انسانی سماج اور آسمانی تعلیمات

گزشتہ سے پیوستہ:
اقلیتوں کا ”آل پاکستان مینارٹیز الائنس” کے نام سے ایک مشترکہ فورم ہے، ان کی ایک مرتبہ لاہور میں کانفرنس ہوئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ صدر کے عہدے کے لیے مسلمان ہونے کی پابندی ختم کی جائے۔ آپ این جی اوز کی قراردادیں اور سیکولر لابیوں کے مطالبات پڑھتے ہوں گے، ان میں ایک خاص اصطلاح استعمال ہوتی ہے کہ مذہبی امتیاز کے قوانین ختم کیے جائیں، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جہاں ملک کے مسلم شہریوں اور غیرمسلم شہریوں میں آپ فرق کرتے ہیں وہ مذہبی امتیاز کے قوانین ہیں اور مغرب ان قوانین کو تسلیم نہیں کرتا۔

ایک عنوان مذہبی حقوق کا استعمال ہوتا ہے کہ جو حقوق غیرمسلموں کو حاصل ہیں آپ ان پر پابندی نہیں لگا سکتے۔ اس پر ایک تنازع جو اس وقت عالمی اداروں میں چل رہا ہے، وہ یہ ہے کہ ہم نے قادیانیوں پر کچھ پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ 1974ء میں قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا تھا اور یہ فیصلہ دستور کے مطابق پارلیمنٹ نے کیا تھا۔ اور اس کے دس سال بعد 1984ء میں ایک ملک گیر عوامی تحریک کے نتیجے میں صدر ضیاء الحق مرحوم کا صدارتی آرڈیننس آیا تھا جس میں قادیانیوں پر مذہبی حوالے سے کچھ پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ مرکزی مجلسِ عمل تحفظِ ختمِ نبوت تمام مکاتب فکر کی مشترکہ جماعت تھی، حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب اس کے صدر تھے، بریلوی مکتب فکر کے مولانا مفتی مختار احمد نعیمی آف گجرات سیکرٹری جنرل تھے، اہل حدیث مکتب فکر کے مولانا عبد القادر روپڑی اور شیعہ راہنما علامہ علی غضنفر کراروی نائب صدر تھے، میں سیکرٹری اطلاعات تھا، مولانا اللہ وسایا صاحب رابطہ سیکرٹری تھے۔ ملک گیر مظاہرے ہوئے تھے اور اس کے نتیجے میں آرڈیننس جاری ہوا تھا جس میں قادیانیوں کو روک دیا گیا کہ وہ اسلام کا نام استعمال نہیں کریں گے اور مسلمانوں کی اصطلاحات استعمال نہیں کریں گے۔ ہر مذہب کے اپنی مخصوص اصطلاحات اور امتیازات ہوتے ہیں، مثلاً کلمہ طیبہ، مسجد، اذان، امیر المؤمنین، خلیفة المسلمین، ام المؤمنین، صحابہ کرام وغیرہ مسلمانوں کی اصطلاحات ہیں۔ اصطلاح جب کسی گروہ کے ساتھ مخصوص ہو جاتی ہے تو یہ اس کا حق بن جاتا ہے کہ کوئی دوسرا اس کو استعمال نہ کر ے۔ یہ دنیا کا مسلّمہ ضابطہ ہے جو صرف مذہب کے حوالے سے نہیں ہے بلکہ عمومی طور پر بھی ہے۔ اس اصول پر 1984ء میں یہ قانون نافذ کیا گیا کہ قادیانی مسلمانوں کی مخصوص اصطلاحات کو استعمال نہیں کر سکتے اور عوامی اجتماع بھی نہیں کر سکتے، اسی طرح کچھ اور پابندیاں تھیں۔

آج کے بین الاقوامی قوانین اور اداروں کا کہنا ہے کہ آپ نے قادیانیوں کے مذہبی حقوق غصب کیے ہوئے ہیں۔ مسلمانوں کو جلسہ کرنے کی اجازت ہے تو قادیانیوں کو کیوں نہیں ہے؟ مسلمانوں کو دروازے پر کلمہ طیبہ لکھنے کی اجازت ہے تو قادیانیوں کو کیوں نہیں ہے؟ مسلمانوں کو امیرالمؤمنین اور ام المؤمنین وغیرہ اصطلاح استعمال کرنے کی اجازت ہے تو قادیانیوں کو کیوں نہیں ہے؟ یہ پابندیاں انسانی حقوق کے عالمی نظام کے تحت مذہبی حقوق کے منافی ہیں اور اس معاملے کو قادیانی حضرات دنیا کے عالمی اداروں میں اسی عنوان سے پیش کرتے ہیں کہ پاکستان میں اس قانون کے تحت ہمارے مذہبی حقوق پامال کر لیے گئے ہیں اور ہماری مذہبی آزادیاں سلب کر لی گئی ہیں۔ چنانچہ اقوام متحدہ، یورپی یونین، جنیوا انسانی حقوق کمیشن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل وغیرہ جیسے ادارے اپنی رپورٹوں کی بنیاد پر قادیانیوں کی حمایت کرتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں ہمارے موقف کو پذیرائی نہیں مل رہی جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کا چارٹر اور انسانی حقوق کی جو تشریح عالمی ادارے کرتے ہیں، بادیٔ النظر میں ہمارا قانون اس کے خلاف ہے، کیونکہ انسانی حقوق کا چارٹر کہتا ہے کہ ہر آدمی کو مذہب اختیار کرنے، اس کا پرچار کرنے، اس کی تبلیغ اور دعوت دینے کا حق حاصل ہے۔ اور صورتحال یہ ہے کہ ہم اپنا موقف عالمی اداروں تک ان کی زبان میں اور ان کے اسلوب میں پیش ہی نہیں کر رہے، ہماری تمام تر تگ و دو جلسہ عام میں تقریر کر لینے یا اخبار میں مضمون لکھ لینے تک محدود ہے اور عوامی جلسوں میں بھی ہم جذباتی تقریریں کرتے ہیں، دلیل سے بات نہیں کرتے، اور آج کی نئی پود دلیل کی بات کو سنتی ہے جذبات کی نہیں۔ چنانچہ اگر امریکا، یورپی یونین، اقوام متحدہ، جنیوا ہیومن رائٹس کمیشن اور بین الاقوامی ادارے قادیانیوں کو سپورٹ کر رہے ہیں تو ہمیں اس کے اسباب کو سمجھنا چاہیے، اس میں ان کے ساتھ ساتھ ہمارا قصور بھی ہے۔

مذہب ہمارے اور مغرب کے درمیان تنازعہ کا ایک مستقل عنوان ہے۔ مغرب کہتا ہے کہ مذہب کا کوئی اجتماعی اور معاشرتی کردار نہیں ہے، اسے عقائد و اخلاقیات اور عبادات تک محدود رکھو۔ حکومت و سیاست، قانون و عدالت اور معیشت و تجارت میں مذہب کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اور ملک کے تمام شہری مذہبی حقوق میں بالکل برابر ہیں، ان کے درمیان کوئی امتیاز روا نہ رکھا جائے اور کسی شہری کے مذہبی حقوق پر آپ قدغن نہیں لگا سکتے۔ جبکہ ہم مسلمانوں کے انفرادی معاملات بھی مذہب کے حوالے سے طے پاتے ہیں، خاندانی نظام بھی مذہبی تعلیمات کے دائرہ میں تشکیل پاتا ہے، اور اجتماعی و معاشرتی معاملات بھی مذہبی ہدایات کے پابند سمجھے جاتے ہیں۔