شعبان اور رمضان کے مہینوں میں مختلف فلاحی تنظیموں کی جانب سے اپنی رفاہی سرگرمیوں کے لیے عوام سے تعاون کے حصول کی مہم چلائی جاتی ہے جو ان دنوں اپنے عروج پر۔اس مناسبت سے اسلام میں سوشل ور ک کی اہمیت پر ایک پرانی گفتگوکا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
سوشل ورک یا انسانی خدمت اور معاشرہ کے غریب و نادار لوگوں کے کام آنا بہت بڑی نیکی ہے اور اسلام نے اس کی تعلیم دی ہے۔ یہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ ہے اور آپۖ نے دکھی انسانیت کی خدمت اور نادار لوگوں کا ہاتھ بٹانے کا بڑا اجر و ثواب بیان فرمایا ہے۔ حتیٰ کہ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ آقائے نامدارۖ پر وحی نازل ہونے کے بعد آپۖ کا پہلا تعارف ہمارے سامنے اسی حوالہ سے آیا ہے کہ آپۖ نادار اور مستحق لوگوں کی خدمت میں پیش پیش رہتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف کی روایت میں ہے کہ آنحضرتۖ کا معمول یہ تھا کہ چند دن کی خوراک اور پانی لے کر غارِ حرا میں چلے جاتے تھے اور سب لوگوں سے الگ تھلگ اللہ تعالیٰ کی بندگی میں مصروف رہتے تھے۔ ایک دن وہیں غار میں وحی کے آغاز کا واقعہ پیش آگیا، حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپۖ کو قرآن کریم کی پہلی آیات سنائیں۔ اس واقعہ کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا کیونکہ آپ نے کئی بار سن رکھا ہوگا اور آپ کے ذہن میں ہوگا۔ اچانک یہ واقعہ ہوا، اس سے قبل اس قسم کی بات کبھی نہیں ہوئی تھی اس لیے جناب نبی کریمۖ پر گھبراہٹ کا طاری ہونا فطری بات تھی۔
آپۖ گھر تشریف لائے، چادر اوڑھی اور لیٹ گئے۔ اہلیہ محترمہ ام المؤمنین حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا دانا و بینا خاتون تھیں، پریشانی بھانپ گئیں، پوچھا تو آنحضرتۖ نے سارا واقعہ بیان کر دیا اور ساتھ یہ بھی فرمایا کہ ”خشیت علیٰ نفسی” مجھے اپنے بارے میں ڈر لگ رہا ہے۔ اس پر حضرت خدیجہ نے آپ کو تسلی دی اور کہا کہ خدا کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو غمزدہ نہیں کرے گا۔ اور انہوں نے اپنے دعویٰ پر جو دلیل دی وہ یہ تھی کہ ”آپۖ صلہ رحمی کرتے ہیں، ضرورت مندوں کے کام آتے ہیں، مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں، لوگوں کی مشکلات میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں اور بے سہارا لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔” گویا ام المؤمنین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا کہ جو لوگ انسانی سوسائٹی میں دوسروں کے کام آنے والے ہوں اللہ تعالیٰ انہیں غمزدہ اور پریشان نہیں کیا کرتا۔
اس طرح پہلی وحی نازل ہونے کے بعد احادیث کے ذخیرہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو سب سے پہلا تعارف ہمارے سامنے آتا ہے وہ ایک سوشل ورکر کی حیثیت سے ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپۖ بہت بڑے سوشل ورکر تھے اور دکھی انسانیت کی خدمت آپۖ کی سب سے پہلی سنتِ مبارکہ ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ جناب رسول اکرمۖ کے سب سے بڑے ساتھی اور خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق کا تعارف بھی احادیث میں انہی الفاظ کے ساتھ ملتا ہے۔ احادیث میں آتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں آنحضرتۖ اور آپۖ کے ساتھیوں کے خلاف قریش کے مظالم انتہا کو پہنچ گئے اور انہیں مزید برداشت کرنے کی تاب نہ رہی تو بہت سے صحابہ کرام حضورۖ سے اجازت لے کر حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے جن میں حضرت عثمان بن عفان اور حضرت جعفر طیار بھی تھے۔ انہی دنوں حضرت ابوبکر کے ساتھ بھی اس قسم کی صورتحال پیش آئی کہ آپ اپنے گھر کے صحن میں قرآن کریم پڑھا کرتے تھے اور اردگرد کے بچے اور عورتیں اسے سننے کے لیے جمع ہو جاتے تھے۔ اس پر محلہ کے بڑے لوگوں نے حضرت ابوبکر کو منع کر دیا کہ اگر قرآن کریم پڑھنا ہو تو کمرے میں بند ہو کر پڑھیں کھلے صحن میں نہ پڑھا کریں کیونکہ اس سے ہماری عورتیں اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ حضرت صدیق اکبر اس سے دلبرداشتہ ہو کر آنحضرتۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہجرت کی اجازت چاہی کہ جہاں اپنے گھر کے صحن میں بھی قرآن کریم پڑھنے کی اجازت نہ ہو وہاں رہنے کا کیا فائدہ ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور حضرت ابوبکر اپنے گھر سے ضروری سامان اٹھا کر ہجرت کے ارادے سے مکہ مکرمہ سے نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں قبیلہ بنو قارہ کا سردار ابن الدغنہ ملا، اس نے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ حضرت صدیق اکبر نے جواب دیا کہ اب ظلم و صبر کی انتہا ہوگئی ہے اور میں ہجرت کے ارادے سے شہر چھوڑ کر کہیں اور جا رہا ہوں۔ اس کافر سردار نے کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہوگا اور میں آپ کو جانے نہیں دوں گا۔ اس موقع پر اس نے کہا کہ آپ جیسے شخص کا شہر سے چلے جانا شہر کے لوگوں کے لیے اچھی علامت نہیں ہے اور پھر حضرت ابوبکر کے بارے میں وہی بات کہی جو ام المؤمنین حضرت خدیجہ نے غار حرا سے واپسی پر جناب نبی اکرمۖ سے کہی تھی کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، محتاجوں کے کام آتے ہیں، معذوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں اور لوگوں کی مشکلات میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ چنانچہ کافروں کے قبیلہ بنو قارہ کا سردار ابن الدغنہ حضرت ابوبکر کو اپنے ساتھ واپس مکہ لے آیا اور خانہ کعبہ کے پاس کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ ابوبکر آج کے بعد میری امان میں ہیں کوئی ان کو تنگ نہ کرے۔
گویا جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھ خلیفہ حضرت ابوبکر دونوں کا مزاج و طبیعت ایک تھے اور دونوں کی عادات و اخلاق یکساں تھے۔ اس لیے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اسلام میں نبوت اور خلافت دونوں کا مزاج ”سوشل ورک” کا مزاج ہے اور دونوں کی معاشرتی بنیاد سماجی خدمت پر ہے۔ اس حوالہ سے میں نوجوانوں سے بطور خاص عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مسابقت، معاصرت اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جذبہ فطری جذبہ ہے اور اسلام نے انسان کے کسی فطری جذبے کی نفی نہیں کی اور کسی طبعی ضرورت سے انکار نہیں کیا۔ البتہ ہر جذبہ اور ضرورت کا رخ متعین کر دیا ہے اور اسے منفی کی بجائے مثبت میدان میں آگے بڑھنے کی ترغیب دی ہے۔ آج کل ہمارے ہاں بھی مسابقت کا جذبہ کار فرما ہے لیکن اس کا میدان اور ہے۔ اس کا اظہار دولت کے جمع کرنے میں ہوتا ہے، بلڈنگوں کی تعمیر میں ہوتا ہے، اقتدار کے حصول میں ہوتا ہے اور جماعتوں، گروہوں اور جتھوں کے قیام میں ہوتا ہے۔ جبکہ یہی مسابقت کا جذبہ صحابہ کرام میں تھا تو اس کا میدان اور تھا۔ یہ ایک فطری جذبہ ہے جس سے کوئی انسان خالی نہیں ہے مگر اس کا صحیح میدان وہ ہے جو صحابہ کرام نے پیش کیا۔
حدیث میں آتا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک رات آسمان صاف تھا، چاند نہیں تھا، ستارے ہر طرف جگمگا رہے تھے، ان گنت ستاروں کا ہجوم دیکھ کر میرے دل میں خیال آیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں کہ کیا کوئی خوش نصیب انسان ایسا بھی ہے جس کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کی طرح ان گنت ہوں۔ فرماتی ہیں کہ جی میں یہ تھا کہ اس سوال کے جواب میں میرے والد محترم (حضرت ابوبکر) کا نام ہی آ سکتا ہے لیکن حضورۖ سے یہ سوال کیا تو آپۖ نے جواب میں فرمایا کہ ہاں ایسا خوش نصیب شخص ہے اور وہ عمر بن الخطاب ہے۔ حضرت عائشہ توقع کے خلاف جواب سن کر چونک اٹھیں اور بے ساختہ دوسرا سوال کر دیا کہ ”و ابی یا رسول اللہ؟” اللہ کے رسول میرے والد محترم کہاں گئے؟ اس پر آنحضرتۖ نے فرمایا کہ عائشہ! تم ابوبکر کی نیکیوں کی بات کرتی ہو، بخدا عمر کی ساری زندگی کی نیکیاں ایک طرف مگر ابوبکر کی غار کی رات والی نیکی ان سب پر بھاری ہے جو انہوں نے ہجرت میں میرے ساتھ وقت گزارا۔ (جاری ہے)