رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اختتام پذیر ہے، لیکن پاکستان سمیت دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر ایک طوفان بدتمیزی ہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ رمضان کی مقدس ساعتوں کو ذاتی پسند و ناپسند کے چکر میں ضائع کیا جا رہا ہے۔ غزہ میں جاری مظالم اوجھل کر دیے گئے ہیں۔ اسرائیل سے ترکی تک، پاکستان سے افغانستان تک، روس سے یوکرین تک کے مسائل پرسوشل میڈیا پر ایک جھوٹ کا سمندر جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر نوجوان طبقہ ان عالمی طاقتوں کا سب سے آسان شکار ہے۔
رمضان کے آخری عشرے میں بھی اب اس طرح مسلمان عبادت کی طرف متوجہ نہیں ہیں، جس طرح امت مسلمہ کا طریقہ رہا ہے، ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ سوشل میڈیا میں اپنا کردار سامنے لائے اور اس مقصد کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ ہر شخص اور فریق کی خواہش ہے کہ اس کے موقف کو درست سمجھا جائے، دلائل دونوں جانب سے بھاری ہیں۔ رہی بات صحافیوں کی بھی تو یہ واضح ہوگیا ہے کہ سوشل میڈیا کو وہ بھی ایک پروپیگنڈے کے آلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
عالمی نظام کے اہم عمل پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مکمل اثر و رسوخ کے حالات میں انفارمیشن اسپیس دراصل جغرافیائی سیاسی وسعت کے سب سے طاقتور ہتھیاروں میں سے ایک بن گیا ہے۔ جدید دنیا کا میڈیا اسپیس سادہ ابلاغی اور معلوماتی مقصد سے بہت آگے نکل گیا ہے۔ سماجی تعلقات کے جدید وسائل سماج کو صرف معلوماتی مواد فراہم نہیں کرتے بلکہ عالمی اور مقامی قوتوں کی مرضی کے مطابق صف بندیاں کرانے میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔سوشل میڈیا سیاسی و نظریاتی جنگ کے ہتھیار میں بدل گیا ہے۔ متعدد ممالک میں سیاسی حکومتوں کی تبدیلیاں، خانہ جنگیاں، بغاوتیں برپا کرائی جارہی ہیں۔
اب اس بات میں کوئی شک باقی نہ رہا کہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز جھوٹے پروپیگنڈے کے لیے ہر سطح پر استعمال کئے جا رہے ہیں، جس سے ایک جھوٹ کا طوفان برپا ہے، عوام کو اصل حقائق سے دور کیا جا رہا ہے۔ لفظ فورتھ جنریشن وار کو ہی دیکھ لیں، اتنا غلط استعمال ہوا کہ ہر شخص اسے فیفتھ جنریشن وار کے نام سے پکار رہا ہے۔ سطحی معلومات، اپنے آپ کو مشہور کرنے کے لئے سوشل میڈیا ایکٹویسٹ، یوٹیوبر، وی لاگر ہر وہ ہتھکنڈا استعمال کر رہے ہیں کہ جس سے ان کی ویور شپ اور سبسکرائبر بڑھیں اور کمائی کی لالچ میں کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ اسی طرح حکومتی ارکان کے سوشل میڈیا اکاونٹس، اپوزیشن والوں کے سوشل میڈیا ٹیمیں جائز ناجائز ہر قسم کی زبان الفاظ، تصاویر اور ویڈیوزکو استعمال کر رہے ہیں کہ کسی طرح رائے عامہ ان کے حق میں ہو جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی طرح ان پلیٹ فارمز پرگیٹ کیپر کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا آزادی اظہار کے نام پر جو ادھم مچایا جا رہا ہے، کیا یہ جائز ہے؟ اگر عالمی ٹھیکیداروں کے مفادات کے خلاف آپ سوشل میڈیا پر کچھ اپ لوڈ کرتے ہیں، آپ کو بلاک کر دیا جاتا ہے، آپ کا مواد ہٹا دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف انہیں سائٹس پر آپ کو اسلام مخالف اور فحاشی کے فروغ کے حوالے، آزادی ہے۔گویا سوشل میڈیا کو ایجاد کرنے والوں نے ”کمیونٹی اسٹینڈرڈز” کے نام پر خود تو اس کے لیے کچھ حدود و قیود رکھی ہیں،مگر اگر کوئی اور اس کے لیے کچھ حدود وقیود کی بات کرتا ہے تو وہاں انہیں” آزادیٔ اظہار” کا دورہ پڑجاتا ہے۔
ہمارے دوست اور” اسلام اور امن فاؤنڈیشن ”کے سربراہ رمیل مسکوچ نے اسی تناظر میں ایک پروگرام” انٹرنیشنل لیگ آف سوشل میڈیا ”کے نام سے مختلف ممالک کے میڈیا اسپیس میں کام کرنے والے لوگوں کو متحد کرنے کے لیے ڈیزائن کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 21ویں صدی کے ربع اول کے اختتام پر انسانیت واقعی خود تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے، عالمی میڈیا کی جگہ ایسی قوتوں نے چھین لی ہے جن کے لیے کرہ ٔارض کے عام لوگوں کے مفادات ثانوی ہیں۔ میڈیا کے ذریعے مطلق العنان عالمی تسلط کے دعویدار عالمی نظام کی اپنی غیر انسانی تشریح کو دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ ناقابل قبول ہے اور اس کا فعال طور پر مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ لیگ کا مقصد، ٹھوس اور وسیع بین الاقوامی معلومات کے تبادلے کے ذریعے عالمی برادری کے ممالک کی آبادی کو معروضی طور پر آگاہ کرنا، لوگوں کو مضبوط کرنا، ان ممالک اور لوگوں کے امن و خوشحالی کو لاحق خطرات کو بے نقاب کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا ہے جو مطلق العنان دنیا پر تسلط کے دعویداروں کے توسیع پسندانہ دعووں کے یرغمال بن چکے ہیں۔ہم ان تمام لوگوں سے اپیل کرتے ہیں جو اپنے آباؤ اجداد کی یاد اور ورثے کو عزیز رکھتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کی قسمت کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ اس خطرے کے خلاف مل کر کام کریں۔ سوشل میڈیا کے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کا تباہ کن عنصر دنیا میں غالب ہے، اور اگر اس کی فعال مخالفت و مزاحمت نہیں کی گئی تو انسانیت کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑسکتی ہے۔ باہر بیٹھنا یا آنے والی تباہی کا انتظار کرنا ممکن نہیں ہوگا۔