سلطنت کا عالم یہ تھا کہ تین براعظم پر حکومت پھیلی ہوئی تھی ۔ دمشق سے کا شغر تک، افریقہ میں سینیگال چاڈ تک اور ادھر جنوبی فرانس تک لاکھوں مربع میل ۔معیشت کا عالم یہ تھا کہ زکوٰة دینے والے تو کثرت سے تھے لیکن لینے والا کوئی نہ تھا۔ لیکن اس سلطنت اور معیشت کے روح ورواں عمر ثانی کے گھر کا یہ حال تھا کہ عید کے موقع پر بچوں نے اپنی والدہ کے سامنے جب کپڑوں کی خواہش کا اظہار کیا تو شام کو جب حضرت عمربن عبد العزیز گھر تشریف لائے تو خاتون اوّل نے کہا کہ عید آرہی ہے اور بچے کپڑے مانگ رہے ہیں، کہا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ بالآخر یہ مشورہ طے ہوا کہ آپ ایک ماہ کی تنخواہ ایڈوانس لے لیں۔ ادھر پرچی اٹھائی، قلم ہاتھ میں پکڑا ہی تھا کہ بچوں کے چہرے خوشی سے کھل گئے۔ ایک دوسرے کے جانب مسکرا کر دیکھنے لگے۔ اہلیہ کو یقین تھا کہ بیت المال کے امین فوراًاس حکم نامے پر عمل درآمد کر دیں گے کیونکہ خزانہ تو لبا لب بھرا ہوا تھا۔ آج کے دور کا یوں سمجھیں کہ زر مبادلہ کی کثرت تھی۔ مال و زر سے بھرپور تھا۔ مملکت اسلامیہ کو کہیں سے بھی قرض لینے کی ضرورت تھی نہ ملک میں کسی بھی طرح کی مہنگائی، نہ بھتہ خوری تھی۔ ناجائز قبضوں کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ ناجائز لوٹا ہوا مال حقداروں کو اصل وارثوں کو مل چکا تھا۔
تاریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز بیت المال کے خزانچی ‘مزاحم’ کے پاس پہنچے۔ اسے جب منت بھرے لہجے میں ایڈوانس کی درخواست کی تو اس نے تاریخی جملہ کہا کہ” آپ یہ لکھ کر دے دیں کہ ایک ماہ تک میں زندہ رہوں گا ”۔اور پھر امیر المونین عمربن عبدالعزیز کے بچوں کے لیے عید کے موقع پر نئے کپڑے نہ بن سکے اور انہوں نے پرانے کپڑوں میں ہی عید منائی۔ عید کی نماز ہوگئی۔ سارے سرداران کے بچوں نے اس موقع پر رزق برق لباس پہن رکھے تھے، وہ ملنے آرہے تھے لیکن آپ کے بچے انہی پرانے کپڑوں میں ملبوس تھے۔ آپ چاہتے تو بیت المال سے اتنی رقم لے سکتے تھے۔ آپ نے ایسا بالکل نہیں کیا۔ نہ امانت میں خیانت کی۔ آپ نے اپنے بچوں سے فرمایا: آج تمہیں اپنے باپ سے گلہ تو ہوگا کہ عید کے کپڑے نہیں لے کر دے سکتا۔ آپ کے ایک بیٹے عبد الملک جو کہ آپ کی زندگی میں فوت ہو گیا تھا اس نے کہا کہ نہیں ابا! آج ہمارا سر فخر سے بلند ہے کہ ہمارے باپ نے خیانت نہیں کی۔
آپ کو خلیفۂ راشد بھی کہا جاتا ہے اور آپ خلیفۂ صالح کے نام سے بھی مشہور ہیں۔آپ نے اسلامی ملک کا انتظام سنبھالتے ہی میں ملک کی ایسی مالی و معاشی اصلاح کر کے رکھ دی تھی کہ ہر طرف خوش حالی کی لہر دوڑ گئی اور ملک سے غربت کا خاتمہ ہو کر رہ گیا۔ کیونکہ آپ نے اشرافیہ کے طبقے سے تمام مراعات، ناجائز مال و دولت واپس لے کر حقداروں اور اصل وارثوں کو لوٹا دیا تھا۔ جب رعا یا خوشحال ہونے لگی تو زکوٰة کی زیادہ سے زیادہ ادائی ہونے لگی اور اسلام کے اس نظام کو جب صحیح طریقے سے رائج کیا گیا اس کے ساتھ ہی عوام نے اور حکومت کے بیت المال کی طرف سے ناداروں، غریبوں، مسکینوں، ضرورت مندوں کی مالی امانت کی جانے لگی، کرپشن، لوٹ مار ایک دوسرے کے جائیداد، زمینوں، پلاٹوں پر ناجائز قبضوں کی کسی کو بھی ہمت نہ تھی۔ تو ایسے میں لاکھوں مربع میل پر پھیلے کروڑوں افراد خوشحال ہونے لگے۔
اسلام نے میں ہمیں ایسا معاشی و مالی نظام دیا ہے جس کی عملی مثال آپ نے قائم کی، جب ہی خلیفہ راشد آپ کو کہا جاتا ہے ۔صرف تیس ماہ سے بھی کم عرصے میں مملکت کو اس مقام پر لا کھڑا کیا۔ جیسے خوشحال، دنیا کی امیر ترین، مضبوط دفاعی قوت والی مملکت سمجھا جانے لگا۔ہمارے دین نے ہمیں انتہائی مضبوط ترین معاشی و مالی نظام دے کر اسے مالی عبادت کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ زکوٰ ة،خیرات، صدقات اور خصوصاً فطرہ، جس کے بارے میں کہا گیا کہ عید کی نماز سے قبل ادا کر دیا جائے۔ ایک اندازے کے مطابق اگر پاکستانی مسلمان فطرہ کی ادائی بروقت اور مستحق تک پہنچا دیں تو 60 ارب سے 80 ارب روپے تک معیشت میں سرایت کرسکتا ہے۔ کیونکہ یہ روپے جب معاشرے کے غریب افراد اور مستحقین تک کسی کے پاس ایک ہزار کسی کے پاس دو ہزار وغیرہ پہنچیں گے، تو اس سے ضروریات زندگی کی طلب پیدا ہوگی اور اس کے ساتھ رسد بڑھانے کی خاطر ان اشیاء کی پیداوار بڑھائی جائے گی۔
اب اس کو زکوة، خیرات ،صدقات اور امیر افراد کی طرف سے کسی کی مدد، کسی کو روز گار پر کھڑا کرنے کی کوشش، کسی کو قرض حسنہ دے دینا۔ کسی کے تجارتی نقصان کو ثواب کی نیت سے پورا کر دینا، صرف اللہ کی رضا کے لیے کسی غریب شخص کا قرض معاف کر دینا یا اسے مزید مہلت دے دینا اور بے شمار کام ایسے ہیں جو کہ مملکت جمہوریہ اسلامیہ کے صاحب حیثیت افراد اپنے مالی عبادت کے ذریعے پاکستان سے غربت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ اس طرح کھربوں روپے معیشت میں سرایت کر جائے گی۔عید المبارک کے اس موقع پر اپنے اردگرد نظر ڈالیں تو بے شمار بچے بچیاں نئے کپڑوں سے محروم دکھائی دیں گے۔ اگر صاحب حیثیت ان غریب نادار مسکین افراد اور یتیم بچے بچیوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے کی کوشش میں لگ جائیں تو مدد کرنے والے کی بھی عید کی خوشیاں دوبالا نہیں بلکہ سہ بالا ہوجائیں گی۔