عالم اسلام صدائے احتجاج بلند کرنے سے بھی قاصر ہے؟

قابض و غاصب دہشت گرد صہیونی ریاست اسرائیل نے غزہ کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے منصوبے پر کام تیز کردیا ہے اور 8روز سے مسلسل فضائی بمباری کے ساتھ ساتھ اب زمینی جنگ کے لیے رفح میں گھسنے کا اعلان کردیا ہے۔

قابض اسرائیلی فوج نے قتل و غارت گری اور نسل کشی میں وحشیانہ اضافہ کرتے ہوئے متعدد گھروں پر بمباری کی جس کے نتیجے میں 61افراد شہید ہوگئے۔ مرکزاطلاعات فلسطین نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ کی پٹی پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، جن میں صبح کے وقت خان یونس پر کم از کم 16 حملے بھی شامل ہیں۔ رات بھر صہیونی جرائم کے نتیجے میں پٹی کے رہائشیوں نے دہشت اور خوف میں رات گزاری۔ سہ پہر خان یونس اور رفح شہروں کے درمیان المواصی کے علاقے میں بے گھر افراد کے خیموں پر قابض فوج کی بمباری میں پانچ شہری شہید ہوگئے۔ قابض فوج نے رفح کے مغرب میںریڈ کراس کے ہیڈ کوارٹر پر ٹینک کے گولے سے بمباری کی۔قبل ازیں قابض اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے جنوب میں واقع خان یونس میں ناصر میڈیکل کمپلیکس کی ہنگامی عمارت پر جنگی طیاروں کے ذریعے بمباری کی جس کے نتیجے میں ایک بچے سمیت دو فلسطینی شہید اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ تل السطان کے علاقے میں ہزاروں شہری جن میں بچے، خواتین اور بوڑھے شامل ہیں چاروں طرف سے اسرائیلی فوج کے شدید محاصرے اور بمباری میں پھنسے ہوئے ہیں، جن کے بچنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے ۔میونسپلٹی نے ایک بیان میں کہا کہ پڑوس سے مواصلاتی رابطے مکمل طور پر منقطع ہو چکے ہیں اور صحت کی خدمات کے مکمل خاتمے کے درمیان خاندان پانی، خوراک یا ادویات کے بغیر ملبے میں پھنسے ہوئے ہیں۔بچے محاصرے اور مسلسل بمباری کی وجہ سے بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں روٹی کا بحران پھر واپس آ گیا ہے، کراسنگ کی مسلسل بندش اور بیکریوں کو چلانے کے لیے ضروری ایندھن کی کمی کے باعث کھانے کی اشیاء کی تیاری میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

ادھر مقامی صحافی راجی الھمص نے کہا ہے کہ غزہ میں طویل صہیونی جارحیت کے بعد عارضی جنگ بندی کے باوجود بھوکے پیاسے محصورین غزہ بے بسی کی مجسم تصویر بنے ہوئے ہیں مگر دوسری طرف دنیا کے خزانوں کے مالک دو ارب مسلمان نہتے غزہ کے لوگوں کی مدد کے لیے اپنا فرض پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ ‘دو ارب نفوس کی حامل مسلم امہ غزہ آپ کی طرف سے تھمائی گئی امانت کو اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے مگر بھوک اور ننگ پھر لوٹ آئے ہیں جو ہمارے بچوں کے معدوں کو کھا رہے ہیں’۔ الھمص نے نوجوانوں، سماجی کارکنوں، علمائ، سیاسی رہنماؤں، شیوخ اور تمام بااثر شخصیات سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے اپنے حلقوں میں غزہ میں بڑھتے افلاس اور بھوک کے خلاف آواز بلند کریں اور غزہ پر مسلط کردہ محاصرہ توڑنے کے لیے، صہیونی ریاست کی جانب سے گزرگاہوں کی بندش اور انسانی امداد کے لیے ضروری انسانی امداد کے داخلے کی روک تھام کے لیے آواز بلند کریں۔

