غزہ پر عالمی دہشت گرد ملک اسرائیل اور یمن پر صہیونی دہشت گردوں کے سرپرست ملک امریکا کی بمباری جاری ہے۔ غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ معصوم بچے اور خواتین بن رہے ہیں۔ تین دن سے جاری بمباری میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں چھ سو بچے شامل ہیں۔
مغربی ریاستوں کی پشت پناہی سے مشرقِ وسطیٰ میں قائم دہشت گردی کے اڈے یعنی اسرائیل کی سفاکی، شیطنت اور ظلم وجبر کا مشاہدہ کرنے کے باوجود دنیا کے نام نہاد انسانیت نواز ممالک، اقوام اور ادارے دم سادھے انسانی لہو یہ ارزانی دیکھ رہے ہیں، لیکن آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ روکنے کی سکت کوئی بھی ملک نہیں رکھتا، کیونکہ اس دہشت گرد ی کے پیچھے امریکا جیسی طاقت ور ریاست جس کا دعویٰ ہے کہ آزادی، انصاف، مساوات اور انسانی حقوق اس کی بنیادی اقدا ر ہیں، مکمل جانب داری، امتیازی رویے بلکہ ڈھٹائی اور اعلیٰ درجے کی بے حیائی کے ساتھ موجود ہے۔ یمن کے حوثی قبائل نے اہلِ غزہ کے ساتھ یکجہتی کے لیے جو چند ایک علامتی میزائل تل ابیب کی جانب پھینکے ہیں، ان کا جواب یمن کی فضاؤں کو بارود سے بھرکے دیا جارہاہے۔ المیہ صرف یہ نہیں کہ غز ہ میں معصوم بچے شہید ہورہے ہیں بلکہ المیہ یہ ہے کہ عالم ِ اسلام اس بھیانک نسل کشی پر سکوت کی حالت میں ہے جو کہ خود اس کے اتحاد، سلامتی اور بقا کے لیے شدید مضمرات کا حامل ہے۔ کسی باغ کے ایک درخت میں آگ لگنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں لیا جاسکتا کہ باقی درخت محفوظ ہی رہیں گے بلکہ خدشہ یہی ہوتاہے کہ ایک درخت کو لگنے والی آگ بہت جلد چمن کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ عالم اسلام نے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا تدارک نہ کیا تو بہت جلد عرب ممالک اور پھر پورا عالم اسلام اس آگ کی لپیٹ میں آجائے گا۔
یہ امر تاریخی شواہد کی صور ت میں ثابت ہے کہ ایک خطے اور منطقے میں ہونے والی کشیدگی، عوامی انتشار، انارکی اور فساد قریبی خطوں پر بھی اثرانداز ہوتاہے۔ کشیدہ حالات میں قانون کی عمل داری کمزور پڑجاتی ہے۔ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں۔ خطے کا امن، معاشی و اقتصادی حالات، بڑے انسانی گروہوں کا باہمی تعامل سب کچھ متاثر ہوجاتاہے۔ اس غیرمستحکم ماحول میں منشیات اور اسلحے کی سمگلنگ، امن مخالف یا جنگ کے خواہاں گروہوں کی نقل و حرکت اور تخریبی کارروائیوں کے لیے وسیع مواقع میسر آتے ہیں۔ یوں کشیدگی پھیلتی چلی جاتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی بہت سے قبائل، شہر اور قومیں اس جنگ زدہ صورت حال کی لپیٹ میں آجاتی ہیں۔ ان حالات میں غیرعلاقائی طاقتوں یا موجودہ دور میں عالمی سطح پر طاقتور سمجھے جانے والی ریاستوں کو مداخلت کا موقع میسر آجاتا ہے، جسے وہ اپنے مفادات کے حصول کی خاطر استعمال کرتی ہیں۔ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس وقت عالمِ اسلام انہی کیفیات سے گزر رہا ہے۔ پاکستان سے لے کر ترکیہ اور افریقہ تک ایک زنجیر کی صورت میں جڑے ہو ئے عالم اسلام میں جگہ جگہ آگ لگی ہوئی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کی صورت میں موجود دہشت گرد ریاست فلسطینی عوام ہی کو نہیں کچل رہی بلکہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم کے اثرات قرب و جوار کی ریاستوں پر بھی مرتب ہورہے ہیں۔
