شیطانی طاقتوں کا نیا حملہ، مسلم اُمہ کا امتحان

امریکا اور اسرائیل کے شیطانی اتحاد نے ایک مرتبہ پھر غزہ کے نہتے شہریوں پر آتش و آہن کے برسات شروع کر رکھی ہے۔ گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں سے جاری حملوں میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی جامِ شہادت نوش کر چکے ہیں۔ گو کہ شہید ہونے والوں میں غزہ شہر سے تعلق رکھنے والی حماس کی مقامی قیادت اور مشہور مجاہد ابوحمزہ بھی شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے ہیں، تاہم بڑی تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی ہے جن کے لاشے امتِ مسلمہ کی بے حسی، بزدلی اور بے حمیتی کی علامت بن کر غزہ کی سرزمین پر بکھرے ہوئے ہیں۔
شرفِ انسانیت سے محروم شقی القلب اسرائیلی وزیراعظم مجرم یاہو نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں اہداف کے حصول یعنی یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے حماس کے خاتمے تک یہ جنگ جاری رہے گی۔ نیتن یاہو کے ایک شیطان وزیر نے ٹی و ی چینل پر دھمکی دی ہے کہ امریکا کی مدد سے اسرائیل کے حالیہ حملوں کی شدت سے اہلِ غزہ کو اندازہ لگا لینا چاہیے کہ نئی جنگ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گی لہٰذا فلسطینیوں کو ہماری طاقت کے سامنے سر جھکاتے ہوئے غزہ سے ہجرت کرنے پر تیار ہو جانا چاہیے۔ انسان کے روپ میں موجود ان شیاطین کی دھمکیوں کے جواب میں حماس نے دوٹوک جواب دیا ہے کہ اہلِ غزہ کی ہجرت صرف القدس کی جانب ہوگی۔ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ حماس نے اقوامِ عالم سے اپیل کی کہ وہ امریکا کو جنگ بندی کے لیے کردار ادا کرنے پر آمادہ کریں اور وہ اسرائیل پر جنگ بندی کی شرائط کی خلاف ورزی نہ کرنے پر دباو ڈالے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ حملوں کی شدت سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا سے حاصل کردہ بھاری بموں اور میزائلوں کا بے دریغ استعمال شروع کر دیا گیا ہے۔ نئے حملوں میں شہید ہونے والے معصوم بچوں اور خواتین کا قاتل صرف نیتن یاہو ہی نہیں بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی ہے جو حماس کو دی گئی دھمکی پر عمل پیرا ہو چکا ہے۔ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی جانب سے طاقت کے بے دریغ، بے لگام اور بلاحدود وقیود استعمال کا رویہ دراصل مغربی سیاست کا اصل چہرہ ہے۔ ڈیموکریسی، آزادی اظہار، حقوق انسانی اور انصاف کے الفاظ دراصل وہ پرفریب نعرے ہیں جن کا استعمال جارحانہ مزاج، غاصبانہ رویے اور دنیا کے وسائل پر تسلط کی شدید حرص پر پردہ ڈالنے کے لیے کیا جاتا رہا ہے۔ غزہ کی جنگ نے خوش نما اصلاحات کے پردے میں چھپے ہوئے مغربی طاقتوں کے اصل کو چہرے کو دنیا کے سامنے اجاگر کر دیا ہے۔
ایک سوال تو یہ ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے اس شیطانی اتحاد کے نتائج کیا نکلیں گے؟ کیا واقعی اہلِ غزہ کی مزاحمت دم توڑ جائے گی؟ تاہم اسی سے متصل دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا دنیا اس شیطانی کھیل کو خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہے گی یا عالمِ اسلام کی سطح پر اس کے خلاف کوئی موثر ردعمل کسی جگہ ظاہر ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ غزہ پر مسلط کردہ جنگ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ اہلِ غزہ کی مزاحمت وہ آخری حصار ہے جس نے اسرائیل کی روپ میں شیطنت، فتنہ و فساد اور آتش و آہن کے سیلاب کو روک رکھا ہے۔ جس دن یہ حصار خدانخواستہ ٹوٹا تو عرب ممالک کو اپنی بے وقعتی، بے بسی اور لاچاری کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔ مصر، اردن اور سعودی عرب کی مشترکہ افواج اسرائیل کو توسیع پسندانہ عزائم پر عمل سے روک نہیں پائیں گی۔ جہاں تک ترکیہ کا تعلق ہے تو یقینا اسرائیل اس مسلم ملک کے ساتھ دوبدو جنگ کا حوصلہ نہیں رکھتا تاہم وہ شام میں بڑی غارت گری کر کے ترکیہ کو پچھلے قدموں دھکیلنے کی کوشش ضرور کرے گا جیسا کہ شام پر حالیہ حملوں سے اس کے ناپاک عزائم کا اظہار ہوتا ہے۔ ترکیہ کے خلاف طاقت کے براہِ راست استعمال کی طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے اسرائیل اور امریکا نے اپنے ایجنٹوں اور فکری اتحادیوں کے ذریعے داخلی عدمِ استحکام کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔

استنبول میں ہونے والے مظاہروں کے پسِ پردہ کرد، ایرانی، عبرانی اور دیگر سیکولر طبقات کی موجودگی مخفی نہیں رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈے اور جعلی ویڈیوز کے ذریعے ترکیہ میں طیب اردوان کی حکومت کو ہلانے کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔ یہ مناظر خلافتِ عثمانیہ کے سقوط سے قبل کے عوامی مظاہروں سے مماثلت رکھتے ہیں جب نام نہاد جمہوریت پسندوں نے مسلم امہ کی سب سے بڑی ریاست کو خلفشار وانتشار سے دوچار کر دیا تھا۔ مملکتِ خداداد پاکستان میں بھی ایسے ہی حربوں کے ذریعے ریاست کو متزلزل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ جس طرح ترکیہ میں کرد انتہا پسندوں کو استعمال کیا جا رہا ہے بالکل اسی کی مانند پاکستان کے خلاف مذہبی دہشت گردوں، ان کے پشت پناہوں اور بلوچ علیحدگی پسند گرہوں کو متحرک کیا گیا ہے۔ امریکا، اسرائیل اور ایران کے مشترکہ مفادات کے کام کرنے والے فسادی گروہوں اور پراکسی وار بنیادی طورپر مسلم اتحاد میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ان حالات میں جبکہ عالم اسلام کا ہر اہم ملک پراکسی وار اور عدمِ استحکام کے خطرات کا سامنا کر رہا ہے، پاکستان، سعودی عرب اور ترکیہ ہی ایسے ملک ہیں جو باہمی اتحاد کے ذریعے فلسطینیوں پر مسلط کردہ جنگ کو رکوانے یا انھیں مدد فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ داخلی مسائل کی موجودگی میں وہ کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
فی الواقع موجودہ عالمی معاشی نظام میں ریاستیں خود کو بے دست و پا محسوس کر رہی ہیں تاہم مسلم عوام کا جذبہ حریت، دینِ اسلام کے ساتھ ان کی غیر متزلزل وابستگی، ان کا عقیدہ و ایمان وہ قوت ہے جو ریاستوں کی طاقت کا مداوا کر سکتا ہے۔ آج مسلم امہ کو نسل کشی، انسانیت کی توہین اور فلسطین کے معصوم بچوں کی آواز بن کر اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ اہلِ غزہ کو پہلے بھوک اور پیاس سے مارنے کی کوشش کی گئی۔ ان پر کھانا اور پانی بند کر دیا گیا اور اس کے بعد اب وہ آتش و آہن اور بارود کی زد میں ہیں۔ ان مناظر سے سبق حاصل کرتے ہوئے مسلم امہ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جوبائیڈن، ٹرمپ اور نیتن یاہو صرف چند چہرے ہیں جو آج سامنے آئے ہیں وگرنہ سیاست ِ مغرب کی تمام تاریخ نسل کشی، قبضے اور تسلط کی ایک ایسی داستان ہے جس کا ہر ورق انسانی خون سے رنگین ہے۔ مکر و فریب، دغابازی اور لالچ سے بھرپور مغربی ریاستوں نے دنیا پر اپنے ایجنڈے کے نفاذ کے لیے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا ہے۔ تعلیم سے لے کر سیاست تک زندگی کے ہر شعبے میں اپنے نظریات کو دنیا پر مسلط کرنے اور دیگر اقوام و تہذیب کی آزادی و خودمختاری کو سلب کرنے کے لیے یہ ریاستیں ہر قسم کا جبر وظلم روا رکھنے کو جائز سمجھتی ہیں۔

اہل غزہ پر ٹوٹنے والی قیامت ان کا نہیں دراصل مسلم امہ کا امتحان ہے۔ فلسطین کے مرد وزن اور بچے اور بوڑھے تو اپنے عقیدے کی گواہی دیتے ہوئے کامیاب ہوتے جا رہے ہیں۔ دعا ہے کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں اور مسلم امہ مغربی سیاست و نظامِ معیشت کے فریب سے نکلنے پر تیار ہو جائے۔