مشرق وسطیٰ کے حالات پر نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ غزہ کی موجودہ تباہ کن صورت حال پورے مشرق وسطی کے مستقبل کا تعین کرے گی۔اسرائیل نے امریکا کے بد کردار اور مخبوط الحواس صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ پر قبضہ کرنے اور وہاں کے تیس لاکھ باشندوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کے غیر قانونی منصوبے پر عمل شروع کردیا ہے۔اس مقصد کے لیے باقاعدہ ایک ادارے کی تشکیل عمل میں لائی گئی ہے جو فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے کے منصوبے کی نگرانی کرے گا،اسرائیل کی اکنامک افیئر کمیٹی نے غزہ کی سرحد کے قریب جنوبی اسرائیل میں ایک نئے بین الاقوامی ایئرپورٹ کی تعمیر کی منظوری دی ہے جہاں سے فلسطینیوں کو دیگر ممالک بھیجنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی نیتن یاہو کابینہ نے اگلے چند روز میں رفح میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی اور فضائی حملے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ صہیونی دہشت گردوں کو مسلم امہ کی بے حمیتی اور عربوں کی بے بسی کا اچھی طرح ادراک ہو چکا ہے چنانچہ اب وہ باقاعدہ حکمت عملی کے تحت فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کا سلسلہ شروع کرچکے ہیں۔ اگر اس موقع پر انہیں نہ روکا گیا تو وہ غزہ کو مکمل طور پر ملیامیٹ کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ دو ارب سے زائد مسلمانوں پر صرف افسوس ہی کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ اپنے بچوں اور خواتین کے ساتھ بدترین مظالم، انتہا درجے کی تذلیل اور ان کی ہر قسم کی توہین کو دیکھنے کے باوجود مسلم امہ کی لہو میں حرارت کی کوئی رمق پیدا نہیں ہو رہی۔ عالمِ عرب کے وہ حکمران جنھیں امریکا اور روس کے ساتھ تعلقات کا گھمنڈ لاحق ہے اوروہ یوکرین کے مسئلے پر ثالثی کے لیے فکر مند ہیں، اپنے عرب اور مسلمان بھائیوں پر ہونے والے ناقابل بیان مظالم پر اس قدر بھی تکلیف محسوس نہیں کر رہے جتنا کہ کسی نرم خو انسان کو کسی مکوڑے کے کچلے جانے پر ہوا کرتا ہے۔ جو حکمران ٹرمپ انتظامیہ کو کھربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی پیشکش کر سکتے ہیں وہ ان سے غزہ کے بچوں کا قتل عام رکوانے کی اپیل بھی نہیں کرسکتے۔ چشمِ فلک نجانے کیوں کہ ان شرم ناک مناظر کو دیکھ کر لہو رنگ آنسو نہیں برسا رہی اور نجانے کیسے یہ زمین اس ظلم کو دیکھ کر لرزنے کی بجائے ساکت و جامد ہے؟

مسلم حکمرانوں کی بے حمیتی، ضعف اور بے حسی کا یہ عالم ہے کہ وہ صہیونی درندوں کے مظالم پر مؤثر انداز میں مذمت کرنے سے بھی قاصر ہیں، گو کہ ان کی نام نہاد مذمت بھی مگرمچھ کے آنسوؤں سے کم نہیں ہوگی مگر بہر حال دنیا اسے ایک احتجاج کے طور پر ہی رجسٹر کرے گی۔ غزہ کے حوالے سے صدائے احتجاج بلند کرنے میں ان سفید فام ریاستوں کے منصف مزاج عوام مسلم حکمرانوں سے بہتر ثابت ہوئے ہیں جو کم از کم یومیہ بنیادوں پر دہشت گرد اسرائیل اور اس کی سرپرست ٹرمپ انتظامیہ پر نفرین تو بھیج رہے ہیں۔ فلسطینی مقاومتی تنظیم حماس نے دنیا بھر کے مسلمانوں اور آزاد اقوام سے اپیل کی ہے کہ وہ فلسطینی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو کم سے کم درجے میں اپنی اپنی سطح پر موثر انداز میں صدائے احتجاج تو بلند کرنی چاہیے اور اپنے حکمرانوں پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ بے حمیتی کی چادر اتارکرفلسطین میں جاری نسل کشی رکوانے کے لیے کوئی تو کردار ادا کریں۔ یہ کام ”ابھی یا کبھی نہیں ”کی بنیاد پر ہونا چاہیے اور امت مسلمہ کو اس نازک موقع پر ہر صورت میں اپنے وجود کا ثبوت دینا چاہیے۔