شام اور لبنان اس کی بمباری کی زد میں ہیں جبکہ ترکیہ جو کہ علاقائی سطح پر اسرائیلی توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے، سیکولر، لسانی گروہوں اور مذہبی اختلاف رکھنے والے گروہوں کی ریشہ دوانیوں کی زد میں آرہی ہے۔ ترکیہ سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق صدر رجب طیب اردوان کی حکومت کے خلاف سیکولر بنیادوں پر عوامی مزاحمت برپا کرنے کی کوششیںکی جارہی ہیں۔ ترک حکام کے مطابق استنبول کے میئر امام اوغلو کو شفاف تحقیقات کے بعد انتہائی سنگین معاملات میں ملوث ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا ہے، جس میں ترکیہ کی حالیہ تاریخ کا سب سے بڑا کرپشن اسکینڈل، کردباغیوں سے روابط اور قومی سلامتی کی مخالف سرگرمیوں کا ارتکاب شامل ہے۔ حکام کے مطابق ترکیہ میں حکومت مخالف مظاہروں میں یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کو منظم کرنے اور سیکولر عناصر سمیت کردوں اور علوی کہلانے والے گروہوں کو برانگیختہ کرنے میں بیرونِ ملک سے چلائے جانے والے سماجی روابط کے جدید مواصلاتی ذرائع کا اہم کردار ہے۔ قوم پرست نظریات، مذہبی عقائد، مغربی نظریہ ٔ حیات پر مشتمل اقدار اور غیرضروری مطالبات کی بنیاد پر نوجوانوں کو بھڑکایا جارہا ہے۔ استنبول کی سڑکوں پر لاکھوں عوام کو حکومت مخالف مظاہروں میں لانے کے لیے بیرونی کردار تک ترک حکام کی رسائی ہوچکی ہے۔ ان حالات میں خود ہی سوچا جاسکتا ہے کہ ترکیہ حکومت جو کہ پہلے ہی ایک تنے ہوئے رسے پر چل رہی ہے او ر کسی مسلم ملک کے ساتھ تعاون کے لیے کس حد تک قدم اٹھا سکتی ہے؟ اس کے باوجود ترکیہ کی موجودہ قیادت نے ہمت، اخوت اور دانش و بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے شام میں استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ فی الواقع یہ ترک قیادت کا ایسا اقدام ہے جس نے خطے میں عرب ممالک کو علاقائی سطح پر تقویت فراہم کردی ہے۔ اس وقت عرب ممالک کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ وہ شام کی حکومت کو اس حد تک مستحکم کرنے کی کوشش کریں کہ اسے اسرائیل اور ایران کا مشترکہ ہدف بننے کا خطرہ نہ رہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ترک قیادت کو شام کے استحکام میں کردار ادا کرنے، ترکوں اور عربوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے، غزہ کے معاملے میں ممکنہ قائدانہ کردار اور اسرائیل کو ترکیہ کی عسکری قوت سے درپیش خطرات کی وجہ سے سزا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امریکا، اسرائیل اور دیگر مغربی طاقتیں ترکیہ کو داخلی انتشار میں پھنسا کر اپنے قدموں پر جھکانا چاہتی ہیں۔
غور کیا جائے تو یہی صورت حال وطنِ عزیز پاکستان کو بھی درپیش ہے۔ پاکستان کو داخلی معاملات میں پھنسا کر اسے عالم اسلام کی سطح پر کوئی بھی مؤثر کردار ادا کرنے سے روکنے کے لیے سیاسی، مذہبی، لسانی اور علاقائی بنیادوں پر ہونے والی انارکی میں دھکیل دیا گیا ہے جبکہ پڑوسی ملک جس کی امریکا کے ساتھ قربت اب مخفی نہیں رہی، عالم اسلام کی سب سے بڑی عسکری قوت پر حملہ آور ہے۔ مسلم اُمہ کو مجموعی طور پر ان حالات پر غور کرنے اور اپنی ذمہ داریاں اداکرنے کی ضرورت ہے۔ عالم ِ اسلام غزہ کے لیے کوئی مؤثر کردار اسی صورت ادا کرسکتا ہے جبکہ اس کا داخلی اتحاد سلامت رہے۔ پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ مزید قریب آئیں اور عالم اسلام کی سطح پر دفاعی اور اقتصادی اتحاد قائم کیا جائے۔ مسلم عوام میں شعور بیدار کرنے کے لیے عالم اسلام کی سطح پر ایک زبردست رضاکار تحریک کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ حقیقت جان لینی چاہیے کہ غزہ پر ٹوٹنے والی قیامت صرف فلسطین کا مسئلہ نہیں ہے، یہ مسلم امہ کا مشترکہ مسئلہ ہے اور عالم اسلام کو اس معاملے کے حل کے لیے ہر ممکن کردار اداکرنا چاہیے۔