیں وہ اسرائیلی عقوبت خانوں میں بے گناہ فلسطینی عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور گرفتار کیے گئے ہزاروں افراد کو آزاد کروائیں۔
اسرائیلی جیلوں اور عقوبت خانوں میں ہزاروں فلسطینی انتہائی صعوبتیں اٹھارہے ہیں۔ فلسطینی ”محکمۂ اسیران” کے ترجمان کا کہنا ہے فلسطینی قیدیوں پر نئی نئی تیار کردہ ادویات کے تجربات بھی کیے جارہے ہیں۔ بیشتر تجربات معصوم بچوں پر کیے جاتے ہیں۔ ان ادویات کے استعمال سے ایک ہزار قیدی شدید متاثر ہیں جن میں سے ایک سو پچاس کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے عالمی ریڈ کراس تک کے نمایندوں تک کو اسرائیلی جیلوں کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ کتوں بلوںکے خراش آنے پر آسمان سر پر اٹھانے والی مغربی این جی اوز کو اس پر آواز اْٹھانی چاہیے۔
اسرائیل کا ایک جرم یہودی بستیوں کی آباد کاری ہے۔ اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق اسرائیل مزید بستیاں تعمیر نہیں کرسکتا۔ متعدد بار تعمیر روکنے کا حکم بھی دیا جاچکا ہے لیکن یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے یہودیوں نے فلسطین کے علاقوں پر غیر قانونی طورپر قبضہ کیا۔ یہودی قیادت کو شروع میں ایسا کرنے سے روکنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی گئی جس کی وجہ سے اسرائیل کے حوصلے بلند ہوتے چلے گئے اور وہ فلسطین کے مزید علاقوں پر قابض ہوتا گیا۔ آج صورتِ حال یہ ہے اسرائیل فلسطین کے ایک بڑے علاقے پر قابض ہوچکا ہے اور اس کی ناجائز توسیع کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ یہودی بستیوں کی تعمیر کا آغاز 1947ء سے ہوا۔ اس کے بعد سے ان میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے، حالانکہ قیام امن کے بین الاقوامی منصوبے کے تحت اسرائیل نے یہودی بستیوں پر کام روکنے کا پکا وعدہ کیا تھا۔ مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ، گولان کی پہاڑیاں یہ سب مقبوضہ علاقہ جات ہیں اور اسرائیل کا حصہ نہیں۔
اسرائیل نے 85 فیصد پانی یہودی آباد کاروں کے لیے مخصوص کیا ہے جبکہ باقی 15 فیصد فلسطینی مسلمانوں کے لیے چھوڑا ہوا ہے۔ غربِ اردن اور غزہ میں بنی تمام یہودی بستیاں بین الاقوامی اصولوں کے تحت غیر قانونی ہیں۔ ایرئیل نامی ایک یہودی بستی میں 18 ہزار صہیونی رہائش پذیر ہیں۔بش دور میں دنیا میں سب سے زیادہ امداد اسرائیل کو دی گئی۔ امریکا کے بیشتر خیراتی ادارے اپنی ساری رقم اسرائیل کو بھیجتے ہیں۔ پھر ان امدادی رقوم کو فلسطینیوں کے استحصال کے ”کارِ خیر” میں خرچ کردیا جاتا ہے۔ ”عطیرت کوہنیم” نامی ایک اسرائیلی تنظیم امریکا سے تعلیم کے فروغ کے لیے امداد وصول کرتی ہے لیکن اس رقم سے عربوں کی جائیداد خرید کر یہودیوں کو مفت فراہم کرتی ہے۔ ایک اور ادارہ ”امریکن فرینڈز آف کوہنیم” ہر سال لاکھوں ڈالر امریکا سے جمع کرکے فلسطینی زمینوں پر تعمیرات کرتا ہے۔ 1970ء سے لے کر اب تک یہ تنظیم اربوں ڈالر اسرائیل کو فراہم کرچکی ہے۔ اس تنظیم نے غریب فلسطینیوں کو ہدف بنارکھا ہے۔ تنظیم کے کارکن غریب فلسطینیوں کے پاس جاکر انہیں زیادہ سے زیادہ قیمت کا لالچ دیتے ہیں او رمکان خرید کر اسرائیلیوں کے لیے وقف کردیتے ہیں۔ یہ سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے مگر کوئی نہیں جو آواز اٹھائے۔
اسرائیل کا ایک بڑا جرم غیر قانونی اور ممنوع اسلحے کا بے دریغ استعمال ہے۔ قانون کے مطابق جوہری اور فاسفورس بم استعمال نہیں کرسکتا، مگر غزہ جنگ کے دوران صہیونیوں نے ایسا بارود استعمال کیا کہ بچے موم کی طرح پگھل گئے۔ اس پر ڈاکٹروں کی رپورٹیں شاہد ہیں۔ اسرائیل کا ایک جرم استعماری عزائم اور مشرقِ وسطیٰ میں بالادستی کا خناس ہے۔ جس کی وجہ سے کبھی وہ ایران کو دھمکیاں دیتا ہے تو کبھی شام کو، کبھی لبنان کو تو کبھی اردن کو، کبھی پاکستان کا ایٹمی پروگرام تباہ کرنے کے لیے بھارت سے گٹھ جوڑ کرتا ہے تو کبھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ہمسائے ممالک خصوصاًپاکستان میں تخریب کاریاں کرواتا ہے۔ یہی وجہ ہے اسرائیل کے پڑوسی ممالک میں سے کسی کے ساتھ بھی خوشگوار تعلقات نہیں ہیں۔
سوال یہ ہے عالمی سطح پر کیا اب بھی اسرائیل کو جنگی مجرم قرار نہیں دیا جائے گا؟اسرائیل جنگی مجرم ہے۔ غزہ پر حملے کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی۔ بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔ اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات کو انسداد جرائم کی عالمی عدالت میں پیش کرنا چاہیے تاکہ اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